کراچی میں حرکۃ المجاہدین کے زیراہتمام منعقد ہونے والے ’’طلباء سیمینار‘‘ میں شرکت کے لیے ۱۳ ستمبر کو رات مولانا اللہ وسایا قاسم اور سید سلمان گیلانی کے ہمراہ کراچی پہنچا تو ایئرپورٹ پر ہی اطلاع مل گئی تھی کہ انتظامیہ نے نشتر پارک میں حرکۃ المجاہدین کو سیمینار منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اور نشتر پارک کو پولیس کی گاڑیوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے تاکہ حرکۃ کے نوجوان وہاں سیمینار کے انتظامات نہ کر سکیں۔ گلشن اقبال میں حرکۃ کے ترجمان ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کے دفتر پہنچ کر مزید تفصیلات معلوم ہوئیں اور پتہ چلا کہ گفتگو جاری ہے مگر انتظامیہ کے ارباب حل و عقد اس بات پر مصر ہیں کہ یہ سیمینار نشتر پارک میں نہ ہو بلکہ کسی اور جگہ منعقد کر لیا جائے۔ حرکۃ کے نوجوانوں کا اصرار تھا کہ اگر انتظامیہ کو یہی کرنا تھا تو یہ بات چند روز پہلے کہہ دی جاتی کیونکہ سیمینار کا اعلان اور اس کی تشہیر کافی دنوں سے ملک بھر میں ہو رہی تھی مگر سب اعلانات، رابطوں اور انتظامات کے مکمل ہونے کے بعد صرف ایک دن پہلے نشتر پارک کو ممنوع قرار دینا سخت ناانصافی بلکہ جانبدارانہ طرز عمل کی غمازی کرتا ہے۔ کیونکہ اب نہ دوبارہ تشہیر ہو سکتی ہے اور نہ ہی مختلف مقامات پر احباب سے رابطے کر کے سب کو متبادل جگہ کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے۔ حرکۃ کے نوجوانوں کو اس بات کا غصہ تھا کہ ابھی ماضی قریب میں نشتر پارک میں فلاں فلاں تنظیم کے جلسے ہو چکے ہیں تو حرکۃ کے سیمینار میں کیا خرابی نظر آرہی ہے کہ انتظامیہ نشتر پارک میں اس کے انعقاد کی روادار نہیں ہے۔
میرے لیے اس موقع پر انتظامیہ کے کسی ذمہ دار سے بات کرنا اور ان سے اس صورتحال کی وجہ معلوم کرنا تو بہت مشکل تھا البتہ ارباب نظم و نسق کے موقف کا بالواسطہ طور پر جتنا علم ہو سکا اس کے مطابق ظاہری بات تو یہ تھی کہ وہ امن عامہ کے نقطۂ نظر سے نشتر پارک میں اس سیمینار کے انعقاد کو درست نہیں سمجھ رہے تھے لیکن بین السطور یہ بات بھی صاف پڑھی جا رہی تھی کہ اتنی مصروف اور تاریخی جلسہ گاہ میں ’’حرکۃ المجاہدین‘‘ کے اتنے بڑے جلسہ کا انعقاد امریکہ بہادر کو زیادہ ناگوار گزرے گا جس نے حرکۃ المجاہدین کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور جس کی طرف سے حرکۃ المجاہدین پر پابندی کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وائٹ ہاؤس کی چشم خشمگیں کا سامنا کرنا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی حصے کے بس کی بات نہیں ہے اس لیے بالآخر ۱۴ ستمبر کی صبح تک حرکۃ المجاہدین کی قیادت کو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا کہ وہ طلباء سیمینار کا انعقاد نشتر پارک کی بجائے گلشن اقبال کے اردو سائنس کالج کی گراؤنڈ میں کر لیں جو اگرچہ نشتر پارک کی طرح معروف نہیں ہے مگر وسعت میں اس سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
اس صورتحال پر حرکۃ المجاہدین کے چند پرجوش نوجوانوں کا تبصرہ یہ تھا کہ ہمارے سیمینار کو ناکام بنانے کی جان بوجھ کر سازش کی گئی ہے مگر میں نے ان سے عرض کیا کہ نشتر پارک میں اجازت دینے سے انکار کر کے اور ایک دن قبل بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ پارک کا گھیراؤ کر کے انتظامیہ نے ان کے سیمینار کی پچاس فیصد کامیابی کا اعلان خود ہی کر دیا ہے اس لیے وہ پریشان نہ ہوں اور باقی پچاس فیصد کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے شام تک اطلاعات اور رابطوں کے محاذ پر ڈٹ جائیں تاکہ پابندی لگانے والوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ زندہ جماعتوں کے لیے یہ پابندی اور نقل مکانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے ہدف تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔
میرا خیال تھا کہ چونکہ متبادل انتظامات اور لوگوں کو جگہ کی تبدیلی کی اطلاع دینے کے لیے صرف ایک دن کا وقت ملا ہے اس لیے حرکۃ کے نوجوان اگر اس خلا کو پچاس فیصد بھی پر کر لیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ لیکن رات کو جب اردو سائنس کالج کے گراؤنڈ میں سیمینار میں شرکت کے لیے پہنچا تو حاضرین کی تعداد اور نوجوانوں کا جوش و خروش دیکھ کر پہلے یہی محسوس ہوا کہ جلسہ شاید نشتر پارک میں ہی ہو رہا ہے کیونکہ کسی بھی حوالہ سے کوئی کمی نظر نہیں آرہی تھی۔ گویا حرکۃ کے نوجوانوں نے اسے بھی ’’محاذ جنگ‘‘تصور کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر سارے متبادل انتظامات بروقت کر ڈالے تھے۔ حاضری کے اعتبار سے یہ سیمینار کراچی کے چند بڑے جلسوں میں شمار کیا جا سکتا ہے اور نظم و نسق کو جس طرح حرکۃ کے نوجوانوں نے کنٹرول کیا اس نے افغانستان کی طرح پاکستان کی سرزمین پر بھی لوگوں کو یہ مشاہدہ کرا دیا کہ ڈاڑھیوں والے اور مسجد کی چٹائی پر بیٹھ کر سبق پڑھنے پڑھانے والے اگر نظم و نسق کے محاذ پر آجائیں تو یہ میدان بھی ان کے لیے اجنبی نہیں ہے۔
میرے لیے مجاہدین کی سب جماعتیں اور گروپ یکساں حیثیت رکھتے ہیں، جو جہادی تنظیم اپنے کسی پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتی ہے اسے بلاجھجھک قبول کرتا ہوں لیکن حرکۃ المجاہدین کا نام چونکہ امریکی حکمرانوں کی زبان پر بار بار آتا ہے اس لیے اس کے ساتھ طبعی طور پر زیادہ قلبی انس محسوس کرتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی ہر جماعت کا خادم ہوں اور ہر ایک سے ہر ممکن تعاون کرتا ہوں لیکن چونکہ مرزا طاہر احمد کی زبان پر مولانا منظور احمد چنیوٹی کا نام بار بار آتا ہے اس لیے اس میدان میں مولانا چنیوٹی کے ساتھ میرا انس طبعی طور پر زیادہ ہے، یہ بھی ایک معیار ہے۔
مجھے سیمینار میں خطاب کے لیے کہا گیا تو میری گفتگو کا آغاز اسی نکتہ سے ہوا کہ میں زندہ دلان کراچی کا شکر گزار ہوں اور انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ حرکۃ المجاہدین کی دعوت پر رکاوٹوں کے باوجود اتنی عظیم تعداد میں جمع ہو کر انہوں نے حرکۃ المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے کے امریکی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے اور وائٹ ہاؤس کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہم نہ تو حرکۃ المجاہدین کو دہشت گرد جماعت سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس پر پابندی کی کسی کارروائی کو برداشت کر پائیں گے۔