حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستیؒ

   
تاریخ : 
یکم جنوری ۲۰۲۰ء

حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی کم و بیش پچاسی برس اس جہانِ رنگ و بو میں گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میں جامعہ نصرۃ العلوم میں شش ماہی امتحانات کی وجہ سے ان دنوں مسلسل اسفار میں ہوں، ۳۰ دسمبر پیر کو مردان کے قریب حضرت مولانا سید گل بادشاہؒ کے گاؤں سواڑیان میں ’’شیخ الہند کانفرنس‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام تھا، ظہر کے بعد اس میں شرکت ہوئی، میرے ساتھ وزیرآباد سے پروفیسر حافظ منیر احمد، جناب شیخ محمد بلال، حافظ محمد عمر فاروق اور حافظ شاہد میر شریک سفر ہیں۔ مغرب کے بعد باجہ صوابی میں ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ اور رات دس بجے ہم جامعہ ابوہریرہؓ نوشہرہ میں مولانا عبد القیوم حقانی کے پاس بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوئے جن کا گزشتہ دنوں دل کا آپریشن ہوا ہے۔

واپسی پر اگلے روز دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ملاقات کے بعد گوجرانوالہ روانگی کا پروگرام تھا، حضرت سے رات سونے سے قبل رابطہ ہوا تو فرمایا کہ کل ظہر آپ میرے ساتھ پڑھیں گے اور پھر کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ پروگرام طے کر کے ہم سو گئے مگر صبح اذان فجر سے قبل آنکھ کھلی تو موبائل نے صدمہ و رنج سے بھرپور اس خبر کے ساتھ ہمارے دن کا آغاز کیا کہ حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کا رات اسلام آباد میں انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خانپور مولانا فضل الرحمان درخواستی سے رابطہ ہوا تو انہوں نے تصدیق کر دی، ہم نے نماز فجر پڑھتے ہی اسلام آباد کی طرف روانگی کی اور راستہ اسی حوالہ سے ملک بھر رابطوں میں طے ہوا۔

ابھی دو روز قبل اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کا مشاورتی اجلاس تھا جو جامع مسجد محمدی شہزاد ٹاؤن میں ہوا۔ حضرت درخواستی بحریہ ٹاؤن میں اپنے عزیزوں کے ہاں قیام پذیر تھے اور اجلاس کے لیے ہی رکے ہوئے تھے۔ مگر طبیعت زیادہ خراب ہونے کے بعد اجلاس میں تشریف نہ لا سکے اور پاکستان شریعت کونسل کے نائب امیر اول مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی نے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس کے بعد ہم کچھ ساتھی بحریہ ٹاؤن میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ دیر محفل رہی۔ حضرت کا مزاج و ذوق تھا کہ محفل کوئی بھی ہو وہ تلاوت، نعت اور کوئی حدیث مبارکہ سننے یا سنانے کا اہتمام ضرور کرتے تھے۔ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا، قاری محمد عثمان رمضان نے تلاوت کی، پروفیسر حافظ منیر احمد نے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی اور میں نے ایک حدیث مبارکہ سنائی جس کے بعد دعا پر مجلس اختتام پذیر ہو گئی۔

یہاں دو عجیب سے اتفاق ہوئے، ایک یہ کہ قاری محمد عثمان رمضان نے تلاوت میں سورۃ الفجر کی آخری آیات پڑھیں جن میں ’’یا ایتھا النفس المطمئنۃ‘‘ کے ساتھ موت کے وقت مرد مومن کے لیے فرشتوں کے خیر مقدمی ماحول کا ذکر کیا گیا ہے۔ تلاوت شروع ہوئی تو میں نے چونک کر قاری صاحب کی طرف دیکھا، اسی کے ساتھ ہی مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زبان سے یہ کلمات سنے کہ ’’آیت تو موقع کے مطابق پڑھی ہے‘‘۔ جبکہ دوسرا اتفاق یہ تھا کہ جب رخصت ہوتے وقت میں نے مولانا درخواستی کے چہرے پر نظر ڈالی تو ایک لمحے کے لیے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں شاید ان کے والد حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالٰی کا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر اسی مجلس میں انہوں نے یہ بات بھی کہہ دی کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو، مگر میں نے کہا کہ نہیں حضرت! میں ۵ جنوری کو دو چار دن کے لیے جامعہ انوار القرآن کراچی آ رہا ہوں وہاں ملاقات ہوگی، ان شاء اللہ تعالٰی۔ اس کے بعد ہم واپس روانہ ہوگئے۔

مولانا فداء الرحمان کے ساتھ میری جماعتی رفاقت نصف صدی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے اور ہم نے مختلف دینی تحریکات و مہمات میں اکٹھے کام کیا ہے۔ ان کے مزاج میں دوستوں کے ساتھ مشاورت کے ساتھ چلنا بطور خاص شامل تھا اور ان کی ساری زندگی اسی ذوق کے تسلسل سے عبارت ہے۔ دوستوں کی بات سننا، انہیں احترام دینا، ان کے مشورہ کو قبول کرنا اور اعتماد میں رکھنا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ دینی مدارس کے قیام اور ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی انہیں اپنے والد گرامی حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز سے ورثہ میں ملی تھی، اور ان کی نگرانی میں جامعہ انوار القرآن کراچی، مرکز حافظ الحدیث حسن ابدال اور مدرسہ تعلیم القرآن پتھورو سندھ کے مرکزی مدارس سمیت بیسیوں مدارس خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔

دینی جماعتوں کی سرپرستی کرنا اور حسب موقع ان کی تائید و حمایت کرنا بھی حضرت درخواستی ہی کی روایت تھی جو ان کے جانشین کے طور پر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے قائم رکھی اور دینی تحریکات کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتے تھے کہ ہمیں کسی بھی دینی جدوجہد کے لیے اپنے اکابر اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہیے، وہ کہتے تھے کہ اس میں برکت اور کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تلاوت کلام پاک، احادیث نبویہ کا مسلسل تذکرہ اور اللہ اللہ کی تلقین بھی ان کے معمولات کا حصہ تھی۔ اور وہ اسی طرز زندگی کے ساتھ اب اللہ رب العزت کے بلاوے پر لبیک کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ بحریہ انکلیو شہزاد ٹاؤن اسلام آباد میں ادا کی گئی جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام کی بڑی تعداد شریک ہوئی جبکہ نماز جنازہ کی امامت کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ کل بدھ کو صبح گیارہ بجے خانپور میں حضرت کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد دین پور شریف کے تاریخی قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں لائی جائے گی، اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter