جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت کا فیصلہ

   
۱۳ دسمبر ۱۹۸۵ء

مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری اطلاعات مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ قادیانیوں کو مسلمان قرار دینے کے بارے میں جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت کے حالیہ فیصلہ کی کوئی دینی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے کیونکہ کسی شخص یا گروہ کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا خالصتاً مسلم علماء کا کام ہے۔ اور دنیا بھر کے تمام مکاتبِ فکر کے مسلم علماء کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے متفقہ فیصلہ کے بعد ایک غیر مسلم عدالت کی طرف سے انہیں مسلمان قرار دینے پر اصرار صریحاً جانبداری اور مسلمانوں کے دینی امور میں بے جا مداخلت ہے جس پر دنیا کی تمام مسلم حکومتوں اور اداروں کو احتجاج کرنا چاہیے۔

یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ جس گروہ کو دنیا کے نوے کروڑ مسلمان متفقہ طور پر خود سے الگ ایک غیر مسلم گروہ قرار دے چکے ہیں اور اسے اپنے وجود کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت اس گروہ کو زبردستی مسلمانوں کی صف میں شامل کرنا چاہتی ہے اور اسے اس سلسلہ میں مسلمانوں کے دینی معتقدات و مسلمات اور اجماعی فیصلوں کا کوئی لحاظ نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ کی عدالت کے اس رویہ نے ہمارے اس موقف کی تصدیق کر دی ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قوتوں کی عملی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ قوتیں قادیانی گروہ کو دام ہمرنگ زمین کے طور پر استعمال کر کے مسلم معاشرہ کو فکری انتشار سے مسلسل دوچار رکھنا چاہتی ہیں۔

کیا عیسائی اور یہودی مذہب کے دانش ور دنیا کی کسی مسلم عدالت کو یہ حق دینے کے لیے تیار ہیں کہ وہ کسی فرد یا طبقہ کے عیسائی یا یہودی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے منحرف ایک باغی گروہ کو مسلمانوں میں زبردستی شامل کرنے کا فیصلہ کرے؟ اور دنیا کے مسلمہ دینی و اخلاقی اصولوں کی روشنی میں اس فیصلہ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے ساتھ غیر مسلموں کا سلوک روا رکھنے سے قادیانیت کے استعماری پشت پناہ سیخ پا ہیں کیونکہ اس طرح سامراجی قوتوں کے وہ مقاصد ہی فوت ہو جاتے ہیں جن کی خاطر انہوں نے اس گروہ کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری قوتیں نوے کروڑ مسلمانوں کے معتقدات و جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے مختلف اداروں کے ذریعے اپنے خودکاشتہ پودے قادیانیت کو تحفظ اور پشت پناہی مہیا کر رہی ہیں۔ جنوبی افریقہ کی غیر مسلم عدالت کے حالیہ فیصلہ اور اس سے قبل جنیوا میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی کمیشن کی قادیانیوں کے حق میں قرارداد کا پس منظر یہی ہے اور دنیا کے مسلم عوام ان قراردادوں اور فیصلوں کو اس سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد وہاں کے مسلمانوں پر آزمائش اور امتحان کا جو دور شروع ہوگیا ہے اس میں رابطہ عالم اسلامی، حکومت پاکستان اور دیگر مسلم حکومتوں اور اداروں کو ان مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنی چاہیے اور جنوبی افریقہ کے جانبدارانہ رویہ کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter