قمر زمان بھٹی: ویلکم ناظرین! پاکستان ڈیلی کے ساتھ قمر زمان بھٹی آپ کی خدمت میں حاضر ہے، اس وقت افغانستان کا بجٹ پاس ہو چکا ہے اور اس وقت حکومت بھی عملی اقدامات کر رہی ہے، لیکن ابھی تک افغانستان کو دنیا میں تسلیم نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل اور ملی مجلس شرعی کے سربراہ مولانا زاہد الراشدی ہمارے ساتھ موجود ہیں، انہی سے جانتے ہیں، انہوں نے یہاں پر پریس کانفرنس بھی کی ہے۔
سوال: مولانا صاحب! بہت شکریہ ٹائم دینے کا، کیا اس وقت صورتحال ہے، افغانستان حکومت اپنا بجٹ پیش کر چکی ہے اور عملی طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا، آپ کیا کہیں گے؟
جواب: گزارش یہ ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان جب سے قائم ہوئی ہے الحمد للہ انہوں نے افغانستان میں امن بھی قائم کیا ہے اور افغانستان میں تمام طبقوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، ان کی پوری کوشش ہے اور ان کا اعلان بھی ہے کہ دنیا کے ساتھ چلیں گے۔ لیکن گزارش یہ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت ہمارے خیال سے ناانصافی ہو رہی ہے:
- ایک تو امریکہ جب گیا ہے تو آٹھ مہینے کی تنخواہیں ان کے کھاتے میں ڈال گیا ہے۔
- دوسری بات، مغربی ملکوں نے ان کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔
- تیسری بات، ان کو تسلیم نہ کر کے دنیا کے متوجہ ہونے کے راستے روکے ہوئے ہیں۔
- اور چوتھی بات یہ ہے کہ چالیس سال کی جنگ کے بعد وہ بحال ہو رہے ہیں، ان کی بحالی کے لیے شرطیں لگائی جا رہی ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس وقت افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے امداد تو خالصتاً انسانی بنیاد پر ہونی چاہیے، شرطیں لگا کر امداد کرنا (ٹھیک نہیں ہے)۔
سوال: مولانا صاحب! پاکستان نے اس وقت اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کانفرنس بھی بلائی امداد کے حوالے سے، لیکن عملی طور پر تسلیم نہ کرنے کا ایشو، جس کو آپ بھی ہائی لائٹ کر رہے ہیں، تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: پاکستان کو اس کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے، اور مسلم ممالک سے دنیا کے دوسرے ممالک سے تسلیم کروانے کی سفارتی کمپین کرنی چاہیے، اور ان کو سنبھالا دینے کے لیے مغرب کے ملکوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس کے اثاثے بحال کریں تاکہ وہ اپنی تعمیرِ نو کے لیے ضروریات پوری کر سکیں۔ ان کو اس طرح بالکل تنہا چھوڑ دینا ٹھیک نہیں ہے۔
سوال: مولانا صاحب! اس وقت نیچرلی دنیا بھی کچھ مطالبات رکھتی ہے، جس کو آپ شرائط کہہ رہے ہیں، جو خواتین کا ایشو ہے؛ طلبہ، نوجوانوں اور بچوں کا ایشو ہے؛ انسانی حقوق کے ایشوز ہیں، اس پر بھی کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو تھوڑا سا غور کرنا چاہیے؟
جواب: وہ تو غور کرنے کو تیار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ موجودہ صورتحال بھی مذاکرات کے ذریعے آئی ہے، تو باقی مسائل مذاکرات کے ذریعے کیوں نہیں حل کیے جا سکتے؟ مذاکرات کی بجائے معاشی دباؤ کو کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ مذاکرات پر آئیں، اگر وہ مذاکرات سے انکار کریں یا دنیا کے جائز مطالبات ماننے سے انکار کریں تب تو کوئی بات ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ معاشی دباؤ کے ذریعے ان کو شرائط پر لانا، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔
سوال: اچھا! ماضی میں ٹکراؤ ہوا آپ نے دیکھا، اسامہ بن لادن کی صورتحال اور باقی ساری صورتحال بھی، تو کیا ایسا امکان ہے کہ اگر بات چیت سے معاملات آگے نہیں بڑھتے تو طالبان اور انٹرنیشنل فورسز کے درمیان دوبارہ کوئی ٹکراؤ ہو سکتا ہے؟
جواب: میرا خیال ہے کہ طالبان تو اس سے گریز کر رہے ہیں، اگر ٹکراؤ ہوا تو یہ ٹکراؤ ان پر مسلط کیا جائے گا، اور میں سمجھتا ہوں کہ شاید مسلط کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وہ اس وقت پوری سمجھداری کے ساتھ اور دانشمندی کے ساتھ اپنے معاملات کو کنٹرول کرنے کی اور اپنی افغان قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں ان کی جو یہ بات نظر آ رہی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور تعاون کرنا چاہیے۔
سوال: دنیا کا امن کس حد تک افغانستان کی اس وقت کی موجودہ صورتحال سے جڑا ہوا ہے، اور پاکستان خصوصاً؟
جواب: افغانستان کا امن ہمارے امن کی گارنٹی ہے۔ پاکستان اور افغانستان امن کے حوالے سے ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے۔ جتنا افغانستان میں استحکام ہوگا اتنا ہماری سرحدیں محفوظ ہوں گی، ہمارے لیے امن کے مواقع زیادہ مستحکم ہوں گے، اس لیے ہمیں ان سے تعاون کرنا چاہیے۔
قمر زمان بھٹی: بہت شکریہ! مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ہماری بات چیت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان کو دباؤ کا شکار کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ ان کے ساتھ تعاون کیا جائے، ان کی عملی مدد کی جائے۔ اور پاکستان بھی ایک قدم آگے بڑھ کر افغانستان کو خود بھی تسلیم کرے، اور دنیا کے باون اسلامی ممالک اور پوری دنیا سے بھی تسلیم کروائے۔ اور اس وقت افغانستان سے ٹکراؤ مناسب نہیں ہے، ٹکراؤ سے صورتحال خراب ہو گی اور طالبان ٹکراؤ نہیں چاہتے، اور اسی حوالے سے دنیا کو افغان طالبان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔