بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارا کافی عرصہ سے یہ معمول ہے کہ باقی تعلیمی اور تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مہینے میں ایک دو دفعہ فکری نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں، جن میں عالمِ اسلام کو درپیش مسائل میں سے کسی نہ کسی مسئلے پر گفتگو ہوتی ہے، صورتحال کا تذکرہ ہوتا ہے، اور یہ بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسئلے کی نوعیت کیا ہے، ہمیں اس میں کیسے کام کرنا چاہیے اور اس سے کیسے نمٹنا چاہیے۔ تقریباً پانچ سات سال سے یہ معمول چلا آ رہا ہے۔
اس سال ہمارے ہاں پندرہ روزہ نشستوں کا اہتمام رہا اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ ہماری اس سال کی نشستوں کے عنوانات عام طور پر دینی جدوجہد کے مختلف پہلو رہے ہیں۔ نفاذِ شریعت کی جدوجہد، شریعت بل کا تعارف، اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کا تعارف، سنی شیعہ کشمکش، ختمِ نبوت کی تحریک وغیرہ دینی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ آج ہمارے اس سال کے پروگرام کی آخری نشست ہے، اس گفتگو کا عنوان تقریباً ساری باتوں کا خلاصہ ہے کہ دینی جدوجہد کے عصری تقاضے، یعنی دینی جدوجہد کے آج کے دور میں تقاضے کیا ہیں؟
ہر دور کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، اپنا ماحول اور اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ دینی جدوجہد کیا ہے اور اس کے آج کے زمانے میں ضروری تقاضے کیا ہیں، اس پر مختصراً بات ہو گی۔
(۱) پہلی بات یہ ہے کہ دینی جدوجہد، دین کے لیے جدوجہد، دین کے لیے محنت کرنا اس کے مختلف دائروں کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے۔ دینی جدوجہد کے بیسیوں پہلو ہیں۔ مثلاً:
- دینی جدوجہد کا ایک دائرہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کو دین کی دعوت دی جائے اور انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ، جو افراد یا جو ادارے یہ کام کر رہے ہیں وہ دینی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
- دینی جدوجہد کا ایک دائرہ یہ ہے کہ عام مسلمان کو دین سے وابستہ کیا جائے، دین کی طرف واپس لایا جائے، مسجدوں کو آباد کیا جائے اور دینی ماحول کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت مسجد سے متعلق نہیں ہے، اکثریت دین کی بنیادی باتوں کو نہیں جانتی، اکثریت کو دین کے تقاضوں کا علم نہیں ہے، فرائض و واجبات کا علم نہیں ہے، حتیٰ کہ بہت سے لوگ کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے۔ تو یہ محنت کہ عام مسلمان دین سے واقف ہو، مسجد سے متعلق ہو، دین کی طرف واپس آئے، دین کا ماحول قائم ہو، اس کو بنیادی ضروریات اور دینی معلومات فراہم ہوں۔ یہ بھی دینی جدوجہد ہے۔
- لوگوں کے عقائد کے حوالے سے محنت کہ غلط عقائد سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور صحیح عقیدے کی طرف لایا جائے یہ بھی دینی جدوجہد ہے۔ مثلاً اس کا ایک پہلو عقیدہ ختمِ نبوت ہے، بہت سے لوگ مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں، اور مغالطے کا شکار کرنے والے مسلسل تاک میں رہتے ہیں تو عقیدۂ ختمِ نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کے عقائد کا تحفظ اور ان کو فتنوں سے آگاہ کرنا دینی جدوجہد کا ایک دائرہ ہے۔
- یوں ہی قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ کے حوالے سے بہت سے لوگ مغالطوں کا شکار ہوتے ہیں اور لوگ مغالطوں کا شکار کرتے رہتے ہیں۔ قرآن پاک محفوظ ہے، سنت حجت ہے، حدیث پر ایمان ضروری ہے۔ یہ مسائل بھی عقیدے کے تحفظ کے مسائل ہیں اور اس کے لیے محنت کرنا بھی دینی جدوجہد ہے۔
- حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارے دین کی بنیاد ہیں، دین کے اولین گواہ ہیں۔ ان کی عظمت پر، ان کے ایمان پر، ان کی فضیلت پر، ان کی برتری پر اور ان کی اتھارٹی پر ایمان رکھنا بھی دین کے تقاضوں میں سے ہے۔ ان کے دفاع کے لیے محنت کرنا بھی دینی جدوجہد ہے۔
- لوگوں کے اخلاق و عادات کی اصلاح کرنا کہ لوگوں کے اخلاق، عادات اور معمولات صحیح ہوں، جو کہ عموماً تصوف کا میدان ہے کہ لوگوں کے معاملات درست ہوں، لوگوں کا ذکر اذکار کا مزاج بنے اور لوگوں کے اخلاق و عادات کی اصلاح ہو یہ بھی دین کی جدوجہد ہے، دین کا تقاضا ہے اور دین کی محنت ہے۔
- پھر یہ محنت کہ ہم اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں، مسلمان معاشرے میں رہتے ہیں تو قرآن پاک اور سنت رسول کی تعلیم عام ہو، درجہ بدرجہ۔ ایک ضروریات دین کا درجہ ہے جو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، مرد کے لیے بھی، عورت کے لیے بھی، بوڑھے کے لیے بھی اور بچے کے لیے بھی۔ وہ تو ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے فرض عین ہے۔ اس کے لیے محنت کرنا اور لوگوں کو دین کی تعلیم دینا، قرآن پاک کی تعلیم دینا، نماز کی تعلیم، نماز سے متعلقات کی تعلیم دینا دینی جدوجہد کا ایک شعبہ ہے۔
اس کا ایک درجہ فرضِ کفایہ کا ہے کہ دینی علوم محفوظ رہیں، موجودہ نسل ان سے متعارف ہو اور اگلی نسل تک بھی پہنچیں۔ مثلاً حدیث، سیرت، تفسیر، اصولِ حدیث، فقہ اور اصول فقہ وغیرہ جو بھی متعلقہ علوم ہیں اور جو درسِ نظامی کے نصاب کا حصہ ہیں، یہ بھی ضروری ہے کہ سوسائٹی کا ایک اچھا طبقہ ان علوم پر مہارت رکھتا ہو اور امت کی رہنمائی کر سکے۔ تو یہ تعلیم اور تدریس نچلے درجے پر بھی، درمیانے درجے پر بھی، اور اعلیٰ درجے پر بھی جس کو ہم تخصصات میں شمار کرتے ہیں، یہ بھی دین کے لیے محنت ہے اور دین کی محنت ہے۔ ضروریاتِ دین کی تعلیم، قرآن پاک کی تعلیم، حدیث کی تعلیم، سیرت کی تعلیم، سنت کی تعلیم، صحابہ کرامؓ کے حالات زندگی، دین کے ساتھ وابستگی، تعلیم و تدریس کے ذریعے دینی مدارس یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
- اس کے بعد معاشرے میں اس دین کی تنفیذ کہ دین سوسائٹی میں عملاً بھی آئے۔ قرآن پاک کے جو احکام پڑھائے جاتے ہیں وہ سوسائٹی میں عملاً نافذ ہوں، حدیث و سنت میں اور فقہ کی کتابوں میں جو احکام و مسائل اور جو نظام پڑھایا جاتا ہے، اس کی معاشرے میں تطبیق ہو، اس پر عمل ہو اور اس پر عمل کا نظام بھی ہو، جس کو ہم نفاذِ شریعت کی جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں، یہ بھی دینی جدوجہد ہے اور دین کا تقاضا ہے۔
یہ تو میں نے دینی جدوجہد کے مثبت پہلو ذکر کیے۔
- اسی طرح اسلام کے خلاف، ملتِ اسلامیہ کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف، مسلم ممالک کے خلاف دنیا بھر میں ہر سطح پر ہر دائرے میں ایک طوفان بپا ہے، فکری دنیا میں، سیاسی دنیا میں، تہذیبی دنیا میں اور تعلیمی دنیا میں۔ ہر شعبے میں سازشوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور مسلمانوں، اسلام اور اسلامی شعائر کی مخالفت کا ایک سلسلہ ہے، اس سے آگاہ ہونا، اس سے دوسروں کو آگاہ کرنا اور اس سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرنا بھی دین کی جدوجہد ہے اور دینی جدوجہد کا تقاضا ہے۔
اور جس طرح باقی سارے کاموں کے لیے کچھ طبقات مخصوص ہیں، اس کے لیے بھی ایک طبقہ ہر زمانے میں مخصوص رہا ہے، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا، جو یہی کام کرتے رہیں کہ فتنوں کی آگاہی حاصل کرتے رہیں، نشاندہی کرتے رہیں اور بتاتے رہیں کہ یہاں سے گڑبڑ ہو رہی ہے، یہاں سے گڑبڑ ہو رہی ہے۔ یہ ایک مستقل کام ہے اور ایک مستقل دینی ضرورت ہے۔ یہ بھی دینی جدوجہد ہے، یہ بھی دین کے لیے محنت ہے اور دین کی محنت ہے۔
- اسی طرح ایک دائرہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام پر، قرآن پاک کی آیات پر، سنت و حدیث پر، فقہ کے احکام پر اور شریعت کے احکام پر اعتراضات، شکوک و شبہات، اشتباہات اور طعن و تشنیع کا مستقل میدان عالمی سطح پر بھی، علاقائی سطح پر بھی، ملکی سطح پر بھی اور داخلی سطح پر بھی ہے۔ ہر سطح پر مستقل مورچے ہیں، کبھی کسی طرف سے کوئی اعتراض آ جاتا ہے، کبھی کسی طرف سے کوئی اعتراض آ جاتا ہے، کبھی کسی کی طرف سے شک کا کوئی کانٹا چبھو دیا جاتا ہے۔ یہ دین کا ایک مستقل شعبہ اور مستقل میدان ہے کہ اسلام پر، قرآن پاک پر، سنت رسول پر، اسلام کے احکام پر، شریعت کے قوانین پر، اسلامی روایات پر اور اسلامی ثقافت پر مختلف طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے، ان کا جواب دیا جائے اور ان کا توڑ کیا جائے۔ یہ مستقل دینی جدوجہد ہے۔
یہ دین کی جدوجہد کے مختلف دائرے ہیں، ان میں سے کوئی کام بھی دینی جدوجہد سے ہٹ کر نہیں ہے۔ یہ میں نے چند گنے ہیں، اگر اس کو پھیلایا جائے تو اور بھی دینی جدوجہد کے دائرے ہیں۔ ایک غیر مسلم کو دین کی دعوت دینے اور ایک مسلمان کو دین کی طرف واپس لانے کی محنت سے لے کر اسلام اور قرآن پاک پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لینے، جواب دینے، اس کا توڑ کرنے اور شکوک و شبہات دور کرنے تک سارے مراحل دین کے ہی شعبے ہیں۔ یہ ساری دین کی محنتیں ہیں اور دینی جدوجہد ہے۔
پہلے مرحلے پر تو میں نے عرض کیا کہ دینی جدوجہد کہتے کس کو ہیں۔ دینی جدوجہد کے ان سب دائروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ایک مزاج عام طور پر بنتا جا رہا ہے کہ میں جس شعبے میں کام کر رہا ہوں، اسی کو دین کی جدوجہد سمجھتا ہوں، دوسری چیزیں میرے نزدیک دین کی جدوجہد کے دائرے میں شامل نہیں رہتیں۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے، درست نہیں ہے۔ جو میں کام کر رہا ہوں وہ بھی دین کا ہے اور جو دوسرا بھائی کام کر رہا ہے وہ بھی دین کا کام ہے۔
اس لیے پہلے مرحلے پر میں نے یہ عرض کیا کہ دین کے لیے، دین کے فائدے کے لیے، دین کے کسی شعبے کی ترویج کے لیے یا دین کو نقصان سے بچانے کے لیے جو محنت بھی کہیں ہو رہی ہے وہ دینی جدوجہد ہے۔ یہ سارے دینی جدوجہد کے مختلف پہلو ہیں۔
(۲) دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جو آدمی جس شعبے میں کام کر رہا ہے تو اس کے لیے اپنی جدوجہد کی ضروریات سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ ملک میں اسلام کے نفاذ کے لیے محنت رہے ہیں۔ ایک آدمی نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا نعرہ لگاتا ہے اور جدوجہد کرتا ہے تو اس کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کی صورتحال کیا ہے؟ ماضی، حال اور مستقبل سے آگاہ ہونا، گاڑی کہاں پھنسی ہوئی ہے، کہاں چل رہی ہے، کہاں رکاوٹ ہے، مسائل کیا ہیں اور تقاضے کیا ہیں؟ اس کو اپنے میدان کے ان سارے تقاضوں کا علم ہونا چاہیے۔
جیسے ایک آدمی کرکٹ کا کھلاڑی ہے، وہ کھیل کے میدان میں اترتا ہے تو اس کی نظر صرف گیند اور بلے پر نہیں ہوتی، بلکہ پورے ماحول پر ہوتی ہے۔ وہ بال کراتا ہے یا بیٹنگ کرتا ہے، وہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ میں نے گیند پھینکنی ہے، یا گیند آ رہی ہے اور میں نے اڑانی ہے، بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے، کون کیا کر رہا ہے، پچ کیسی ہے، بیک کیا ہے، دائیں کون ہے، بائیں کون ہے۔ اس نے کام اتنا ہی کرنا ہے کہ گیند پھینکنی ہے، لیکن وہ صرف گیند نہیں پھینکتا، بلکہ جب تک اس کی پورے ماحول پر نظر نہ ہو کہ کون کہاں کھڑا ہے اور جو دائیں کھڑا ہے اس کی پوزیشن کیا ہے اور جو بائیں کھڑا ہے اس کی پوزیشن کیا ہے، اس وقت تک وہ گیند کو حرکت نہیں دیتا۔
یوں ہی کسی بھی شعبے میں آپ جدوجہد کر رہے ہیں تو صرف یہ کہ میں کام کر رہا ہوں، نہیں بھئی، یہ اتنا کام نہیں ہے۔ اس میدان اور اس کی جدوجہد کے تمام تقاضوں سے باخبر ہونا اس کی بنیادی ضرورت ہے، اور صرف باخبر ہونا نہیں بلکہ ان تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
یا مثلاً ایک آدمی دعوت کے میدان میں کام کر رہا ہے۔ دعوت کے دو دائرے ہیں: ایک ہے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا، اور ایک ہے عام مسلمان کو دین کی طرف واپس لانا۔ یہ دونوں مستقل دائرے ہیں۔ دعوت دینے کے لیے اس کو عام آدمی کی نفسیات سے باخبر ہونا چاہیے کہ میں نے کس سے کس لہجے میں بات کرنی ہے، کیسے بات کرنی ہے۔ غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دینی ہے تو کیسے دینی ہے، کس زبان میں بات کرنی ہے۔ دعوت کے اپنے تقاضے ہیں اور اپنی ضروریات ہیں، جن سے واقفیت ایک داعی کے لیے ضروری ہے۔
میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں دو بڑے میدان ہیں: دعوت کا میدان مستقل تقاضے رکھتا ہے، اور مقابلے اور دفاع کا میدان مستقل تقاضے رکھتا ہے۔ جو لہجہ آپ دفاع اور مناظرے میں اختیار کریں گے وہ دعوت میں اختیار نہیں کریں گے۔ اور جو دعوت میں اختیار کریں گے وہ مناظرے میں اختیار نہیں کریں گے ورنہ شکست کھا جائیں گے۔ مقابلے کا میدان اور ہے، دعوت کا میدان اور ہے۔
میں اس کی ایک مثال دیا کرتا ہوں۔ ملک میں وزارتِ دفاع مستقل ہوتی ہے، جرنیل تیار کیے جاتے ہیں اور بڑی مشکل سے تیار ہوتے ہیں۔ فوج تیار کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا جرنیل تیار کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف دوسری قوموں سے مذاکرات کے لیے ڈپلومیٹ تیار کیے جاتے ہیں، سفارتکار تیار کیے جاتے ہیں۔ دونوں ایک ہی سسٹم کا حصہ ہیں وہ بھی ملک کی خدمت کر رہا ہے، یہ بھی ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ لیکن سفارتکار کی زبان اور ہے، جرنیل کی زبان اور ہے۔ ڈپلومیٹ میز پر بیٹھ کر اگر جرنیل کی زبان بولے گا تو بیڑا غرق کر دے گا، اس نے اپنی زبان بولنی ہے۔ اور اگر جرنیل میدان جنگ میں ڈپلومیسی کی زبان بولے گا تو ہار جائے گا۔ حالانکہ دونوں ملک کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن ہر ایک کا رویہ بالکل مختلف ہے۔ اُس کی زبان الگ ہے، اِس کی زبان الگ ہے۔ اُس کا لہجہ الگ ہے، اِس کا لہجہ الگ ہے۔ جرنیل کا لہجہ ڈپلومیٹ اختیار نہیں کر سکتا اور ڈپلومیٹ کا لہجہ جرنیل اختیار نہیں کر سکتا۔
اسی طرح دعوت کا میدان اپنا ہے، اس کی اپنی زبان ہے اور اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ جبکہ دفاع اور مقابلے کا میدان جدا ہے، اس کے اپنے تقاضے اور اپنی ضروریات ہیں۔ تو جس شعبے میں کوئی کام کر رہا ہے اس کو اپنے شعبے کا علم ہونا چاہیے۔ اور جن لوگوں میں کام کر رہا ہے ان کی نفسیات کا علم ہونا چاہیے۔ اس پر میں عام طور پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حوالہ دیا کرتا ہوں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نفسیات کے مطابق بات کرتے تھے۔ ایک بڑا مشہور واقعہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے سردار تنگ آ کر بالآخر جناب ابو طالب کے پاس آئے۔ ستر سردار تھے، پورا جرگہ لے کر آئے، ان میں ابو جہل بھی تھا۔ انہوں نے جناب ابو طالب سے کہا کہ ہم تمہارے بھتیجے سے بات کرنا چاہتے ہیں اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ سارے چودھری تھے، سردار تھے، بڑے پھنے خان تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جناب! آپ دو ٹوک بات کیجئے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ آخری بات یہی ہوتی ہے کہ ’’مکدی مکاؤ‘‘۔ دو ٹوک بتائیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ مال چاہیے، رشتہ چاہیے، حکومت چاہیے؟ یہ سارے مراحل اسی کے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سرداروں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جملہ کہا کہ میں تمہیں ایک کلمہ پیش کر رہا ہوں، اگر تم یہ کلمہ قبول کر لو تو عرب تو تمہارے تابع ہوں گے ہی، عجم پر بھی تمہاری حکومت ہوگی۔ یہ جملہ ان سرداروں کی نفسیات کے مطابق تھا کہ چودھری آدمی کو چودھراہٹ ہی چاہیے ہوتی ہے، سرداروں کی نظر سرداری پر ہی ہوتی ہے، اس لیے فرمایا کہ جو تمہارا تقاضا ہے وہ بھی اسی میں ہے، اور تھی بھی اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
اس موقع پر یہ جملہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نفسیات کو سامنے رکھ کر کہا کہ یہ اس لیول کے لوگ ہیں، اس سطح کے لوگ ہیں تو ان کو یہی زبان سمجھ آئے گی اور ان کو یہی لہجہ سمجھ آئے گا کہ چودھراہٹ کہاں ملتی ہے۔ فرمایا: وہ بھی یہیں ملتی ہے، کلمہ تو پڑھو، مل جائے گی۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ دینی جدوجہد کے کسی بھی شعبے میں آدمی کام کر رہا ہے تو اس کو اپنے شعبے کے تقاضوں کا علم ہونا چاہیے۔ اس جدوجہد کے تقاضوں کو، ماحول کو اور ضروریات کو سمجھنا چاہیے اور جن کے ساتھ اس کی ڈیلنگ ہے ان کی نفسیات کا علم بھی ہونا چاہیے کہ یہ کس لہجے میں بات سنے گا اور اس سے کس انداز سے بات کرنی ہے، یہ دیکھنا بھی دینی جدوجہد کے تقاضوں میں سے ہے۔
مثال کے طور پر ایک آدمی ختمِ نبوت کے محاذ پر کام کر رہا ہے تو اس کو ختمِ نبوت کے محاذ پر یہ علم ہونا چاہیے کہ قادیانی کیا کام کر رہے ہیں، ان کا طریقۂ واردات کیا ہے، وہ کون سے شعبوں میں کام کر رہے ہیں، ان کا دائرہ کار کیا ہے؟ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ میں اپنی مسجد میں کام کر رہا ہوں اور قادیانی یونیورسٹی میں کام کر رہے ہیں، میری مسجد کی تقریر سے اس کو کیا فرق پڑے گا؟ جہاں وہ کام کر رہا ہے، مجھے معلوم کرنا چاہیے اور اس لیول پر کام کرنا چاہیے۔
اسی طرح دفاعِ صحابہؓ کا کام ہے، تب بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کام کہاں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے، کیسا کر رہا ہے اور اس کے مطابق دینی جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہیے۔
(۳) تیسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دینی جدوجہد کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکمتِ عملی کے ساتھ دینی جدوجہد کی جائے۔ حکمتِ عملی اختیار کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ صرف جوش کچھ نہیں کرتا، بلکہ بسا اوقات جوش نقصان دے جاتا ہے، بلکہ اکثر اوقات جوش نقصان دے جاتا ہے۔ حکمتِ عملی کے حوالے سے ایک مثال دینا چاہوں گا۔ داخلی جدوجہد کے حوالے سے اس بات پر غور فرمائیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ”یا ایہا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم“ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست مخاطب کر کے فرمایا اے پیغمبر! کافروں کے ساتھ جہاد کرو، منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور سختی کرو، نرمی نہ کرنا۔ یہ قرآن مجید کا حکم ہے اور واحد کے صیغے کے ساتھ حضور نبیؐ کو حکم ہے: ’’اے پیغمبر‘‘ اور نام لے کر کہا گیا ہے کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو۔
میں عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے تو بہت جہاد کیے ہیں، لیکن اپنی دس سالہ مدنی زندگی میں منافقین کے ساتھ کون سا جہاد کیا ہے؟ منافقین کے خلاف حضورؐ نے کوئی مورچہ نہیں لگایا، کوئی مقابلہ نہیں کیا، کوئی جنگ نہیں کی، بلکہ منافقین کو تو قتل کرنے کی لوگ اجازت مانگتے تھے تو اجازت تک نہیں دی۔ عبداللہ بن ابی سمیت بہت سے منافقوں کو قتل کرنے کی حضرت عمرؓ سمیت بہت سے صحابہ کرامؓ نے اجازت مانگی، لیکن حضور نبی کریمؐ نے فرمایا نہیں، انہیں کچھ نہیں کہنا۔
قرآن کہتا ہے جہاد کرو اور حضورؐ کہتے ہیں کہ ایک آدمی بھی قتل نہیں کرنا تو جہاد کدھر گیا؟ قرآن کہہ رہا ہے کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور سختی کرو، جبکہ حضورؐ سے منافقوں کے سردار کے قتل کی اجازت مانگی جا رہی ہے، مگر آپؐ فرماتے ہیں کہ نہیں۔ بلکہ اس درجہ محتاط ہیں کہ آخری ٹولہ جس نے حضور نبی کریمؐ کو گھیرے میں لے کر اپنی طرف سے قتل کرنے کی سازش کی تھی، قتل نہیں کر سکے تھے، وہ پہچانے گئے تھے۔ حضورؐ ان چودہ کے چودہ آدمیوں کو جانتے تھے، لیکن کسی ایک کا نام بھی ظاہر نہیں کیا۔ ایک ساتھی کو ان کے نام بتائے مگر یہ وعدہ لے کر بتائے کہ کسی کو نہیں بتانا۔
حضرت حذیفہؓ نے بھی وعدہ ایسا نبھایا کہ حضرت عمرؓ بار بار پوچھتے تھے کہ کسی ایک کا نام بتا دیں، لیکن حضرت حذیفہؓ کہتے کہ نہیں بتاؤں گا۔ حضرت عمرؓ ایڑیوں کے بل زور لگا چکے، لیکن حضرت حذیفہؓ نے کسی کا نام ظاہر نہیں کیا۔ حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے ایک اور پینترا بدلا، فرمایا کہ میرا نام تو ان میں نہیں ہے؟ حضرت حذیفہؓ نے کہا آپ کا نہیں ہے، لیکن کسی اور کے بارے میں مت پوچھیے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ کسی عام مسلمان کے جنازے پر جاتے تو دیکھتے تھے کہ حضرت حذیفہؓ جنازے پر ہیں تو جنازہ پڑھاتے تھے، ورنہ کہتے جنازہ پڑھو، میں نہیں پڑھاؤں گا۔ اتنی احتیاط کرتے تھے۔
میں حکمتِ عملی کی بات کر رہا ہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے خلاف تلوار کا جہاد کیا ہے اور منافقین کے خلاف حکمتِ عملی کا جہاد کیا ہے۔ یہ نہیں کہ حضورؐ نے اس آیت پر عمل نہیں کیا، بلکہ حضورؐ نے منافقین کے خلاف جہاد کیا ہے، وہ بھی جہاد ہے۔ تلوار کا جہاد نہیں کیا لیکن حکمتِ عملی کا جہاد کیا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے ساتھ ان کو مورچہ بھی نہیں بنانے دیا، مسجد ضرار مورچہ تھا۔ آپؐ نے اپنے خلاف مورچہ قائم نہیں ہونے دیا، ساری احتیاطیں کی ہیں، لیکن کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کروایا۔ اور اس حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ تھا کہ احد کی جنگ میں ہزار میں سے تین سو منافقین تھے اور احد کے آٹھ سال بعد جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے گئے ہیں تو وہی بارہ چودہ آدمی رہ گئے تھے، جن کا نام حضرت حذیفہ کو معلوم تھا، باقی سارے ضم ہو گئے تھے۔
جناب نبی کریمؐ نے کافروں سے تلوار کا جہاد کیا ہے اور منافقین کے ساتھ حکمتِ عملی اور تدبر کا جہاد کیا ہے۔ یہ اعصابی جنگ بڑی خوفناک ہوتی ہے، تلوار کی جنگ ہوتی ہے کہ وہ گیا یا میں گیا۔ جبکہ اعصابی جنگ اور نفسیاتی جنگ بڑی خوفناک ہوتی ہے اور بڑی اعصاب شکن ہوتی ہے۔ مسلسل دس سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے ساتھ نفسیاتی جنگ لڑی ہے اور بالآخر وہ سب تحلیل ہو گئے۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں آپ کو کوئی منافق دکھائی نہیں دے گا، سارے منافق حضورؐ کے دس سالہ دور میں تحلیل ہو گئے تھے۔
میں نے دینی جدوجہد کے کچھ تقاضے عرض کیے ہیں۔ جہاں سختی کی ضرورت ہو تو سختی بھی منع نہیں ہے، لیکن حکمتِ عملی کے ساتھ، حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اور دین کی جدوجہد کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہمیں محنت کرنی چاہیے۔
(۴) ایک بات اور عرض کروں گا۔ مجھے اپنے دو بزرگوں کی دو باتیں یاد آ رہی ہیں، میں ان کا ضرور حوالہ دینا چاہوں گا۔ دینی جدوجہد کے بنیادی تقاضوں میں سے یہ دو باتیں بھی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم لوگ جلسے کرتے تھے، جلوس نکالتے تھے، نعرے لگاتے تھے، اخبارات میں بیان دیتے تھے، ریلیاں نکالتے تھے، گرفتاریاں دیتے تھے۔ یہ بڑا مشکل کام ہے، آسان کام نہیں ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز میری بھاگ دوڑ دیکھتے رہتے تھے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے بلا لیا اور کہا برخوردار! تمہاری بھاگ دوڑ میں دیکھ رہا ہوں، کبھی کدھر کبھی کدھر، میں پڑھتا بھی رہتا ہوں اور دیکھتا بھی رہتا ہوں۔ آج تمہیں ایک بات کہنے لگا ہوں کہ جتنی محنت کر رہے ہو، اس توقع پر مت کرنا کہ جو تم چاہتے ہو، وہ ہو بھی جائے گا۔ کبھی یہ تصور نہ کرنا کہ میں جو محنت اور جدوجہد کر رہا ہوں، یہ ہو بھی جائے گا۔ بلکہ ہوگا اپنے وقت پر ہی۔ اس لیے تم یہ سمجھ کر جدوجہد کرنا کہ جو میں کر سکتا ہوں وہ کر رہا ہوں، باقی اللہ کا کام ہے۔
پھر اس کی وجہ بتائی کہ میں تمہیں یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ فرمایا کہ آدمی محنت کرتا ہے، محنت میں انتہا پر جاتا ہے، لیکن جب نتیجہ نہیں ملتا تو پھر ری ایکشن میں آدمی دوسری طرف اسی انتہا پر چلا جاتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ دس پندرہ سال محنت کی، کام نہیں ہوا تو مایوس ہو جاتا ہے اور مایوسی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ فرمایا اس لیے میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ کبھی یہ توقع لے کر جدوجہد مت کرنا کہ جو کر رہا ہوں وہ ہو جائے گا، صرف یہ سمجھ کر کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری ذمہ داری ہے، جتنا مجھ سے ہو سکتا ہے میں کر رہا ہوں۔
والد محترمؒ کی یہ نصیحت مجھے کبھی نہیں بھولتی اور بہت سہارا دیتی ہے۔ سچی بات ہے، اپنی پچاس سالہ تحریکی زندگی میں بہت سے مراحل سے گزرا ہوں، اس بات نے بہت سے مواقع پر میری پشت پناہی کی ہے، سہارا دیا ہے اور کھڑا رکھا ہے۔
ایک دفعہ مجھے چچا محترم حضرت صوفی عبد الحمید صاحب سواتی رحمۃ اللہ علیہ نے بلایا اور ایک بات انہوں نے کہی۔ بڑی مزے کی بات کی۔ بڑے لوگ بڑی باتیں ہی کرتے ہیں۔ فرمانے لگے بیٹا! میں تمہیں دیکھتا ہوں کبھی ادھر کبھی ادھر، سارے میری آنیاں جانیاں دیکھتے تھے۔ فرمایا دیکھو، کبھی کوئی کام کر کے یہ نہ سمجھنا کہ میں نے کیا ہے۔ اگر کسی کام کی کسی درجے میں توفیق ہوئی ہے تو یہ سمجھنا کہ اللہ پاک نے کام لے لیا ہے۔ خود کچھ بھی نہیں کر سکتے، کام اللہ لیتا ہے۔ کبھی یہ نہ سمجھنا کہ میں نے معرکہ کیا ہے، میں نے تیر مارا ہے، میں نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ کبھی بڑی سے بڑی کامیابی بھی ملے تو یہ مت سمجھنا کہ میں نے کچھ کیا ہے، بلکہ یہ سمجھنا کہ اللہ پاک کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے تھوڑا بہت کام لے لیا ہے۔ فرمایا کہ جب یہ تصور رکھو گے تو آئندہ بھی کسی کام کی توفیق ہوگی، کیونکہ اللہ پاک کا وعدہ ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر تم شکر ادا کرو گے تو ہم اپنی نعمتوں میں اضافہ کریں گے۔ چچا محترمؒ کی یہ بات بھی بہت بڑا سہارا ہے۔
آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا، جو ہمیشہ عرض کیا کرتا ہوں اور جب بھی علماء کرام سے دینی جدوجہد کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو یہ تین گزارشات کیا کرتا ہوں:
- پہلی بات یہ کہ دینی جدوجہد سے لا تعلق مت رہیے، دینی جدوجہد سے بالکل لا تعلق رہنا کہ دینی جدوجہد کے کسی شعبے میں آدمی کا کوئی رول نہ ہو، لاتعلق ہو کر بے پرواہ ہو جانا میں اس کو کفر تو نہیں کہتا، لیکن یہ کفر سے کم بھی نہیں ہے۔
- دوسری بات یہ ہے کہ جہاں ذوق ہو وہاں کام کریں۔ ہر آدمی کا اپنا ذوق ہے۔ دعوت کا ذوق ہے تو دعوت کا کام کریں، جہاد کا ذوق ہے تو جہاد کا کام کریں، دفاع کا ذوق ہے تو دفاع کا کام کریں، تعلیم و تدریس کا ذوق ہے تو تعلیم و تدریس کریں۔ جس شعبے سے ذوق اور مزاج ملتا ہے وہاں کام کریں۔
- تیسری بات یہ ہے کہ دوسرے کسی کام کی نفی نہ کریں، تحقیر نہ کریں۔ تعاون ہو سکتا ہے تو کریں، نہیں ہو سکتا تو خاموشی کے ساتھ اپنا کام کریں۔
یہ چند باتیں میں نے دینی جدوجہد کے عصری تقاضوں کے حوالے سے گزارش کی ہیں۔ اللہ پاک مجھے اور آپ سب کو دین کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد کرنے کی اور کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔