ماہِ رواں کے آغاز میں حکومت کے ساتھ متحدہ شریعت محاذ کے راہنماؤں کے مذاکرات کا ایک دور ہوا جس میں سات گھنٹے تک دونوں فریقوں نے ’’شریعت بل‘‘ کے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیالات کیا مگر اخباری اطلاعات کے مطابق اتفاقِ رائے کی منزل تک نہ پہنچا جا سکا۔ متحدہ شریعت محاذ کے ایک مرکزی راہنما کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان نے مذاکرات کے دوران واضح کیا کہ وہ بنیادی امور پر کسی فیصلہ کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے وہ ایک ہفتہ کے اندر وزیراعظم کے ساتھ محاذ کے راہنماؤں کی ملاقات کا اہتمام کریں گے۔ یہ ہفتہ بھی اب گزر چکا ہے اور مذاکرات میں پیش رفت کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
دوسری طرف یہ خبر اخبارات کی زینت بنی ہے کہ وزیراعظم نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے تاکہ متحدہ شریعت محاذ کی ’’راست اقدام‘‘ کی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمتِ عملی وضع کی جا سکے۔
ان حالات میں مذاکرات کا پہلو کچھ زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہا اور یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ متحدہ شریعت محاذ کو اپنے اعلان کے مطابق رمضان المبارک کے بعد راست اقدام کی تحریک کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ اس لیے ہم متحدہ شریعت محاذ کے کارکنوں بالخصوص جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ارکان سے گزارش کریں گے کہ وہ مذاکرات کے سلسلہ میں سرکاری اعلانات کی طرف توجہ دیے بغیر اور ان مذاکرات سے کوئی امید وابستہ کیے بغیر پوری دل جمعی کے ساتھ راست اقدام کی تحریک کے لیے تیاری کریں تاکہ ۷ اور ۸ جون کو لاہور میں متحدہ شریعت محاذ کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں تحریک کا طریق کار اور پروگرام طے ہونے کے ساتھ ہی کارکن پورے ملک میں اس کے لیے سرگرم عمل ہو سکیں۔