حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا الگ ذوق تھا۔ حدیثوں کے سب سے بڑے راوی کون ہیں؟ حضرت ابوہریرہؓ۔ ہزاروں حدیثیں، جہاں بھی کوئی بات نکالو حضرت ابوہریرہؓ سے کوئی نہ کوئی روایت نکل آتی ہے۔ ان کا ذوق یہ تھا کہ حدیث یاد کرنا، حدیثیں سننا، حدیثیں سنانا۔ آخر عمر میں ان پر اعتراضات بھی ہونے لگے۔ برابر کے لوگ تو جانتے ہیں لیکن بعد والوں کو سمجھ نہیں آتی کہ بابا کیا کر رہا ہے، یہ اکثر ہوتا ہے۔ برابر کے لوگوں کو پتہ تھا ان کے ذوق کا، محنت کا، بعد والے کہنے لگے کہ یہ بابا کیا کرتا ہے ہر بات پر حدیث سنا دیتا ہے۔ اور یہ بھی اشکال کی بات ہوئی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کو زمانے تو سارا چار سال کا ملا ہے اور حدیث ہر بات پر سناتے ہیں۔ خیبر کے بعد آئے ہیں یہ۔ یہ جب یمن سے آئے تو خیبر کی غنیمت تقسیم ہو رہی تھی۔ ساڑھے تین سال، پونے چار سال، اس سے زیادہ نہیں ملا۔
زمانہ حضورؐ کے ساتھ کتنا ملا ہے؟ زیادہ سے زیادہ چار سال ہی گن لیں۔ اور حدیثیں سب سے زیادہ بیان کرتے ہیں۔ کوئی مسئلہ ہو، میں نے حضورؐ سے یہ سنا، حضورؐ نے یوں فرمایا، میں نے حضورؐ کو دیکھا۔ نوجوانوں کو اشکالات ہوئے کہ بابا جی، اللہ خیر کرے، کیا کرتے ہیں۔ مروان بن حکمؒ امیر مدینہ تھے، ان کے دوست تھے، کبھی باہر جاتے تو ان کو اپنا قائم مقام بنا جاتے تھے اور یہ جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے، مسجد نبویؐ میں بہت جمعے پڑھائے ہیں انہوں نے آخری زمانے میں۔ ایک دن باباجی کو جمعے کے خطبے میں خیال آگیا، اور غصے میں آگئے، ہلکا پھلکا غصہ تھا۔ ’’لقد اکثرتم‘‘ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں۔ آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حدیثیں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ باباجی کو آگیا غصہ کہ یہ روز کھسرپھسر کھسرپھسر ہوتی رہتی ہے کہ اتنی حدیثیں کہاں سے لاتے ہیں کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں آج میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ میں سب سے تھوڑا زمانہ پا کر زیادہ حدیثیں کیوں بیان کرتا ہوں۔
بخاری میں روایت ہے یہ ساری۔ چونکہ غصے میں بات کر رہے ہیں اعتراض کے جواب میں تو لہجہ وہی ہے۔ او تمہارے مامے، تمہارے چاچے، تمہارے تائے جو تھے نا۔ اس لہجے میں۔ تمہارے مامے، تمہارے چاچے، تمہارے تائے، کوئی ایک نماز میں آتا تھا، کوئی دو نمازوں میں آتا تھا، کوئی تیسرے دن آتا تھا، کوئی چوتھے دن آتا تھا، کوئی جمعے میں آتا تھا۔ میں نے جب سے حضورؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اس وقت سے لے کر حضورؐ کے وصال تک حضورؐ سے حدیثیں سننے کے سوا میں نے کوئی کام کیا ہی نہیں۔ میں حاضر باش شاگرد تھا چوبیس گھنٹے کا۔ گھر کے دروازے پر چھوڑ کر آتا تھا، اور مجھے پتہ ہوتا تھا کہ کب آنا ہے تو گھر کے دروازے سے وصول کرتا تھا کہ کہیں راستے میں کوئی بات فرما دیں اور میں نہ سنوں، ایسا نہ ہو جائے۔ مجھے ملے ساڑھے تین سال ہی ہیں لیکن ایک لمحہ بھی میں نے ضائع نہیں کیا، میں حاضر باش شاگرد تھا، اور حضورؐ کے ساتھ چمٹا رہتا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہ وقت ضائع نہ ہو، میں نے مسلسل شب و روز یہی کام کیا ہے کہ حضورؐ کی باتیں سنوں اور یاد کروں۔