روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۹ ستمبر ۲۰۱۴ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکہ نے چناب نگر میں قادیانیوں کے دو کالجوں کو ڈی نیشنلائز کرنے کے لیے حکومت پنجاب سے کہا ہے جبکہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ان کالجوں کو ڈی نیشنلائز کرنے سے انکار کر دیا ہے۔انکار کے حوالہ سے محکمہ نے جو تفصیل جاری کی ہے اس کے مطابق گورنمنٹ ٹی آئی کالج اور جامعہ نصرت کالج چناب نگر قادیانی جماعت نے ۱۹۷۲ء میں قائم کیے تھے، اس وقت کی حکومت نے انہیں سرکاری کنٹرول میں لے لیا تھا اور یہ کالج ہائر ایجوکیشن کے بغیر کسی تفریق کے انٹر سے پوسٹ گریجویٹ تک تعلیم کی علاقہ بھر کے عوام کو سہولت فراہم کر رہے ہیں جبکہ بھاری سرکاری اخراجات سے بلڈنگوں کی تعمیر، مختلف شعبوں کے قیام اور بغیر تفریق کے تعلیمی انتظامات کے علاوہ محکمہ نے یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ مذہبی طور پر یہ معاملہ پاکستان میں حساس ہو سکتا ہے اور ان کالجوں کو سرکاری تحویل سے نکالنے پر مذہبی اور سماجی جھگڑا ہو سکتا ہے جو امن عامہ کے حوالہ سے خطرناک ہو گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں امریکی نمائندہ برائے پاکستان و افغانستان نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کر کے ان سے یہ درخواست کی تھی جس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر صوبائی وزیر کرنل (ر) شجاع خانزادہ نے امریکی قونصلیٹ کی سیاسی سیکرٹری لبنی خان سے ملاقات کر کے انہیں حکومت کے موقف سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے قادیانیوں کے کالجوں کو واپس کرنے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس طرح کا فیصلہ کسی بھی ملک کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے۔
جہاں تک محکمہ تعلیم کے موقف کا تعلق ہے وہ ملکی مفاد اور عوام کے جذبات کے حوالہ سے انتہائی مناسب اور خوش آئند ہے جس پر صوبائی حکومت تحسین کی مستحق ہے، لیکن امریکہ کی طرف سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس طرح کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ جب سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا ہے اور بعض بین الاقوامی معاہدات و معاملات میں امریکہ کے ساتھ شراکت اور رفاقت اختیار کی ہے اس قسم کی مداخلت روزمرہ معمولات کا حصہ بنی ہوئی ہے، اور صرف امریکہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کے اتحادی دیگر مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی مسلسل دخل اندازی نے پاکستان کے نظام و قوانین اور دستور کی عملداری کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے قومی المیہ کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ خود ہمارے بعض مقتدر طبقات اور گروہوں نے اپنے مفادات کی خاطر عالمی اداروں اور مغربی طاقتوں کو پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کے مسلسل مواقع فراہم کر کے قومی خودمختاری کو داؤ پر لگا دیا ہے جس سے ہمارے بہت سے قومی معاملات خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، تعلیمی ہوں یا ثقافتی اور سماجی ہوں یا علاقائی، بیرونی قوتوں کی مداخلت کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ اور خاص طور پر قادیانیوں کی سرپرستی اور ملک و قوم کے خلاف ان کے معاندانہ موقف اور ہٹ دھرمی کی پشت پناہی میں ان بیرونی لابیوں نے اصولوں اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔
امریکہ اور اس کے ہمنوا مغربی ممالک دنیا بھر میں ہر وقت جمہوریت کی بالا دستی، پارلیمنٹ کی حکمرانی اور دستور و قانون کی عملداری کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اور ان کے علم میں ہے کہ قادیانیوں نے گزشتہ چالیس سال سے ملک کی منتخب پارلیمنٹ کے جمہوری فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور وہ پاکستان کے دستور و قانون کے خلاف دنیا بھر میں محاذ آرائی میں مصروف ہیں، لیکن امریکی حکومت انہیں ملک کے دستور اور عوام کے جمہوری فیصلے کو تسلیم کرنے کی تلقین کرنے کی بجائے ان کے دو کالجوں کو آزاد کرانے کی فکر میں ہے اور ملک کے دستور و قانون کے خلاف قادیانیوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ہم امریکی حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ ہر معاملہ میں قادیانیوں کی پشت پناہی کرنے کی بجائے زمینی حقائق اور پاکستانی عوام کے جمہوری حقوق و مفادات کا احترام کرے اور قادیانیوں کی نازبرداری کا رویہ ترک کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون اور پاکستانی عوام کے مذہبی و جمہوری جذبات اور موقف کی پاسداری کا راستہ اختیار کرے کیونکہ جمہوریت، دستور اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کا یہی تقاضہ ہے۔