حضرت طلیحہ بن خویلد اسدیؓ، قادیانیت کے لیے ایک سبق

   
تاریخ : 
۷ جون ۲۰۰۸ء

قادیانی جماعت نے مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کے ایک سو سال مکمل ہونے پر ۲۲ مئی کو چناب نگر میں صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا اور دنیا بھر میں قادیانی جماعت اس نوعیت کی تقریبات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اہلِ اسلام کی مختلف جماعتوں نے بھی اس موقع پر اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر جلسے کیے ہیں اور تمام بڑے مکاتب فکر نے اس کی ضرورت محسوس کی ہے، چنانچہ

  • مرکزی جمعیۃ اہل حدیث نے ۲۲ مئی کو چنیوٹ میں خاتم النبیینؐ کے نام سے اجتماع کیا۔
  • بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی جمعیۃ علماء پاکستان نے ۲۴ مئی کو مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں ختم نبوت کانفرنس منعقد کی۔
  • مجلس احرار نے ۲۵ مئی کو چناب نگر (سابق ربوہ) میں ختم نبوت سیمینار کے عنوان سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
  • اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ نے مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی زیر قیادت ۲۶ مئی کو ایوان اقبالؒ لاہور میں ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا جس میں دیوبندی مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ جماعت اسلامی کے رہنما جناب لیاقت بلوچ اور جمعیۃ اہل حدیث کے رہنما علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے بھی خطاب کیا ۔

اس طرح تحریک ختم نبوت میں گزشتہ ایک سو سال سے شریک کم و بیش تمام اہم طبقات نے مرزا غلام احمد قادیانی کے سو سالہ یوم وفات اور قادیانیوں کی صد سالہ تقریبات کے پس منظر میں اپنے موقف اور جذبات کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ چناب نگر میں مجلس احرار اسلام کے ختم نبوت سیمینار میں راقم الحروف کو اس موضوع پر قدرے تفصیل کے ساتھ اظہارِ خیال کا موقع ملا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

قادیانی جماعت اپنے بانی کی وفات کے ایک سو سال مکمل ہونے پر یہ سال صد سالہ تقریبات کے طور پر منا رہی ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ قادیانی مذہب پر ایک صدی کا مکمل ہونا اور اس کے بعد بھی اس کا موجود رہنا اس کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ ایران کے بابیوں اور بہائیوں کی تاریخ اس سے بھی پہلے کی ہے اور بلوچستان کے ساحل پر آباد ذکریوں کی تاریخ تو کم و بیش چار صدیوں پر محیط ہے۔ یہ دونوں مذہب بھی مرزا بہاء اللہ شیرازی اور ملا نور محمد اٹکی کے دعوائے نبوت پر استوار ہیں اور خود قادیانی بھی ان دونوں کے دعوائے نبوت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کسی مذہب کے وجود پر ایک صدی گزر جانے کو اس کی سچائی اور صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔

دوسری بات جو میں قادیانی جماعت کی قیادت سے عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ قادیانیوں کو اس زمینی حقیقت پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ گزشتہ ایک صدی میں ان کی تمام تر تگ و دو اور جدوجہد کا بنیادی نکتہ یہ رہا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوؤں پر ایمان رکھنے کے باوجود انہیں ملت اسلامیہ کا حصہ تسلیم کیا جائے اور مسلمان انہیں اپنے ساتھ شامل کریں۔ لیکن پوری دنیا میں اس کے لیے مسلسل محنت کے باوجود اس بنیادی نکتہ میں قادیانیوں کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کا کوئی بھی طبقہ کسی سطح پر بھی قادیانیوں کو ملت اسلامیہ کے وجود کا حصہ تسلیم کرنے اور اپنے دینی و ملی معاملات میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ اس نکتہ پر اگر قادیانی جماعت ایک سو سال مزید بھی محنت کر لے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس حوالہ سے صوتحال آج بھی ایک سو سال قبل جیسی ہے کہ

  1. اگر مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ کو درست سمجھتے رہیں تو انہیں اپنے مذہب کے لیے اسلام سے الگ کوئی اور شناخت قائم کرنا ہوگی،
  2. اور اگر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وابستگی کو ضروری سمجھتے ہیں تو مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاویٰ سے برأت کا اعلان کرنا ہوگا۔

ان کے لیے کوئی تیسرا راستہ نہ اب سے ایک صدی قبل موجود تھا، نہ اب موجود ہے اور نہ ہی قیامت تک اس کا کوئی امکان ہو سکتا ہے۔ اس لیے قادیانی قیادت کو سنجیدگی کے ساتھ اس معروضی حقیقت کا جائزہ لینا چاہیے اور دونوں میں سے کسی ایک راستے کا فیصلہ کر کے یکسو ہو جانا چاہیے۔

تیسری گزارش قادیانی جماعت کے قائدین سے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے تین حضرات میں سے ایک مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد اسدیؓ کے حالات کا مطالعہ کریں اور ان سے سبق حاصل کریں۔ کیونکہ قادیانیوں کی ان سے بہت مماثلت ہے اور میری دیانتدارانہ اور مخلصانہ رائے ہے کہ قادیانیوں کو طلیحہ بن خویلدؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود کو اس بحران اور کنفیوژن سے نجات دلانا چاہیے جو خود ان کا اپنا پیدا کردہ ہے اور جس پر بے جا ضد کر کے وہ اپنا اور مسلمانوں دونوں کا وقت خواہ مخواہ ضائع کر رہے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تین افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا: (۱) یمن کا اسود عنسی (۲) یمامہ کا مسیلمہ کذاب (۳) اور بنو اسد کا طلیحہ بن خویلد۔ اسود عنسی صنعاء میں اپنے محل کے اندر ہی حضرت فیروز دیلمیؓ کی چھاپہ مار کاروائی میں مارا گیا تھا۔ مسیلمہ کذاب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی زیرقیادت مسلمانوں کی فوج سے جنگ کرتے ہوئے حضرت وحشی بن حربؓ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ جبکہ اس کے ساتھ نبوت کی ایک خاتون دعوے دار سجاح بھی تھی جس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔

طلیحہ بن خویلدؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اپنے قبیلہ بنو اسد میں جا کر اس نے خود نبوت کا دعویٰ کر دیا جس پر جناب رسول اللہؐ نے اس کی سرکوبی کے لیے حضرت ضرار بن ازورؓ کی قیادت میں فوج بھیجی جس کے مقابلہ میں طلیحہ کو شکست ہوئی اور وہ فرار ہوگیا۔ جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ اس کی جنگ ہوئی جس میں اسے پھر شکست ہوئی اور فرار ہوگیا مگر اس کے ہاتھوں آنحضرتؐ کے دو معروف صحابی حضرت عکاشہ بن محصن فزاری اور حضرت ثابت بن ارقم انصاریؓ شہید ہوگئے۔ طلیحہ بن خویلد فرار ہو کر شام کے غسانی حکمران جبلہ کے ہاں پناہ گزین ہوگیا مگر حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے اپنی سابقہ غلطیوں کی معافی چاہی اور دوبارہ مسلمان ہو کر زندگی بسر کرنے کا عہد کیا۔ حضرت عمرؓ نے اسے عکاشہؓ اور حضرت ثابتؓ کا قتل یاد دلایا تو طلیحہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو میرے ہاتھوں جنت بھجوا دیا ہے اور مجھے ان کے ہاتھوں دوزخ میں جانے سے بچا لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ بطور مسلمان زندگی بسر کر سکتا ہے لیکن ان دو جوانوں کی شہادت کے باعث میرے دل میں محبت کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔

چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ طلیحہؓ نے سچی توبہ کی اور جہاد کے مختلف معرکوں میں دادِ شجاعت دی۔ وہ قادسیہ کی جنگ میں شریک ہوا اور اصحابِ تاریخ کا کہنا ہے کہ جلولاء کے مقام پر مسلمانوں کی فوج کی پیش قدمی اس کی بہادری اور جرأت کی مرہون منت تھی بلکہ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ طلیحہ بن خویلد اسدیؓ نے نہاوند کی جنگ میں مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ قادیانیوں کے لیے صحیح راستہ وہی ہے جو حضرت طلیحہ بن خویلد اسدیؓ نے اختیار کیا تھا۔ مغربی ممالک کی پشت پناہی زیادہ دیر تک قادیانیوں کے کام نہیں آئے گی اور انہیں بہرحال اپنے لیے یکسوئی کا کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ آخر کب تک وہ امریکہ اور مغربی ممالک کے سہارے اپنے آپ کو زندہ رکھ سکیں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter