حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم کچھ صحابہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ پر جا رہے تھے، ہم میں سے ایک شخص نے راستہ میں ایک غار دیکھا جس میں پانی کا چشمہ تھا، اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر نبی اکرمؐ اجازت مرحمت فرما دیں تو میں اپنی باقی عمر اسی غار میں اللہ اللہ کرتے ہوئے گزار دوں۔ یہ سوچ کر حضورؐ سے مشورہ و اجازت لینے کی غرض سے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرتؐ نے اس کی خواہش سن کر فرمایا
’’میں یہودیت یا عیسائیت (کی طرح رہبانیت) کی تعلیم دینے کے لیے نہیں مبعوث ہوا۔ میں تو یکسوئی کا سیدھا راستہ لے کر آیا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ہے، جہاد فی سبیل اللہ میں ایک صبح یا ایک شام کا وقت گزار لینا دنیا اور اس کی تمام دولت سے بہتر ہے اور تمہارا جہاد کی اگلی صف میں کھڑا ہونا ساٹھ سال کی نماز سے بہتر ہے۔‘‘ (مسند امام احمدؒ)
حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ قرونِ اولیٰ کے بہت بڑے بزرگ امام اور محدث کبیر گزرے ہیں جو علمِ حدیث کی خدمت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں بھی حصہ لیتے تھے۔ ان کے زمانہ میں معروف بزرگ حضرت فضیل بن عیاضؒ نے عبادت کی غرض سے بیت اللہ الحرام میں مستقل قیام کر رکھا تھا۔ محمد بن ابی سکینہؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن المبارک ’’طرسوس‘‘ کی لڑائی پر جا رہے تھے اور مجھے حج بیت اللہ پر روانہ ہونا تھا۔ میں انہیں الوداع کہنے کے لیے جائے قیام سے دور تک ان کے ساتھ آیا تو انہوں نے حضرت فضیل بن عیاضؒ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے مجھے یہ شعر لکھوائے:
یا عابد الحرمین لو ابصرتنا
لعلمت انک فی العبادۃ تلعب’’اے حرم شریف میں عبادت کرنے والے! اگر آپ ہمیں جہاد میں مصروف دیکھ لیتے تو جان لیتے کہ آپ عبادت میں کھیل رہے ہیں‘‘۔
من کان یخضب خدہ بدموعہ
فنحورنا بدمائنا تتخضب’’جو شخص اپنے رخساروں کو اپنے آنسوؤں کے ساتھ بھگوتا ہے، سن لے کر ہماری گردنیں ہمارے خون کے ساتھ رنگی جاتی ہیں‘‘۔
او کان یتعب خیلہ فی باطل
فخیولنا یوم الصبیحۃ تتعب’’یا جس کا گھوڑا فضول کاموں میں تھک جاتا ہے، سن لے کہ ہمارے گھوڑے جنگ کی صبح کو مشقت کرتے ہیں‘‘۔
ریح العبیر لکم ونحن عبیرنا
رھج السنابک والغبار الاطیب’’عطروں کی خوشبو تمہارے لیے ہے اور ہماری خوشبو تو گھوڑوں کے قدموں کی دھول اور خوشگوار غبار ہے‘‘۔
ولقد اتانا من مقال نبینا
قول صحیح صادق لایکذب’’اور تحقیق ہمارے پاس تو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ایک سچا اور صحیح قول ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا‘‘۔
لا یستوی وغبار خیل اللہ فی
انف امری ودخان نارتلھب’’کہ کسی کی ناک میں پڑنے والا مجاہدین فی سبیل اللہ کے قدموں کا غبار اور بھڑکنے والی آگ کا دھواں برابر نہیں ہو سکتے‘‘۔
ھذا کتاب اللہ ینطق بنینا
لیس الشھید بمیت لایکذب’’یہ اللہ کی کتاب ہمارے درمیان گویا ہے کہ شہید مردہ نہیں ہوتے اور یہ بات جھٹلائی نہیں جا سکتی‘‘۔
محمد بن ابی سکینہؒ کہتے ہیں کہ میں نے جب یہ اشعار حضرت فضیل بن عیاضؒ کی خدمت میں پیش کیے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمانے لگے کہ ابوعبد الرحمانؒ (یعنی عبد اللہ بن المبارکؒ) نے سچ کہا ہے اور انہوں نے مجھے نصیحت فرمائی ہے۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا کیا تم حدیث لکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں! انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن المبارکؒ کا پیغام مجھ تک پہنچانے کی جزا میں ایک حدیث تمہیں لکھواتا ہوں اسے لکھ لو۔ پھر انہوں نے یہ حدیث لکھوائی:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کے ساتھ میں خدا کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا رتبہ حاصل کر سکوں۔ آنحضرتؐ نے دریافت کیا کہ کیا تم اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ ’’نماز شروع کرو اور وقفہ کے بغیر پڑھتے ہی چلے جاؤ؟ اور روزہ رکھو اور اس کو افطار نہ کرو؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں تو کمزور آدمی ہوں اس کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اگر تم اس عمل کی طاقت رکھتے تو بھی مجاہدین فی سبیل اللہ کے درجہ کو نہ پہنچ سکتے‘‘۔