۳۱ جنوری کو صبح دو بجے کے لگ بھگ امارات ایئرلائینز کے ذریعے دبئی سے ڈھاکہ کے لیے روانگی ہوئی، پونے چار گھنٹے کی اس فلائیٹ کو آٹھ بجے کے قریب ڈھاکہ ائیرپورٹ پر اترنا تھا لیکن سخت دھند کی وجہ سے ڈھاکہ کی فضا میں پہنچ جانے کے باوجود ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت نہ مل سکی۔ جہاز نے فضا میں چکر کاٹنا شروع کیے اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد پائلٹ مسافروں کو صورتحال سے آگاہ کرتا رہا حتیٰ کہ آخر میں اعلان کر دیا گیا کہ اگر مزید نصف گھنٹہ تک ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ پر نہ اتر سکے تو پھر ہمیں کلکتہ ایئرپورٹ پر اترنا ہو گا۔ یہ سن کر پریشانی ہوئی مگر خوشی کا ایک پہلو بھی تھا کہ دبئی اور ڈھاکہ کے ساتھ ایک ٹکٹ میں کلکتہ کا تیسر ا مزہ بھی مل جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور پندرہ بیس منٹ کے بعد پائلٹ نے اعلان کیاکہ دھند کم ہو گئی ہے اور اب ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اترنے والے ہیں، مزید ایک دو چکر کاٹنے کے بعد طیارہ دس بجے ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر اتر گیا۔
لندن سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری اپنے رفقاء مولانا مشفق الدین اور مولانا محمد فاروق کے ہمراہ امارات ایئرلائن ہی کی دوسری پرواز سے ڈھاکہ پہنچے، اس جہاز نے نو بجے پہنچنا تھا مگر اسے بھی فضامیں ایک گھنٹہ گھومنا پڑا اور وہ بھی ہمارے ساتھ دس بجے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترے۔ امیگریشن لاؤنج میں ہم اکٹھے ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے جہاز کے پائلٹ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اگر ڈھاکہ ایئرپورٹ پر جہاز کو نہ اتار سکا تو بنکاک جانا ہو گا اور طیارہ بنکاک کے ایئر پورٹ پر اترے گا۔ لیکن وہ بھی اس زائد سفر سے بچ گئے اور ہم سب اکٹھے ہی ایئرپورٹ سے باہر نکلے جہاں مدرسہ دارالرشاد میرپور ڈھاکہ کے مہتمم مولانا محمد سلمان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔ مولانا محمد سلمان دارالعلوم دیوبند کے فضلاء میں سے ہیں اور مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے فکری پیروکار ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمان اعظمی اور ندوۃ العلماء لکھنو سے حضرت مولانا سلمان الحسینی سیمینار میں شرکت کے لیے ہم سے پہلے ڈھاکہ پہنچ چکے تھے۔
مغرب کے بعد مدرسہ دارالرشاد کی مسجد میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کے ایک بھرپور اجتماع سے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی نے تفصیلی خطاب کیا اور علماء کرام کو دورِ حاضر کے حوالہ سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ یکم فروری کو فجر کی نمازکے بعد سید ابو الحسن علی ندویؒ ایجوکیشن سنٹر کے طلبہ کو حجۃ اﷲ البالغہ کا پہلا سبق پڑھا کر مولانا سلمان ندوی نے سنٹر کی تعلیمی سرگرمیوں کا افتتاح کیا۔ یہ درس نظامی کے فضلاء کی کلاس ہے اور اس میں اسی انداز سے مختلف ضروری مضامین کا دو سالہ کورس مرتب کیا گیا ہے جس طرح کا کورس ہم الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں پڑھا رہے ہیں مگر ہمارے ہاں اس کورس کا دورانیہ ایک سال کا ہے جبکہ مذکورہ سنٹر میں اس کا دورانیہ دو سال کا رکھا گیا ہے اور مضامین بھی کچھ زیادہ ہیں۔
نو بجے سیمینار کی باقاعدہ تقریب تھی اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ بزرگ عالم دین اور مسجد بیت المکرم کے خطیب مولانا عبید الحق نے سیمینار کی صدارت کی جبکہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئر مین مولانا عیسیٰ منصوری مہمان خصوصی تھے اور مقررین میں دارالعلوم دیوبند کے مولانا حبیب الرحمان اعظمی، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مولانا سید سلمان حسینی ندوی اور راقم الحروف کے علاوہ بنگلہ دیش کے دیگر سرکر دہ علماء کرام بھی شامل تھے۔ سیمینار کا عنوان ’’نئی صدی میں علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ تھا۔ راقم الحروف نے گفتگو کے آغاز میں اس طرف توجہ دلائی کہ صدی سے ہماری کیا مراد ہے؟ اس لیے کہ اگر صدی سے مراد عیسوی ہے تو فی الواقع اس کا اب آغاز ہوا ہے لیکن اگر ہجری صدی مراد ہے تو اس کا ایک ربع ہم گزار چکے ہیں، میں نے سامعین کو بتایا کہ گزشتہ عیسوی صدی کے اختتام پر ہم نے نئی صدی کے حوالہ سے ایک پروگرام کے بارے میں ملک کے مختلف ارباب دانش سے مشورہ کیا تو شہید پاکستان حکیم محمد سعیدؒ نے اپنے مکتوب میں توجہ دلائی کہ آپ کس صدی کی بات کر رہے ہیں اس لیے کہ ہم تو اپنی نئی صدی کے حوالہ سے دو عشرے قبل تقریبات کا انعقاد کر چکے ہیں۔
تمام مقررین نے دور حاضر کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالہ سے علماء کرام کی ذمہ داریوں پر تفصیلی گفتگو کی اور ظہر کی نماز کے وقت سمینار اختتام پذیر ہوا۔ اسی روز مغرب کے بعد مولانا عیسیٰ منصوری اور راقم الحروف ڈھاکہ ایئر پورٹ کے قریب ایک آبادی میں واقع مدرسہ الھدیٰ میں گئے جس میں معھد السید ابو الحسن علی ندویؒ کے نام سے الگ شعبہ قائم کیا گیا ہے اور اس میں اسی نوعیت کے پروگرام رکھے گئے ہیں جو ہم الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں چلا رہے ہیں۔ مولانا سلمان کی کوششوں سے ایک کتاب بنگلہ زبان میں شائع ہوئی ہے جس میں دینی مدارس کے نصاب کے بارے میں حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، حضرت مولانا ابوا لکلام آزادؒ، حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا شمس الحق فرید آبادیؒ سمیت متعدد اکابر اہل علم کی نگارشات کو مرتب انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اس میں ہم دونوں کی طالب علمانہ کاوش کو بھی نمایاں جگہ دی گئی ہے۔
جمعہ کے روز صبح ناشتہ کے بعد ہم جامعہ حسینیہ دیکھنے گئے جو ڈھاکہ کے قدیمی مدارس میں سے ہے اور اس کے بانی حضرت مولانا شمس الدین قاسمی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سرگرم رہنماؤں میں شامل رہے ہیں، وہ متحدہ پاکستان کے دور میں جمعیۃ علماء اسلام مشرقی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے اور جماعتی اجلاسوں کے لیے اکثر لاہور آیا کرتے تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا ہے اور اب ان کی جگہ ان کے رفیق کار مولانا عبد الحمید چودھری اور فرزند مولانا بہاؤ الدین زکریا خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہاں اساتذہ اور طلبہ کے اجتماع سے مختصر گفتگو کا موقع ملا۔
اس کے بعد وفاق المدارس العربیہ بنگلہ دیش کے ہیڈ آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ بنگلہ دیش میں بھی مدارس دینیہ کے مختلف وفاق کام کر رہے ہیں جن میں سب سے بڑا وفاق المدارس العربیہ ہے جس کے ساتھ ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ مدارس کا الحاق ہے۔ وفاق کے ناظم اعلیٰ مولانا عبد الجبار بھی جمعیۃ علماء اسلام کے سابق رہنماؤں میں سے ہیں اور اس دور میں لاہور تشریف لاتے رہے ہیں، ان سے وفاق کے نصاب و نظام کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جمعہ کی نماز ہم نے مسجد بیت المکرم میں ادا کی اور مولانا عبید الحق کا خطاب سنا۔ مسجد بیت المکرم جاتے ہوئے ایک لطیفہ بھی ہو گیا کہ چند روز قبل تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے کچھ حضرات راستے میں ملے اور انہوں نے مولانا عیسیٰ منصوری سے ملاقات کرتے ہوئے یہ سوال کیا کہ کیا آپ حضرات بھی تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے آئے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ہم اجتماع کے بعد پہنچے ہیں۔ اس پر ایک صاحب نے یہ مصرعہ پڑھ دیا کہ
مولانا منصوری نے اس پر بے ساختہ کہا کہ کیا تبلیغی اجتماع میں شرکت نہ کرنے سے انسان ملت سے خارج ہو جاتا ہے؟ وہ صاحب تو آگے نکل گئے مگر مولانا منصوری کو اس پر افسوس ہوا اور انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے بعض ناعاقبت اندیش حضرات اس قسم کا ذہن پیدا کر کے ایک مفید دینی کام کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت بنگلہ دیش کے دفتر میں حاضری ہوئی، حضرت مولانا عبید الحق جو مجلس تحفظ ختم نبوت بنگلہ دیش کے امیر ہیں انہوں نے دفتر میں ظہرانہ دیا جس میں مجلس تحفظ ختم نبوت بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل مولانا نور الاسلام اور دیگر علماء کرام شریک ہوئے اور قادیانیوں کی بنگلہ دیش میں سرگرمیوں اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی مساعی پر گفتگو ہوئی۔
مغرب کے بعد گرینڈ آزاد ہوٹل میں حضرت مولانا محی الدین خان نے شریعت کونسل بنگلہ دیش کی طرف سے ہمارے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں سرکردہ علماء کرام کے علاوہ بنگلہ دیش کے ڈپٹی منسٹر جناب فضل الحق اور سابق وزیر مذہبی امور جناب ناظم الدین آزاد نے بھی شرکت کی۔ اس پروگرام کے حوالہ سے ایک الگ تفصیلی رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
اس کے علاوہ اس روز الحمید فاؤنڈیشن کے دفتر میں بھی حاضری ہوئی جو حضرت مولانا عبد الحمید کے حلقہ احباب نے قائم کی ہے اور مولانا موصوف کے فرزند مولانا محمد عبد اﷲ اس کے انتظام کو چلا رہے ہیں۔ مولانا عبد الحمید بنگلہ دیش کے بزر گ علماء کرام اور روحانی پیشواؤں میں شمار ہوتے ہیں اور ڈھاکہ کے نواح میں مدھوپور نامی بستی میں ایک بڑے دینی مدرسہ جامعہ حلیمیہ کے مہتمم ہیں۔ مولانا محمد عبد اﷲ گوجرانوالہ میں رہے ہیں اور مدرسہ نصرۃ العلو م کے فاضل ہیں، ان کے ساتھ بنگلہ دیش میں دینی تعلیم کی ضروریات اور رفاہی کاموں کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ یہ سفر ابھی جاری ہے اور اس کے تاثرات قارئین کی خدمت میں تسلسل کے ساتھ پیش ہوتے رہیں گے، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔