بنگلہ دیش کا قیام اور وطن واپسی

   
۲۴ جنوری ۲۰۰۴ء

دبئی میں دو روزہ قیام کے حوالہ سے اپنے تاثرات کے کالم میں قارئین سے گزارش کی تھی کہ تاثرات کا بقیہ حصہ اگلے کالم میں پیش کر وں گا۔ خیال تھا کہ واپسی دبئی کے راستے سے ہو گی اور کچھ دیگر حضرات سے ملاقات کا ارادہ بھی تھا اس طرح ایک قسط اور پیش کر سکوں گا مگر پروگرام میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی۔ ڈھاکہ کے نواح میں ’’مدھوپور‘‘ نامی ایک بستی میں ہمارے احباب کا ایک دینی ادارہ ’’جامعہ حلیمیہ‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد ۹ جنوری کو ہو رہا تھا اور اس مدرسہ کے مہتمم حضرت مولانا عبد الحمید کا اصرار تھا کہ میں اس پروگرام میں شرکت کے لیے ضرور رکوں، جبکہ میرا پروگرام ۷ جنوری کو دبئی واپسی کا تھا، مگر ان کے اصرار پر ۱۰ جنوری کو پی آئی اے کے ذریعے ڈھاکہ سے براہ راست کراچی واپسی کا پروگرام طے ہو گیا۔

نواکھالی میں حضرت مولاناشاہ اشرف علی تھانویؒ کے ایک ممتاز خلیفہ حضرت مولانا نور بخشؒ تھے جن کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الحلیمؒ نے اس علاقہ میں نمایاں دینی خدمات سرانجام دیں اور ان کے ساتھ مولانا نور بخش کے داماد مولانا نذیر احمدؒ بھی اپنے خسر بزرگوار کے خلیفہ تھے اور اس علاقہ کے مشہور روحانی بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران مولانا نذیر احمدؒ پاکستان کی حمایت کے الزام میں مکتی باہنی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے۔ مولانا عبد الحلیم کے خلفاء میں مولانا عبد الحمید صاحب ہیں جو بڑی تعداد میں لوگوں کی اصلاح و تربیت کے لیے مصروف عمل ہیں اور ان کے ارادت مندوں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کے فرزند مولانا محمد عبد اﷲ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں اور اپنے والد محترم کے ساتھ دینی و سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جامعہ حلیمیہ مدھوپور کے سالانہ جلسہ میں ہزاروں افراد شریک تھے جبکہ بنگلہ دیش کے بہت سے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے نائب شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اعظمی مدظلہ مہمان خصوصی کے طور پر رونق افروز تھے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور راقم الحروف کو بھی مولانا عبد الحمید اور مولانا عبد اﷲ کے اصرار پر رکنا پڑا اور جلسہ میں شرکت ہو گئی۔ جامعہ حلیمیہ کے سالانہ جلسہ میں ایک بار پہلے بھی ۱۹۹۷ء میں والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم العالیہ کے ہمراہ شریک ہو چکا ہوں۔

بنگلہ دیش کے جلسوں کا عجیب انداز ہے۔ یہ جلسہ جمعۃ المبارک کی نماز کے وقت شروع ہوا اور صبح نماز فجر تک صرف نمازوں کے وقفہ کے ساتھ تسلسل سے جاری رہا۔ ۱۹۹۷ء کی بات ہے کہ عشاء کے بعد مولانا عبد اﷲ صاحب سے میں نے کہا کہ اگر مجھے گفتگو کے لیے جلد وقت دے دیا جائے تو میں رات آرام کر لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ابھی آرام کریں اور سو جائیں آپ کے خطاب کی باری رات گئے ہو گی اور اس سے قبل آپ کو بیدار کر دیا جائے گا، چنانچہ میں سو گیا۔ رات دو بجے کے لگ بھگ مجھے جگایا گیا اور دس پندرہ منٹ کی تیاری کے بعد میں نے سحری کے وقت خطاب کیا، شرکاء کا جوش وخروش جوں کا توں تھا جو گزشتہ روز ظہر کے بعد سے مسلسل خطابات سن رہے تھے۔

البتہ اس سال مجھے جلدی وقت دے دیا گیا، میں نے حفاظ قرآن کریم کے فضائل پر گفتگو کی اور بتایا کہ اس وقت قرآن کریم کے حوالے سے ہم پر جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچوں کو معنٰی سمجھے بغیر قرآن کریم کے الفاظ رٹا دیے جاتے ہیں اور وہ طوطے کی طرح اسے دھراتے رہتے ہیں۔ مگر یہ قرآن کریم کا امتیاز اور اعجاز ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی تعلیم کے ساتھ اس کی تلاوت اور الفاظ کے رٹنے اور سنانے کو مستقل عبادت قرار دیا ہے اور قرآن کریم کے سننے سنانے پر ہر حرف کے بدلے کم از کم دس نیکیوں کے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ یہ قرآن کریم کی حفاظت کا نظم ہے کہ دنیا میں کاغذ کے کسی ورق پر قرآن کریم موجود ہو یا نہ ہو، لاکھوں حفاظ کے سینوں میں قرآ ن کریم ہر وقت موجود و محفوظ رہتا ہے اور دنیا کے کسی حصے میں بھی قرآن کریم کے الفاظ میں کسی طرح کے ردوبدل کی کوشش کی جائے اس کی اصلاح اور نشاندہی کے لیے لاکھوں حفاظ ہر دور میں موجود و مستعد رہے ہیں۔

رات کو جلسہ سے خطاب کے بعد ہم ڈھاکہ واپس آگئے، ہفتہ کی شام کو مولانا منصوری کی ممبئی کے لیے اور میری کراچی کے لیے فلائیٹ تھی اس لیے ڈھاکہ میں مزید دو تین جگہ جانے کا موقع مل گیا۔ بنگلہ دیش میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے دینی مدارس کو ’’عالیہ مدرسے‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ ہماری طرز کے آزاد پرائیویٹ دینی مدارس ’’قومی مدرسے‘‘ کہلاتے ہیں۔ سرکاری مدارس کو مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کنٹرول کرتا ہے جو محکمہ تعلیم کے ماتحت ہے اور اس کے ساتھ کم و بیش آٹھ ہزار مدارس کا الحاق ہے۔ ان میں ایک بڑا مدرسہ ڈھاکہ میں ہے جو مدرسہ عالیہ کے نام سے کام کر رہا ہے، یہ مدرسہ ۱۷۸۰ء میں کلکتہ میں قائم ہوا تھا جب سراج الدولہ شہیدؒ کی شہادت کے صرف ۲۳ برس بعد انگریزی حکومت نے یہ مدرسہ قائم کیا تھا، اس کے پرنسپل ایک عرصہ تک انگریز رہے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں مدرسہ عالیہ کو ڈھاکہ منتقل کر دیا گیا۔ اس میں درس نظامی کے بڑے حصے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ جدید علوم اور مضامین کو بھی شامل کیا گیا ہے، اس کے پرنسپل آج کل پروفیسر منصور الرحمن ہیں جن سے ان کے دفتر میں ہماری ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدرسہ عالیہ کے بارے میں خاصی معلومات فراہم کیں۔ ہم نے ان سے عالیہ مدارس کے نصاب کی تفصیلات بھی حاصل کیں جو بنگلہ زبان میں ہیں اور میں انہیں دار الرشاد ڈھاکہ کے مولانا سلمان ندوی کے سپرد کر آیا ہوں کہ وہ ا س کا اردو ترجمہ کر کے ہمیں ارسال کر دیں۔

اس کے بعد ڈھاکہ کے تبلیغی مرکز میں جانا ہوا جو شہر کے بارونق علاقہ میں ہے اور ایک بڑی مسجد کے ساتھ مختلف عمارات ہیں جہاں ملک بھر سے تبلیغی جماعت کے حضرات کی ہر وقت آمد و رفت رہتی ہے اور ایک بڑا مدرسہ بھی قائم ہے۔ تبلیغی مرکز میں قیام پذیر حضرت مولانا مزمل الحق صاحب ہمارے حضرت مولانا عیسیٰ منصوری کے بے تکلف دوستوں میں سے ہیں۔ مولانا منصوری کا شمار تبلیغی جماعت کے پرانے بزرگو ں میں ہوتا ہے، انہوں نے حضرت مولانا محمد یوسف دھلویؒ کے دور میں جماعت میں کام کیا ہے اور حضرت مولانا سعید احمد خانؒ کی خدمت میں کئی سال رہے ہیں۔ پرانے اور بے تکلف دوست جب ایک عرصہ کے بعد ملتے ہیں تو ان کی ملاقات کا رنگ ہی اور ہوتا ہے اور ہم نے دونوں حضرات کی بے تکلفانہ نوک جھوک سے پورا حظ اٹھایا۔ ظہر کی نماز تبلیغی مرکز میں ادا کی اور اس کے بعد مولانا مزمل الحق صاحب نے اہتمام اور تکلف کے ساتھ کھانا کھلایا۔

وہاں سے فارغ ہوئے تو روزنامہ انقلاب کے دفتر گئے، بنگلہ زبان کے اس روزنامہ اخبار کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کے دینی حلقوں کا ترجمان ہے، وہاں مختلف دوستو ں سے ملاقات ہوئی اور پھر ہم ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس روز پلٹن میدان ڈھاکہ میں عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد کا جلسہ تھا جس کے لیے مختلف اطراف سے جلوس جلسہ گاہ کی طرف آرہے تھے۔ ہمیں بھی ایک جلوس کے پیچھے پیچھے خاصی دور تک چلنا پڑا۔ یہ جلوس دیکھ کر پیپلز پارٹی کے جوش وخروش کے دور کے جلوسوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی جو پرجوش نعرے لگاتے ہوئے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے پلٹن میدان کی طرف اپنی قائدہ کا خطاب سننے کے لیے رواں دواں تھے۔ مختلف راستوں سے آنے والے ان پرجوش جلوسوں کی وجہ سے ہم بمشکل مغرب کے قریب ڈھاکہ کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک پہنچ پائے جو سابق صدر جنرل ضیاء الرحمن شہید کے نام سے موسوم ہے اور ضیاء انٹرنیشنل ایئرپورٹ کہلاتا ہے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد مولانا عیسیٰ منصوری بنگلہ دیش ایئر لائن کے ذریعہ ممبئی کے لیے پرواز کر گئے اور میں پی آئی اے کے ذریعہ کراچی روانہ ہو گیا ۔

   
2016ء سے
Flag Counter