نفاذِ شریعت کے لیے تصادم اور مسلح جدوجہد کا راستہ

   
۱۴ و ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۳ء

(نوٹ: اس تحریر کا پہلا حصہ دستیاب نہیں ہو سکا۔)

اسلامی نظام کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کے حوالے سے دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زیر صدارت مشترکہ اجلاس میں اسلامی دستور کے ۲۲ نکات مرتب کر کے یہ فیصلہ بالکل آغاز ہی میں کر لیا تھا کہ پاکستان میں نفاذ اسلام دستور کے ذریعے سے ہوگا اور اس کے لیے جمہوری عمل کو ذریعہ بنایا جائے گا۔ یہ چند علماء کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ اس اصول پر پاکستان کے جمہور علمائے کرام کے اتفاق رائے اور اجماع کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بعد اسی فیصلے کی بنیاد پر نفاذ اسلام کی جدوجہد دستوری اور جمہوری عمل کے ذریعے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اکابر علماء نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جتنی جدوجہد کی ہے، اس کی بنیاد عدم تشدد پر رہی ہے اور حکمرانوں سے ہزار اختلافات کے باوجود نہ قانون کو ہاتھ میں لیا ہے اور نہ ہی ملک کے مروجہ سسٹم کو اس انداز سے چیلنج کیا ہے کہ اس میں ’’خروج‘‘ کے جراثیم دکھائی دینے لگیں۔

اس تناظر میں راقم الحروف نے لال مسجد کی تحریک کی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ

”جہاں تک اسلام آباد کی مساجد کے تحفظ، منہدم مساجد کی دوبارہ تعمیر، ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ، معاشرہ میں فواحش و منکرات کے سدِباب اور مغرب کی عریاں ثقافت کے فروغ کی روک تھام کا تعلق ہے، ان مقاصد سے کسی ذی شعور مسلمان اور پاکستانی کو اختلاف نہیں ہو سکتا اور اس سلسلہ میں کوئی بھی معقول کوشش ہو تو اس کی حمایت و تعاون ہمارے فرائض میں شامل ہے، بلکہ اس حوالہ سے معروف طریقوں سے احتجاج کے اظہار اور رائے عامہ کو منظم کرنے کی جدوجہد کی اہمیت و افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ ملک کے شہریوں کا دستوری اور جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں اور احتجاج و اضطراب کا ہر وہ طریقہ اختیار کریں جو ہمارے ہاں معمول اور روایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر قانون کو ہاتھ میں لینے، حکومت وقت کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنے اور کوئی متوازی سسٹم قائم کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ شرعاً خروج کہلاتا ہے جس کے لیے فقہائے کرام نے کڑی شرائط عائد کی ہیں۔ اس لیے لال مسجد کی طرف سے جدوجہد کا جو طریق کار طے کیا گیا ہے اور جو دائرہ اس خط میں بتایا گیا ہے، وہ قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً درست نہیں ہے اور میری لال مسجد کے احباب سے گزارش ہے کہ وہ اس پر اصرار کرنے کے بجائے اپنے طریق کار پر نظرثانی کریں، کیونکہ جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے، وہ اپنے مضمرات اور نتائج دونوں حوالوں سے اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

اس خط میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام اس لیے نافذ نہیں ہو سکا کہ اس کے لیے جہاد کا راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لال مسجد کے حضرات کے نزدیک ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جہاد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی خطرناک غلطی ہے جس کے نتائج کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زیر صدارت مشترکہ اجلاس میں اسلامی دستور کے ۲۲ نکات مرتب کر کے یہ فیصلہ بالکل آغاز ہی میں کر لیا تھا کہ پاکستان میں نفاذ اسلام دستور کے ذریعے سے ہوگا اور اس کے لیے جمہوری عمل کو ذریعہ بنایا جائے گا۔ یہ چند علماء کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ اس اصول پر پاکستان کے جمہور علمائے کرام کے اتفاق رائے اور اجماع کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بعد اسی فیصلے کی بنیاد پر نفاذ اسلام کی جدوجہد دستوری اور جمہوری عمل کے ذریعے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کے تناسب اور اس کے اسباب و عوامل کی بحث اپنی جگہ اہم ہے، لیکن کامیابی میں تاخیر یا رکاوٹوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایک اصولی اور متفقہ فیصلے کو نظر انداز بلکہ کراس کر کے کوئی جذباتی راستہ اختیار کر لیا جائے۔

میں لال مسجد کی موجودہ مہم کی قیادت کرنے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ جذبات کی فضا سے باہر نکل کر زمینی حقائق اور معروضی صورتحال کے ادراک کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیں، کیونکہ ملک میں نفاذ اسلام کے لیے حکومت وقت کے خلاف جہاد کا اعلان شرعی اصطلاح میں ’’خروج‘‘ کہلاتا ہے، جو نہ صرف ۳۱ علمائے کرام کے ۲۲ دستوری نکات سے انحراف ہے بلکہ ملک کی دینی جدوجہد کے گزشتہ ساٹھ سال کے اجتماعی تعامل کی نفی کے مترادف ہے جس کی کسی بھی شخص یا ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے لال مسجد کے دوستوں کا ملک بھر کی علمی و دینی قیادت کے موقف اور مشورہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اس جذباتی موقف پر اصرار ’’اعجاب کل ذی رای برایہ‘‘ کا مصداق ہے، جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ قرار دیا ہے اور اس فتنہ سے بہرحال علمائے کرام کو بچنا چاہیے۔“

”اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی ہم کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے تحفظ، ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ اور منکرات و فواحش سے پاکستانی معاشرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاسی عمل، دستوری جدوجہد اور جمہوری ذرائع اب تک پوری طرح کامیاب ثابت نہیں ہو پا رہے، جس کے اسباب ایک مستقل بحث کے متقاضی ہیں، لیکن کیا اس کے بعد پرامن اور عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے؟ یہ سوال اتنا آسان نہیں ہے کہ اس کا جواب فوری طور پر ہاں میں دے دیا جائے۔ اس لیے کہ مسلح جدوجہد کے وجوب یا کم از کم جواز کے لیے صرف مذکورہ بالا اسباب و عوامل کافی نہیں ہیں، بلکہ اور بھی بہت سے امور ہیں جن کا نہ صرف حکمت و تدبر بلکہ شرعی اصول و قواعد کے حوالے سے بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہماری طالب علمانہ رائے میں عالمی حالات کا معروضی تناظر، شریعت اسلامیہ کے مسلمہ قواعد و ضوابط اور حکمت و دانش کے ناگزیر تقاضے موجودہ حالات میں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم پاکستان میں کسی دینی جدوجہد کے لیے ہتھیار اٹھائیں، دستور و قانون کو چیلنج کریں یا معروف تصور کے مطابق جہاد کا عنوان اختیار کر کے مسلح جدوجہد کی کوئی صورت پیدا کریں۔ “

”ہمارے بزرگوں نے آزادی کی جنگ بھی مسلح ہو کر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تک لڑی تھی اور حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی میں انہی کے زیر سایہ عدم تشدد کو اپنی جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار اسلام اور دیگر فورموں میں سے جس نے بھی آزادی کی جنگ لڑی، عدم تشدد کے ہتھیار سے لڑی ہے۔ جبکہ پاکستان بننے کے بعد شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور دیگر اکابرین نے اسلامی نظام کے نفاذ اور کفر کے نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کے لیے جتنی جدوجہد کی ہے، اس کی بنیاد عدم تشدد پر رہی ہے اور حکمرانوں سے ہزار اختلافات کے باوجود نہ قانون کو ہاتھ میں لیا ہے اور نہ ہی ملک کے مروجہ سسٹم کو اس انداز سے چیلنج کیا ہے کہ اس میں ’’خروج‘‘ کے جراثیم دکھائی دینے لگیں۔ “

پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد ہمارے دینی فرائض میں سے ہے، لیکن اس کے لیے ہمارے اکابر نے جو طریقہ کار طے کیا ہے، تمام تر سست روی اور پے درپے رکاوٹوں کے باوجود ابھی تک وہی طریقہ کار صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا فیصلہ فرد واحد نے نہیں کیا بلکہ تمام مکاتب فکر کے ۳۱ اکابر علمائے کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی صورت میں کیا تھا، اور اسے تبدیل کرنے کے لیے اسی درجہ کے اکابر علمائے کرام کا اسی طرح کا متفقہ فیصلہ ضروری ہے۔ اس جدوجہد کی کامیابی یا ناکامی کے تناسب اور اس کے اسباب و عوامل کی بحث اپنی جگہ اہم ہے، لیکن کامیابی میں تاخیر یا رکاوٹوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایک اصولی اور متفقہ فیصلے کو نظر انداز بلکہ کراس کر کے کوئی جذباتی راستہ اختیار کر لیا جائے۔ اس لیے جذبات کی فضا سے باہر نکل کر زمینی حقائق اور معروضی صورتحال کے ادراک کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کیونکہ ملک میں نفاذ اسلام کے لیے حکومت وقت کے خلاف جہاد کا اعلان شرعی اصطلاح میں ’’خروج‘‘ کہلاتا ہے جو نہ صرف ۳۱ علمائے کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات سے انحراف ہے، بلکہ ملک کی دینی جدوجہد کے گزشتہ ساٹھ سال کے اجتماعی تعامل کی نفی کے مترادف ہے جس کی کسی بھی شخص یا ادارے کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ریاست پاکستان کے خلاف خروج کا جواز ثابت کرنے کے لیے بہت سے عسکریت پسند گروہ دستور پاکستان اور شریعت اسلامیہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل اور حریف کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ یہ خیال درست نہیں ہے اور اس مغالطے کو فوری طور پر دور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

دستور پاکستان کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ شریعت اسلامیہ سے متصادم ہے، دستور پاکستان سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ اس لیے کہ دستور پاکستان کی بنیاد عوام کی حاکمیت اعلیٰ کے مغربی جمہوری تصور پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اسلامی تصور پر ہے جس پر دستور کی بہت سی دفعات شاہد و ناطق ہیں۔ دستور پر عمل نہ ہونا یا اس بارے میں رولنگ کلاس کی دوغلی پالیسی ضرور ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن اس سے دستور کی اسلامی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا اصول ہے کہ کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے اور دینی مسلمات میں سے کسی بات سے انکار نہ کرے تو اس کی بے عملی یا بد عملی کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا اور وہ فاسق و فاجر کہلانے کے باوجود مسلمان ہی شمار ہوگا۔ اس لیے رولنگ کلاس کی بے عملی یا دوغلے پن کی وجہ سے دستور کو غیر اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس سلسلے میں دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ دستور اس وقت پاکستان کی وحدت کی اساس ہے، خدانخواستہ اس دستور کی نفی کر دی جائے تو ملک کو متحد رکھنے کی اور کوئی بنیاد باقی نہیں رہے گی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت و سالمیت کو خدانخواستہ داؤ پر لگانے کا کسی مسلمان کو رسک نہیں لینا چاہیے۔

اس کے ساتھ تیسری گزارش ہم یہ کرنا چاہیں گے کہ اس دستور کی تشکیل و تدوین میں ملک کی تمام دینی و سیاسی قوتیں شریک رہی ہیں اور اب بھی وہ اس پر متحد و متفق ہیں۔ یہ دستور جب ۱۹۷۳ء کے دوران ترتیب دیا جا رہا تھا اس وقت اسے مرتب و مدون کرنے میں دوسرے بہت سے قومی راہ نماؤں کے ساتھ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے طور پر حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا نعمت اللہؒ آف کوہاٹ، حضرت مولانا صدر الشہیدؒ آف بنوں، حضرت مولانا عبد الحکیم ہزارویؒ اور حضرت مولانا عبد الحقؒ آف کوئٹہ بھی شامل تھے اور ان سب بزرگوں کے اس پر دستخط ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت عسکریت پسندوں کی بہت بڑی اکثریت ان میں سے کسی نہ کسی بزرگ کی بالواسطہ یا بلاواسطہ شاگرد ہے، اس لیے انہیں اپنے ان عظیم المرتبت اساتذہ کے موقف سے انحراف اور ان کی کاوشوں کی نفی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور ”البرکۃ مع اکابرکم“ کا خیال رکھتے ہوئے دستور پاکستان کی پاسداری کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔

اس ضمن میں ایک بے حد قابل توجہ اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہتھیار اٹھا کر حکمران طبقات کے ساتھ جنگ کرنا اس کے شرعی جواز یا عدمِ جواز کی بحث سے قطع نظر بھی عملاً مؤثر اور نتیجہ خیز نہیں ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ کسی مسلم ریاست میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی شرائط فقہاء کرامؒ نے کیا بیان کی ہیں، اور خاص طور پر جمہور فقہائے احناف کا موقف اس سلسلہ میں کیا ہے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا عسکری گروپوں کے لیے ملک کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے جنگ لڑ کر کوئی علاقہ حاصل کر لینا اور اس پر قبضہ برقرار رکھ کر اس میں کوئی نظام نافذ کر لینا ممکن بھی ہے؟ کوئی ہوش مند شخص اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے گا۔ اس لیے ہمیں اس سلسلہ میں جدوجہد کے طریق کار کے لیے دور حاضر کی ایسی تحریکوں سے راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے، جنہوں نے عوام کی فکری و ذہنی بیداری کو اپنی قوت بنایا اور اس قوت کے ذریعے سے ہتھیار اٹھائے بغیر سٹریٹ پاور اور تحریکی قوت کے نتیجے میں سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کی۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس سلسلہ میں جدوجہد کے طریق کار کی حد تک ایران کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایران کی مذہبی قیادت نے شاہِ ایران کی قیادت سے انحراف کر کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ذہن سازی اور فکری بیداری کی جولانگاہ بنایا، مسلسل سترہ برس تک محنت کے ذریعے اگلی نسل کو اس کے لیے تیار کر کے اسے اپنی قوت بنایا اور اس قوت کے ذریعہ ہتھیار اٹھائے بغیر اسٹریٹ پاور اور تحریکی قوت کے نتیجے میں شاہ ایران کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ کیا ان کے کامیاب تجربہ کو سامنے رکھ کر کیا ہم اپنی جدوجہد کا طریق کار طے نہیں کر سکتے؟

اسی حوالے سے میں امریکہ کے سیاہ فاموں کی اس جدوجہد کا حوالہ دینا چاہوں گا، جو اَب سے صرف پون صدی قبل کالوں کو گوروں کے برابر شہری حقوق دلوانے کے لیے منظم کی گئی تھی۔ ایک مذہبی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کی اسٹریٹ پاور کو کو منظم کیا، پُراَمن احتجاجی تحریک کو آگے بڑھایا اور صرف دو عشروں میں ایک گولی چلائے بغیر ۱۹۶۴ء میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے سیاہ فام آبادی کے لیے سفید فاموں کے برابر شہری حقوق کی دستاویز پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوگیا۔

میں نے دونوں تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے، دونوں کے مراکز میں گیا ہوں، ان کے راہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے واقف ہوں۔ میں افغانستان بھی گیا ہوں، بار بار گیا ہوں، روسی استعمار کے خلاف جہاد میں مختلف جنگی محاذوں پر حاضری دی ہے، افغان مجاہدین کی روسی استعمار کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں، امریکی استعمار کے خلاف ان کی جنگ کو بھی جہاد سمجھتا ہوں اور حتی الوسع اسے سپورٹ کرتا ہوں۔ لیکن پورے شرح صدر اور دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ دینی تصلب اور حمیت و غیرت میں تو بلاشبہ افغان مجاہدین اور افغان طالبان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، لیکن نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے طریق کار کے حوالہ سے ہمیں ایران کی مذہبی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگا اور مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر پُراَمن عوامی تحریک اور رائے عامہ کی منظم قوت کے ذریعے ’’امامت‘‘ کو دستوری شکل دے کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے تو ’’خلافت‘‘ کے احیا و قیام کے لیے یہ قوت آخر کیوں کام میں نہیں لائی جا سکتی؟

   
2016ء سے
Flag Counter