گزشتہ سال شکاگو میں ’’عالمی ختم نبوت و حجیت حدیث کانفرنس‘‘ کے موقع پر ٹورانٹو سے آنے والے احباب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے وہاں آنے کی دعوت دی۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی نے وہاں جانا تھا اس لیے میں نے بھی شکاگو میں کینیڈا کے قونصلیٹ جنرل میں ویزا کی درخواست دے دی مگر ویزہ نہ مل سکا اور متعلقہ حکام نے کہا کہ آپ ویزا پاکستان سے ہی لگوا کر آئیں، چنانچہ مولانا چنیوٹی صاحب تشریف لے گئے اور میں نہ جاسکا۔
اس سال اسلام آباد میں کینیڈا کے سفارت خانہ سے ویزا لیا اور بیرونی سفر میں ٹورانٹو حاضری کا پروگرام بھی شامل کر لیا۔ ٹورانٹو کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے، کینیڈا شمالی امریکہ میں ہے اور رقبہ کے لحاظ سے روس کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے مگر آبادی اس لحاظ سے بہت کم ہے جو دو اور تین کروڑ کے درمیان بیان کی جاتی ہے۔عیسائی اکثریت کا ملک ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شمالی امریکہ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے عام عیسائی یورپ کے عیسائیوں کی طرح مذہب سے لاتعلق نہیں ہیں بلکہ یہاں مذہب سے وابستگی کا رحجان پایا جاتا ہے۔
۴ نومبر کو یو ایس ایئرویز کی فلائیٹ سے رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ٹورانٹو ایئرپورٹ پر پہنچا، حافظ سعید احمد صاحب نے لینے کے لیے آنا تھا مگر انہیں فلائیٹ کے صحیح وقت کی اطلاع نہ دی جا سکی اس لیے کچھ دیر ایئرپورٹ پر رکنا پڑا۔ حافظ سعید احمد صاحب ساہیوال پاکستان کے رہنے والے ہیں اور گزشتہ اٹھارہ سال سے ٹورانٹو میں مقیم ہیں، ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہ العزیز جالندھر کے رہنے والے تھے، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی قدس اللہ سرہ العزیز کے خلیفہ مجاز تھے، قیام پاکستان کے بعد ساہیوال آگئے اور مسجد نور میں آخر وقت تک خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے، انہوں نے وہاں مدرسہ انوریہ کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی جس کا انتظام آخر وقت تک ان کے پاس رہا، یہ درسگاہ آج بھی کام کر رہی ہے۔
حافظ صاحب کی آمد تک ایئرپورٹ کی چہل پہل میری توجہ کا مرکز رہی جس میں سکھوں کی آمدورفت بطور خاص قابل ذکر ہے۔ سکھ کینیڈا میں بڑی تعداد میں آباد ہیں اور مشرقی پنجاب میں خالصتان کے قیام کی جدوجہد کی سرپرستی بھی کینیڈا سے ہوتی ہے۔ سکھ تھوڑی تعداد میں ہوں تو بھی اپنی مذہبی روایات اور وضع قطع پر کاربند رہنے کی وجہ سے نظر آجاتے ہیں، ٹورانٹو ایئر پورٹ پر عملہ اور مسافروں میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد نظر آرہی تھی، مسلمان بھی یقیناً کافی تعداد میں ہوں گے لیکن مقامی معاشرت میں ضم ہونے کی وجہ سے ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ سکھ اپنے معاشرتی امتیاز اور تنظیم کی وجہ سے نفسیاتی طور پر اثر انداز ہیں حتیٰ کہ امیگریشن افسر نے پاسپورٹ چیک کرتے ہوئے مجھے بھی اسی زمرے میں شمار کرنا چاہا۔ میں نے اس کے سوال پر اپنے کینیڈا آنے کی وجہ یہ بیان کی کہ میں ایک مذہبی راہ نما ہوں اور اپنے ہم مذہب حضرات کے حالات معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں تو اس نے پوچھا کہ کیا آپ ٹمپل جائیں گے؟ ٹمپل انگلش میں سکھوں کے گوردوارے کو کہتے ہیں میں نے جواب دیا کہ نہیں میں مسجد جاؤں گا۔
میں ایئرپورٹ پر ایک جگہ بیٹھا حافظ سعید احمد صاحب کا منتظر تھا اور میرے قریب تین چار سردار صاحبان ٹھیٹھ پنجابی میں مصروف گفتگو تھے۔ ٹورانٹو میں پنجابی کی یہ گفتگو بہت عجیب لگی۔ ہم زبانی کا انس شریک گفتگو ہونے پر مائل کر رہا تھا مگر مذہبی رحجانا ت کا بعد ہچکچاہٹ کی فضا قائم رکھے ہوئے تھا۔ اتنے میں حافظ صاحب آگئے اور انہوں نے مجھے اس ذہنی کشمکش اور سکھوں کے حصار سے باہر نکال لیا۔ حافظ صاحب کے ساتھ ایئرپورٹ پر جناب عبد القادر پٹیل اور ایک بزرگ محمود میاں بھی آئے، یہ دونوں حضرات گجرات (انڈیا) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اہل گجرات کا دنیا بھر میں ہر جگہ یہ امتیاز دیکھا ہے کہ جہاں کہیں بھی مقیم ہیں دین کے ساتھ وابستگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں، نماز، روزہ، بچوں کی دینی تعلیم اور گھروں کے مشرقی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
ٹورانٹو میں جمعیۃ المسلمین کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی دین سے وابستگی کی حفاظت کرنا اور مساجد و مدارس کا اہتمام کرنا ہے۔ مدینہ مسجد اس کا مرکز ہے اور سورت کے عالم دین حضرت مولانا خلیل احمد صاحب جمعیۃ کے امیر اور مدینہ مسجد کے امام و خطیب ہیں۔ مولانا موصوف کے حکم پر جمعۃ المبارک کے اجتماع اور اتوار کے روز ظہر کی نماز کے بعد ایک اور اجتماع سے خطاب کرنے کا موقع ملا، حاضرین کی اکثریت اہل گجرات کی تھی اور ان کا دینی ذوق شوق قابل رشک تھا۔
ایک نوجوان عالم دین نے جس کا نام اسعد ہے مغرب کی نماز کے بعد ایک اور مسجد میں کچھ عرض کرنے کی فرمائش کی، وہاں بھی حاضری کا موقع ملا اور خوشی ہوئی کہ اس معاشرہ میں مذہب کے ساتھ وابستگی برقرار رکھنے کا خوشگوار جذبہ کچھ دلوں میں موجزن ہے۔
کینیڈا میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے لیکن دوسرے مغربی ممالک کی طرح یہاں کے مقیم پاکستانی بھی (الا ماشاء اللہ) صرف ڈالر کمانے کو مقصد زندگی بنائے ہوئے ہیں، دین اور ملک کے ساتھ وابستگی کے تقاضوں کا احساس دیکھنے میں نہیں آتا، باہمی رابطہ اور نظم بھی نہیں ہے، اجتماعیت کا جذبہ اور سوچ سرے سے مفقود ہے، کہیں کہیں اسلامک سنٹر یا مسجد کے عنوان سے کچھ کام ہو رہا ہے تو روایتی گروپ بندی اور مذہبی فرقہ ورایت کے رحجانات سے پیچھا نہیں چھوٹتا۔
جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی ناظم مولانا فضیل احمد قاسمی ان دنوں کینیڈا آئے ہوئے تھے، ان سے مدینہ مسجد میں ملاقات ہوئی اور بھارت کی موجودہ صورتحال، بابری مسجد کے مسئلہ اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے مسائل پر تبادلۂ خیالات ہوا۔ انہوں نے بھی بطور خاص اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی کہ مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں پر دینی محنت کی ضرورت ہے کیونکہ مذہب کے ساتھ ان کا لگاؤ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر قدس سرہ العزیز کے خلیفہ مجاز محترم جناب ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن مدنی کافی عرصہ سے کینیڈا میں مقیم ہیں، ٹورانٹو سے کم وبیش ۸۰ میل کے فاصلہ پر واٹرلو میں ان کا قیام ہے یہاں ایک مسجد میں ان کے فرزند امام وخطیب ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا مشن یہاں کے مسلمانوں کو دینی تعلیم اور ذکر و فکر کی طرف راغب کرنا ہے جس کے لیے وہ شب و روز مصروف ہیں۔ دینی تعلیم کے لیے ایک مرکزی دارالعلوم کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے نیا گرا آبشار کے قریب بفیلو نامی شہر میں آٹھ ایکڑ زمین اور اس پر تعمیر شدہ تین منزلہ عمارت کا سودا کر لیا ہے اور اس کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ واٹرلو میں ڈاکٹر صاحب موصوف سے ملاقات ہوئی اور ان سے دارالعلوم کے منصوبہ پر تبادلۂ خیال ہوا۔ ان کا ارادہ ہے کہ تین چار ماہ میں رقم کی ا دائیگی کے بعد عمارت کا قبضہ حاصل کرکے وہ تعلیمی سلسلہ کا آغاز کر دیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔
حافظ سعید احمد صاحب ٹورانٹو کی ایک فرم میں ملازمت کرتے ہیں اور سماجی رابطہ کے محاذ پر سرگرم رہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ نیاگرا آبشار اور سی این ٹاور دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نیاگرا آبشار دنیا کے بڑے عجائبات میں شمار ہوتی ہے، کینیڈا اور امریکہ کی سرحد پر واقع ہے، ایک طرف کینیڈا ہے اور دوسری طرف امریکہ کا شہر بفیلو ہے، درمیان میں ایک چھوٹا ساپل ہے جہاں سے گزر کر لوگ بفیلو میں داخل ہو جاتے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا کے باشندوں کے لیے دونوں طرف آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے مگر میرے لیے یہ بات مشکل تھی۔ ورنہ بفیلو شہر جہاں ڈاکٹر محمد اسماعیل مدنی صاحب دارالعلوم قائم کر رہے ہیں اس پل سے گاڑی پر صرف دس منٹ کے فاصلہ پر ہے، وہ جگہ دیکھنے کو جی چاہتا تھا مگر امیگریشن کی رکاوٹوں کے باعث نہ دیکھ سکا۔
نیاگرا آبشار اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب مظہر ہے، پانی بلندی سے بہت بڑی مقدار میں گہرائی میں گرتا ہے، پانی کے گرنے کا شور، وہاں سے اٹھنے والے بخارات، اردگرد کافی فاصلہ تک پڑنے والی ہلکی پھوار اور پانی کی گہرائی سے ابھر کر تھوڑے ٹھوڑے وقفہ سے جگہ بدلنے والی قوس قزح نے اس جگہ کو ایک ایسا منظر بخشا ہے جسے بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔
سی این ٹاور جو ’’کینیڈین نیشنل ٹاور‘‘ کا مخفف ہے ٹورانٹو شہر کے وسط میں واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی سب سے بلند بلڈنگ ہے، لوگ تیز رفتار لفٹ کے ذریعہ اوپر جاتے ہیں، خاصی بلندی پر ایک ریسٹورنٹ اور شاپنگ سنٹر بنایا گیا ہے جہاں سے لوگ یادگار کے طور پر خریداری کرتے ہیں۔ اس سے اوپر آخری بلندی تک جانے کے لیے الگ لفٹ ہے، وہاں پہنچ کر اردگرد کا منظر زیادہ واضح نظر آتا ہے، شہر کی بڑی بڑی بلڈنگیں جو زمین سے بلند وبالا نظر آتی ہیں وہاں سے بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہیں۔ اس دن موسم صاف تھا ورنہ بادل ہوں تو کہتے ہیں کہ بادل اس جگہ سے نیچے ہوتے ہیں اور بادلوں کی وجہ سے نیچے کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔
امریکہ میں جو بات سب سے زیادہ تکلیف دہ محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان کے حالات اور خبروں سے آگاہی کا کوئی انتظام نہیں ہے، لندن میں روزنامہ جنگ کی اشاعت کے باعث برطانیہ اور قریب کے یورپی ممالک میں پاکستانی باشندے اپنے وطن کے حالات اور ایک دوسرے کی سرگرمیوں سے با خبر رہتے ہیں لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے اور پاکستانیوں کے ایک دوسرے سے بے خبر اور بے رابطہ رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ پاکستان سے جنگ اور نوائے وقت آتے ہیں لیکن ہفتے میں ایک یا دو دفعہ اور وہ بھی بہت پرانے ہوتے ہیں۔ ۱۸ نومبر کی شام کو ایک پاکستانی کی دوکان سے روزنامہ جنگ لاہور کا ایک پرچہ میسر آیا جو ان کے بقول تازہ تھا مگر ۹ نومبر کا تھا جو وہاں ایک ہفتہ کے بعد دو ڈالر میں ملا، یعنی تقریباً چالیس پاکستانی روپے میں ایک ہفتہ پرانا خبار یہاں پڑھنے کو ملتا ہے۔
شمالی امریکہ کے دونوں ممالک کینیڈا اور امریکہ میں آباد پاکستانیوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق دس لاکھ سے متجاوز ہے، ان کے لیے جنگ لندن کی طرز پر ایک اردو روزنامہ کی اشاعت انتہائی ضروری ہے۔ کوئی بھی قومی روزنا مہ ہمت سے کام لے تو یہ اس کے لیے خسارے کا سودا نہیں ہوگا۔ ٹورانٹو میں الہلال، آزاد، پیغامبر اور امروز کے عنوان سے متعدد پندرہ روزہ اور ماہانہ اخبارات نظر سے گزرے جو نہ ہونے سے بہرحال بہتر ہیں مگر ان میں خبریں پرانی ہوتی ہیں اور معیار بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے بلکہ ایک اخبار تو کسی خوشنویس کی بجائے آدھے سے زیادہ عام ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں ان اخبارات میں اپنے ہم وطنوں کو وطن کی تازہ خبریں پہنچانے کی بجائے اشتہارات کے حصول کا رحجان زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔
حافظ سعید احمد صاحب، عبد القادر پٹیل صاحب اور دیگر احباب کا تقاضا تھا کہ کچھ دن اور ان کی میزبانی سے استفادہ کروں مگر پروگرام میں گنجائش کم تھی، پھر یہ پہلی ملاقات تھی جس کے حجابات اس کی طوالت میں حائل تھے، اس لیے تشنگی کا احساس دل میں دبائے ۱۹ نومبر کو ٹورانٹو سے یہ گنگناتے ہوئے امریکہ کی ریاست جارجیا کی طرف پرواز کر گیا کہ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا