پہلے احتساب یا انتخاب؟

   
۲۶ نومبر ۱۹۹۶ء

پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے انتخابات بہرصورت تین فروری کو کرانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی اسمبلی احتساب کے لیے نہیں بلکہ انتخاب کے لیے توڑی گئی ہے اس لیے احتساب کے نام پر انتخابات کو ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سے قبل صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے بھی اپنی نشری تقریر میں کہا تھا کہ وہ احتساب کے نام پر انتخاب کو ملتوی نہیں ہونے دیں گے، لیکن اس کے باوجود نگران حکومت جس طرح احتساب اور انتخاب کے لیے بیک وقت اپنے عزائم کا اظہار کر رہی ہے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کی فضا بدستور قائم ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کی سمجھ بوجھ کے مطابق صورت احوال یہ ہے کہ کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار جس گرماگرمی اور عروج تک پہنچ چکا ہے اسے سمیٹنے اور معمول پر لانے کے لیے تین ماہ کا عرصہ قطعی طور پر ناکافی ہے اور ’’گند‘‘ کی مکمل صفائی کئے بغیر انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن اگر احتساب کو مکمل اور بامقصد بنانے کے لیے انتخابات کے التوا کی کوئی صورت نکالی جاتی ہے تو آئینی جواز کا مسئلہ پیدا ہو جانے کے علاوہ یہ سوال بھی کھڑا ہو جائے گا کہ احتساب کے بامقصد، مؤثر اور نتیجہ خیز ہونے کی آخر کیا ضمانت ہے؟ اور کیا احتساب کا یہ نعرہ نگران حکومت کے دورِ اقتدار کی طوالت کے لیے محض آڑ تو ثابت نہیں ہو گا؟ عام حلقوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کی بنیاد صرف قیاس آرائیوں پر نہیں بلکہ ان کے پیچھے ملک کی پچاس سالہ تاریخ ہے کہ احتساب کے نام پر کئی حکومتوں نے اقدامات کیے لیکن کوئی بھی عمل منطقی انجام تک نہیں پہنچا اور انتخاب نے بھی اب تک درجنوں چولے بدل لیے ہیں لیکن حکمران کلاس، چہروں اور طرزِ حکومت میں کوئی تبدیلی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے نوے دن کے لیے اقتدار سنبھالا اور اس کے ساتھ احتساب کا اعلان بھی کیا، تو احتساب یا انتخاب کی یہ بحث اس وقت بھی چلی تھی اور خود قومی اتحاد کے رہنما ان حوالہ سے دو ذہنی کا شکار ہو گئے تھے۔ مولا نا مفتی محمودؒ جو پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ تھے، احتساب کے نام پر انتخاب کو ملتوی کرنے کے حق میں نہیں تھے اور ہر قیمت پر بروقت انتخابات کرا دینے پر زور دے رہے تھے، جبکہ خان عبد الولی خان ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگا کر اس کے حق میں مسلسل بیانات دے رہے تھے۔ راولپنڈی کے ایک پبلک جلسے میں خان عبد الولی خان نے مفتی صاحب مرحوم سے مخاطب ہو کر یہ مسئلہ پوچھا کہ آپ جس جگہ نماز پڑھنا چاہتے ہیں اگر وہ ناپاک ہو تو پہلے آپ نماز پڑھیں گے یا پہلے جگہ کو پاک کریں گے؟ مفتی صاحب نے اپنے خطاب میں اس کا جواب دیا کہ پہلے جگہ پاک کریں گے، لیکن جگہ کی صفائی میں اتنا وقت نہیں لگائیں گے کہ نماز ہی قضا ہو جائے۔

جنرل ضیاء الحق مرحوم نے نوے دن کے حوالے سے بہت طعنے سہے اور بڑی باتیں سنیں۔ اس سلسلہ میں ایک پر لطف واقعہ یاد آگیا کہ جنرل صاحب مرحوم اپنے کسی عزیز کی شادی میں ہری پور تشریف لے گئے۔ جمعہ کا دن تھا، جمعہ کی نماز انہوں نے شیرانوالہ گیٹ کی جامع مسجد میں ادا کی، جہاں ان دنوں ہمارے ایک انتہائی بے تکلف دوست مولانا فضل رزاق مرحوم خطیب تھے اور جامع مسجد کے ساتھ تدریس القرآن کے نام سے ایک مدرسہ بنا رہے تھے جو اس وقت زیرِتعمیر تھا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب کیا اور اپنے خطاب کے آخر میں زیرِتعمیر مدرسہ کے لیے غالباً ڈیڑھ لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ نماز جمعہ کے بعد چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر جب جنرل صاحب رخصت ہونے لگے تو الوداعی مصافحہ کے لیے ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے مولانا فضل رزاق مرحوم نے کمال بے تکلفی اور بذلہ سنجی کے ساتھ پوچھ لیا کہ ’’جنرل صاحب! کیا یہ پیسے نوے دن تک مل جائیں گے؟‘‘

یہ واقعہ مولانا فضل رزاق مرحوم نے خود مجھ سے بیان کیا کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم یہ سن کر پہلے چونکے پھر زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’’جلدی مل جائیں گے‘‘ اور چند روز تک اس رقم کا چیک مدرسہ کی انتظامیہ کو موصول ہو گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوے دن کا یہ وعدہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے لیے ان کے پورے دورِ اقتدار میں مسئلہ بنا رہا اور اس حوالہ سے انہیں بہت کچھ سننا اور برداشت کرنا پڑا، لیکن وہ احتساب کے اس عمل کو منطقی نتیجے تک نہ پہنچا سکے، جس کے لیے انہوں نے انتخابات کے التوا کا اعلان کیا تھا۔

پچھلی باتوں کو چھوڑ کر ہم گزشتہ انیس سال یعنی ۱۹۷۷ء کے مارشل لاء کے بعد کے حالات کا جائزہ لے لیں۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے احتساب کی خاطر دو مرتبہ الیکشن کے التوا کا اعلان کیا اور گیارہ سال برسراقتدار رہے، لیکن احتساب نہ ہو سکا، پھر انتخابات کا دور شروع ہوا اور کہا گیا کہ سب سے اچھا احتساب وہ ہے جو عوام ووٹ کے ذریعے خود کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۹۸۵ء، ۱۹۸۸ء، ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۳ء میں چار بار انتخابات ہوئے، مگر دس سال میں چار الیکشنوں کے بعد بھی ہم اسی زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں کہ حالات کی اصلاح کے لیے انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے یا احتساب کو پہلے مکمل کر لیا جائے۔

اس لیے ہمارے نزدیک اصل مسئلہ انتخاب کا ہے نہ احتساب کا، بلکہ بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ’’گدھی گیڑے‘‘ سے نکلنے کے لیے ان رکاوٹوں کو تلاش کیا جائے جو انتخاب اور احتساب دونوں کو مؤثر اور نتیجہ خیز ہونے سے مسلسل روکے ہوئے ہیں اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی جائے جو ملک میں بہتری اور اصلاح کے کسی بھی عمل کی راہ میں ناقابلِ عبور خلیج بن کر حائل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جب تک ان رکاوٹوں کی نشاندہی نہیں ہوگی اور انہیں دور کرنے کے لیے کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھایا جائے گا، ہم اسی طرح احتساب اور انتخاب کے نام پر آنکھوں پر پٹی باندھے ایک ہی کولہو کے گرد گھومتے رہیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter