ایک کہاوت مختلف حوالوں سے بیان ہوتی آ رہی ہے کہ کسی صاحب کو اپنے بازو پر شیر کی تصویر بنوانے کا شوق چرایا تو انہوں نے ایک گودنے والے کی خدمات حاصل کیں، جو سوئی سے جسم پر نقشے کے مطابق سوراخ کر کے ان میں رنگ بھرتا اور جلد پر تصویر نقش ہو جاتی۔ گودنے والے نے سوئی سنبھالی اور ان صاحب کا ہاتھ پکڑ کر اپنا کام شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ سوئی نے نقشے کے مطابق سینکڑوں بار جسم میں چبھنا تھا اور پھر اس میں رنگ بھرا جانا تھا، سوئی کے چبھنے سے جسم کو تکلیف بھی ہونا تھی۔ اب جو چار پانچ بار سوئی نے حرکت کی تو ان صاحب نے سوچا کہ یہ کام ذرا مشکل نظر آتا ہے، لہٰذا انہوں نے گودنے والے سے کہا کہ بھائی! کیا چیز بنا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ شیر کی دم بنا رہا ہوں۔ ان صاحب نے کہا کہ دم کو رہنے دو، کوئی شیر دم کے بغیر بھی تو ہوتا ہو گا، تم اس جیسا بنا دو۔ اس نے دم چھوڑ دی اور ٹانگ سے کام شروع کر دیا۔ سوئی پھر بار بار جسم میں چبھنے لگی، ان صاحب نے پھر دریافت کیا کہ اب کیا بنا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ ٹانگ بنا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹانگ کو رہنے دو، آخر کئی شیر لنگڑے بھی تو ہو جاتے ہیں۔ اس نے ٹانگ چھوڑ دی اور کان بنانا شروع کر دیے۔ سوئی پھر حرکت میں آگئی اور اپنا کام دکھانے لگی۔ پھر پوچھا کہ بھئی اب کیا شروع کیا ہے؟ بتایا کہ کان بنا رہا ہوں۔ ان صاحب نے کہا کہ یار ایک کان بھی رہنے دو، آخر کان کے بغیر بھی تو شیر زندہ رہ سکتا ہے۔ اس پر اس گودنے والے نے سوئی ہاتھ سے رکھ دی اور کہا کہ میرے بھائی میں نے ایسا کوئی شیر نہیں دیکھا جس کی دم بھی نہ ہو، ٹانگ بھی کٹ گئی ہو اور کان بھی غائب ہو۔ اس لیے میں اس خدمت سے باز آیا، یہ کام کسی اور سے کروا لو۔
یہ کہاوت مجھے صوبہ سرحد میں سرکاری سطح پر نماز کا نظام قائم کرنے کے سلسلہ میں اکرم درانی کی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اعلان پر سامنے آنے والے منفی تبصروں کو دیکھ کر یاد آئی۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے صرف یہ اعلان کیا ہے کہ صوبہ میں لوگوں کو نماز کی طرف ترغیب دلانے کے لیے سرکاری ذرائع اختیار کیے جائیں گے، اور جبر کا کوئی طریقہ استعمال کیے بغیر حکومتی سطح پر کوشش کی جائے گی کہ نماز کے وقت کاروبار اور دفاتر بند ہوں اور لوگ اجتماعی طور پر مسجدوں میں جا کر نماز ادا کریں۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے گا کہ نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کے نقشوں میں مسجد بھی شامل ہو تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ نماز باجماعت کی سہولت سے بہرہ مند ہو سکیں۔
اس پر بعض حلقوں کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے منفی ردعمل کی ایک جھلک ممتاز مسلم لیگی رہنما سید کبیر واسطی کے اس بیان میں دیکھی جا سکتی ہے جو جمعرات کے اخبارات میں اے پی پی کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے صدر پرویز مشرف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیں، کیونکہ صوبائی حکومت نے ’’طالبان نما کالے قوانین‘‘ کا نفاذ شروع کر دیا ہے اور ہمارے بارے میں اسلام دشمنوں کے پروپیگنڈے کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ممکن ہے سید کبیر علی واسطی کی طرف سے ایک دو روز میں اس کی تردید آجائے، کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کی کسی مسلمان سیاسی رہنما سے توقع نہیں کی جا سکتی، لیکن اے پی پی جیسے ذمہ دار خبر رساں ادارے کی طرف سے اس بیان کا جاری ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ بات بالکل بے اصل نہیں ہے اور اس لہجے میں کچھ نہ کچھ کہا ضرور گیا ہے۔
نظامِ صلوٰۃ کے بارے میں سرحد کی صوبائی حکومت کے حالیہ اعلان سے قطع نظر اس کی بعض باتوں پر ہمارے ذہن میں بھی تحفظات موجود ہیں، مگر ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ نفاذِ اسلام یا دینی اقدار کے فروغ کے حوالے سے کوئی بھی قدم سرکاری طور پر اٹھایا جائے تو اس پر کچھ حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی ضرور سامنے آتی ہے۔ دراصل ہمارا اجتماعی ذوق اور مزاج ہی کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ اسلام کی سربلندی اور نفاذ کا پرچم تو ہم ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی سوئی ہمارے جسم میں چبھنے نہ پائے۔ ہمارے ہاں اسلام کے نفاذ اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کا جو تصور گزشتہ نصف صدی میں پروان چڑھا ہے، اس کے مطابق ملک میں کسی اسلامی قانون یا ضابطے کے نفاذ کے لیے دو تین باتیں پیشگی شرائط کا درجہ اختیار کر چکی ہیں، مثلاً:
- اس اسلامی قانون اور ضابطے پر مغربی ممالک، عالمی اداروں، اور خاص طور پر امریکہ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔
- اس قانون اور ضابطے سے ہمارے موجودہ سسٹم اور نظام میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو۔
- اور اس کے لیے ہمیں کوئی قربانی نہ دینا پڑے اور کوئی تکلیف نہ اٹھانا پڑے۔
کچھ عرصہ قبل جب ملک میں قرآن و سنت کو دستوری طور پر سپریم لاء قرار دلوانے کی مہم چل رہی تھی اور متحدہ شریعت محاذ کے پلیٹ فارم پر راقم الحروف بھی اس مہم میں پیش پیش تھا، ایک انتہائی محترم اور ذمہ دار شخصیت نے پوری سنجیدگی کے ساتھ مجھے کہا کہ اس سے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا جس کو آپ فیس نہیں کر سکیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کون سا مسئلہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ قرآن و سنت کو دستوری طور پر ملک کا بالاتر قانون قرار دے دیا گیا تو اس سے ملک کا موجودہ سسٹم ہی بدل جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اسی لیے تو ہم قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دلوانا چاہتے ہیں تاکہ ملک کا سسٹم تبدیل ہو، ورنہ اگر یہی نظام رکھنا ہے تو پھر اسلام کا نام لینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، بلکہ اس صورت میں تو پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کا قیام بھی محض تکلف قرار پاتا ہے۔
اب یہ تو ہونے سے رہا کہ اسلام بھی نافذ ہو اور ملک کے نظام میں کوئی تبدیلی بھی نہ آنے پائے۔ کیونکہ اسلام جب بھی اپنی اصلی صورت میں نافذ ہو گا اس کی بنیاد قرآن پاک اور سنتِ رسول کریمؐ پر ہی ہو گی۔ اور اس کے لیے آئیڈیل دور خلافتِ راشدہ کا دور ہی قرار پائے گا۔ قرآن کریم نے سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں مسلم حکمرانوں کے فرائض کا ذکر کرتے ہوئے چار باتیں بیان فرمائی ہیں:
- وہ نماز قائم کرتے ہیں۔
- زکوٰۃ کا اہتمام کرتے ہیں۔
- لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہیں۔
- اور برائی سے روکتے ہیں۔
قرآن کریم نے یہ اوصاف ان لوگوں کے بیان کیے ہیں جنہیں زمین پر اقتدار دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ان کا تعلق حکومتی ذمہ داریوں سے ہے اور ان کا اہتمام کرنا ایک مسلم حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر آپ قرآن کریم کے اس واضح اور صریح ارشاد پر عمل کرنا چاہیں اور ان چار ہدایات کو سرکاری ذرائع سے معاشرے میں عملاً لاگو کرنا چاہیں تو اس کے لیے مذکورہ بالا تینوں شرطوں کو کراس کرنا پڑے گا۔ اور نہ صرف حکمرانوں سمیت ہر طبقہ کو نماز، روزہ اور دیگر فرائضِ شرعیہ کا پابند ہونا پڑے گا بلکہ زکوٰۃ، معروف اور منکر کے قرآنی اصولوں کو اپنانے سے آپ کا پورا معاشی نظام بھی تبدیل ہو جائے گا، حلال و حرام کے معیار بھی بدل جائیں گے، جائز و ناجائز کے مروجہ پیمانے بھی برقرار نہیں رہیں گے، اور فرائض و واجبات کا ایک نیا ڈھانچہ اور نیٹ ورک آپ کے سامنے کھڑا ہو گا۔
اس صورتحال پر مغربی ممالک اور امریکہ آپ سے ناراض ہو جائیں گے، آپ کو بہت سے مفادات سے دستبردار ہونا پڑے گا، بہت سی نئی پابندیاں قبول کرنا ہوں گی، اور بہت سی قربانیاں دینا پڑیں گی۔ اگر آپ معاشرہ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا چاہیں گے تو اسلام کی سوئی دم کے لیے بھی جسم میں چبھے گی، ٹانگ کے لیے بھی حرکت میں آئے گی، کان کے لیے بھی جسم میں سوراخ کرے گی، اور بازو کے لیے بھی جلد میں پیوست ہو گی، کیونکہ اس کے بغیر شیر کی تصویر جسم پر اپنا نقش قائم نہیں کر سکے گی۔ البتہ وقتی طور پر کچی پنسل سے جسم پر نقشہ بنا کر تھوڑی دیر خوش ہونے اور پھر اسے ولایتی صابن کے ساتھ دھو ڈالنے کا کھیل کھیلنا ہو تو اس کی گنجائش نہ صرف موجود ہے بلکہ ہم گزشتہ ساٹھ برس سے اسلام کے حوالے سے یہی کھیل کھیلتے چلے آ رہے ہیں، اس سے گبھرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سید کبیر واسطی سے گزارش ہے کہ ’’طالبان والے کالے قوانین‘‘ ابھی ہمارے مقدر میں نہیں اور نہ ہی ہم اس کے اہل ہیں، یہ سعادت ہر ایک کو نہیں ملتی، ایسے خوش نصیب لوگ تاریخ میں کبھی کبھار تھوڑی دیر کے لیے نمودار ہوتے ہیں اور ہلکی سی جھلک دکھا کر غائب ہو جایا کرتے ہیں۔ ہمارے مقدر میں ’’کچی پنسلوں کا کھیل‘‘ ہی لکھا گیا ہے جو ہم ایک عرصہ سے کھیل رہے ہیں۔ اس لیے اگر سرحد کی صوبائی حکومت اس کھیل میں ایک باری لینا چاہتی ہے تو اس پر اس قدر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟