سعودی عرب اور پاکستان سے امت مسلمہ کی توقعات

   
۲۴ فروری ۲۰۱۹ء

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان آل سعود پاکستان اور بھارت کا دورہ کر کے واپس تشریف لے جا چکے ہیں اور دونوں ملکوں کے ساتھ سعودی عرب کے بہت سے معاشی معاہدات کے بعد اب اس خطہ میں نئی اقتصادی منصوبہ بندی کا آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے ہی سعودی عرب کی پر خلوص دوستی، معاونت بلکہ بہت سے عالمی معاملات میں شراکت حاصل رہی ہے اور حرمین شریفین کے ساتھ محبت و عقیدت کے باعث سعودی عرب کو ہمیشہ پاکستان کی حکومت اور عوام کے مرکز محبت کا مقام حاصل رہا ہے جو آئندہ بھی اسی طرح جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

سعودی ولی عہد نے دورہ پاکستان کے موقع پر جس گرم جوشی، محبت اور عنایات کا مظاہرہ کیا ہے وہ پاکستان کے بارے میں ان کے دلی جذبات و احساسات کا عکاس ہے اور اس پر پوری پاکستانی قوم ان کی شکر گزار اور ان کے لیے دعا گو ہے۔ بحمد اللہ تعالیٰ پاکستان نے بھی کسی دور میں سعودی عرب کی وحدت و سالمیت اور اس کے احترام و تحفظ کے لیے نیک خواہشات، مساعی اور تعاون سے گریز نہیں کیا، جو سعودی عرب پر کوئی احسان نہیں بلکہ حرمین شریفین کے ساتھ ہماری عقیدت و محبت کا اظہار ہے اور ہم اسے اپنے ملی فرائض میں شمار کرتے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلیمان نے دیگر مہربانیوں کے ساتھ سعودی عرب کی مختلف جیلوں میں قید ہزاروں پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کر کے پاکستانی قوم کے ساتھ جس محبت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی پاکستانی عوام کو ہمیشہ یاد رہے گا اور ان قیدیوں کے خاندانوں کی مسلسل دعاؤں کا باعث ہوگا۔ اس موقع پر ہم سعودی عرب اور پاکستان کی قیادتوں کو ایک اور امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہیں گے جس کا ذکر پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی کی طرف سے شہزادہ محترم کی تشریف آوری پر ایک اخباری بیان میں کیا گیا تھا، اس کا متن ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

’’پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اس دورے سے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور دونوں ملک عالم اسلام کے مسائل اور ملت اسلامیہ کی مشکلات کے حل کے لیے کوئی مؤثر پیشرفت کر سکیں گے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب ہمارا مخلص ترین دوست ملک ہونے کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کی مسلسل خدمت کے حوالہ سے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز بھی ہے اس لیے شہزادہ محمد بن سلیمان کا دورہ پاکستان تمام پاکستانیوں کے لیے خوشی اور فرحت کا باعث ہے اور ہم اس کی بھرپور کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ مولانا درخواستی نے کہا ہے کہ عالم اسلام اس وقت جن مشکلات کے حصار میں ہے اور پوری ملت اسلامیہ کو بین الاقوامی سطح پر جن سازشوں اور خطرات کا سامنا ہے ان کے تناظر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظریں جن مسلم حکومتوں کی طرف لگی ہوئی ہیں ان میں سعودی عرب اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ سعودی ولی عہد کا یہ دورہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی مشکلات اور مسائل کے حل اور دنیا کے مختلف حصوں میں ظلم و جبر کا شکار مظلوم مسلمانوں کی دادرسی کے لیے مفید مشاورت اور پیشرفت کا حامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان شریعت کونسل اپنے محترم اور باوقار مہمان معظم کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتی ہے اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے دعاگو ہے، اللہم ربنا آمین۔‘‘

ملت اسلامیہ اور عالم اسلام کی اجتماعی مشکلات و مسائل اور دنیا کے مختلف حصوں میں ظلم و جبر کا شکار مسلمانوں کی دادرسی کی طرف توجہ کی درخواست کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان مشکلات و مسائل اور مظلومیت و بے بسی کا دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے اور دادرسی کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی نظام کا استعماری شکنجہ فلسطین، کشمیر، اراکان اور سنکیانگ سمیت کسی مقام پر بھی مسلمانوں کی مظلومیت، بے کسی اور قتل عام کی روک تھام میں کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے مسلسل چشم پوشی اور ظالم قوتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے اور صورتحال دن بدن سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ دنیا بھر کی مسلم حکومتیں بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) بھی زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہیں، فیا اسفاہ و یا ویلاہ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی نظریں ترکی، سعودی عرب، پاکستان اور ملائیشیا کے حکمرانوں کی طرف بار بار اٹھتی ہیں اور ادھر سے ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد کے حوالے سے آنے والی کوئی بھی امید افزا خبر ان کے کرب و اضطراب میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

اس دوران کشمیری عوام کی مظلومیت کی تازہ لہر نے خطہ میں ایک بار پھر کشیدگی کا اضافہ کر دیا ہے اور بھارت کی جنونی قیادت اس اشتعال کو مسلسل بڑھانے میں مگن ہے۔ بھارتی حکومت کی دھمکیوں کے جواب میں وزیراعظم پاکستان نے جو جرأتمندانہ موقف اختیار کیا ہے وہ قوم کے دلوں کی آواز ہے مگر ہمارے خیال میں معاملہ صرف اتنا نہیں ہے۔ اصل ضرورت مسلم حکمرانوں کے خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ہے اور ملت اسلامیہ کی اجتماعی صورتحال کا جائزہ لے کر ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کی ہے۔ کیونکہ ہر جگہ ظلم و جبر اور مظلومیت و بے کسی کی اصل وجہ اسلام اور ان لوگوں کا مسلمان ہونا ہے، ان خطوں کے لوگ خدانخواستہ اپنے مسلمان ہونے پر نظرثانی کا اظہار کر دیں تو ان کی یہ مظلومیت اور مجبوری کسی جگہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ عالمی استعمار اور ظلم و جبر کا بازار گرم کرنے والی قوتیں تو یہی چاہتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمران بھی نعوذ باللہ اسی کا انتظار کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہرحال پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور ملائیشیا جیسے با اثر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ہی دینا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter