معروف صحافی جناب زیڈ اے سلہری کا ایک مضمون ’’اپوزیشن ناکام کیوں ہے؟‘‘ کے زیرعنوان روزنامہ جنگ راولپنڈی ۱۸ اپریل ۱۹۷۶ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپوزیشن کو ناکام قرار دیتے ہوئے اس کی ناکامی کے اسباب و عوامل کا تجزیہ فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی قارئین کے سامنے آسکے۔
سب سے پہلے تو یہ دعویٰ غور طلب ہے کہ ’’اپوزیشن ناکام ہے‘‘۔ اس لیے کہ بظاہر اگرچہ حکمران گروہ کے مسلسل پراپیگنڈا، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے شب و روز دوروں اور سیاستدانوں کی دھڑادھڑ پیپلز پارٹی میں شمولیت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اپوزیشن رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن ذرا گہری نظر سے اس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس تاثر کو ایک سرسری بلکہ سطحی تاثر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ ذرا ملک کے سیاسی منظر پر ایک نگاہ ڈالیے آپ دیکھیں گے کہ
- حکمران سیاسی جماعت کے سوا باقی تمام سیاسی جماعتیں حتیٰ کہ حکمران سیاسی پارٹی کی حلیف سیاسی جماعت قیوم لیگ تک ملک میں سیاسی عمل کے تعطل، اظہارِ رائے پر پابندی اور دفعہ ۱۴۴ کے مسلسل نفاذ کی شاکی ہے۔ اور عملاً صورتحال یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں اجتماع کی آزادی حاصل نہیں ہے، اخبارات و جرائد کو بے بس کر دیا گیا ہے، جسارت، شہباز، مہران، اداکار، لیل و نہار، صحافت اور درجنوں دیگر جرائد و اخبارات موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، سرکاری اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سے بے بنیاد یکطرفہ پروپیگنڈا شب و روز جاری ہے۔
- اپوزیشن راہنماؤں کی کردار کشی کا مذموم عمل جاری ہے۔
- سیاسی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز اور شرمناک سلوک ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ صوبہ سرحد کے بے شمار نوجوانوں کو جدید آلات اذیت رسانی کے ذریعے ٹارچر کیا گیا ہے اور انہیں ان کے جسمانی اعضاء تک سے محروم کر دیا گیا ہے۔
- فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کے اہم قومی تقاضا کو نظرانداز کیا گیا ہے اور سیاسی مخالفین پر فوج کشی کی یحییٰ خانی روایت کو دہرایا جا رہا ہے۔
- اپوزیشن کے جلسوں کو غنڈہ گردی کے ذریعے منتشر کرنے کی روایت اپنائی گئی ہے اور لیاقت باغ راولپنڈی اور شادباغ لاہور کا شرمناک المیہ قوم کی نگاہوں کے سامنے ہے۔
- اپوزیشن کا نقطۂ نظر شائع کرنے پر پریس مالکوں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔
- اسمبلی میں اپوزیشن کے اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا اور حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی کو جبرًا اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے۔
اس صورتحال میں جب اپوزیشن اجتماع کے حق سے محروم ہے، جلوس نہیں نکال سکتی، ریڈیو اور ٹی وی پر اس کا نقطۂ نظر پیش کرنے کی بجائے اس کے خلاف پروپیگنڈا جاری ہے، اسے پریس کی آزادی کماحقہ میسر نہیں ہے اور اخبارات و جرائد اس کی ترجمانی نہیں کر سکتے، سلہری صاحب ارشاد فرمائیں کہ اپوزیشن رائے عامہ کو ساتھ ملانے کے لیے کونسا راستہ اختیار کرے؟ جب قانون و آئین کے راستے تمام کے تمام بند بلکہ مقفل ہیں تو کیا سلہری صاحب اپوزیشن کو یہ مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ تمام قانونی راستے بند پا کر رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے غیر قانونی راستہ تلاش کرے؟
اس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو عوام اور اپوزیشن کے درمیان امتناعی قوانین و احکامات کی بلند و بالا دیواریں کھڑی کر دینے سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکمران گروہ اپوزیشن کی مقبولیت سے خائف ہے اور عوام کے ساتھ اپوزیشن کے رابطہ کی صورت میں حکمران گروہ کو اپنا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آتا ہے، لیکن اس سیاسی تعطل سے حکومتی گروہ کی مقبولیت کا تاثر لینا کسی صورت درست نہیں ہو سکتا۔ یہ اپوزیشن کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ اس نے حکمران گروہ کو رائے عامہ کی حمایت کے اعتماد سے محروم کر کے دفعہ ۱۴۴، ڈی پی آر، فیڈرل فورس، فوج، پولیس اور تحفظ امن عامہ کے امتناعی قوانین کی بیساکھیوں کے سہارے چلنے پر مجبور کر دیا ہے اور آج انتظامی قوت اور امتناعی قوانین ہی جناب وزیراعظم بھٹو کی سیاسی قوت کا واحد سرچشمہ ہیں چنانچہ وزیراعظم بھٹو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمود کے ساتھ اس دیرینہ چیلنج کا آج تک سامنا نہیں کر سکے کہ
’’اگر مسٹر بھٹو فیڈرل سکیورٹی فورس اور پولیس کے بغیر ملک میں ایک جلسہ بھی کر دکھائیں تو میں سیاست سے دستبردار ہو جاؤں گا۔‘‘
میں سلہری صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مسٹر بھٹو کی جس سیاسی پیش قدمی کی انہوں نے مدح سرائی فرمائی ہے کیا وہ یہی ہے یا اس کے سوا اس کا کوئی اور پہلو بھی ہے؟ محترم سلہری صاحب نے موجودہ سیاسی صورتحال کا مرحوم ایوب خان کے آخری دور سے موازنہ کر کے مسٹر بھٹو کی سنسنی خیز سیاست کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ
’’موجودہ اپوزیشن میں آپ کو کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اس طرح وزیراعظم بھٹو کا متبادل ہو جیسے وہ خود صدر ایوب یا یحییٰ کے نظر آتے تھے۔‘‘
گویا سلہری صاحب کے نزدیک اپوزیشن کی سیاست کا معیار وہ ہے جس کا مظاہرہ بھٹو صاحب نے ایوب خان مرحوم اور یحییٰ خان کے دور میں کیا تھا۔ لیکن گستاخی معاف کیا سلہری صاحب اس سنسنی خیز سیاست کے نتائج سے بے خبر ہیں؟ اور کیا وہ اب بھی یہی چاہتے ہیں کہ کوئی سیاستدان اٹھے، عوام کے مزاج کے مطابق انتخابی نعرہ تراشے اور ڈگڈگی بجاتا ہوا پوری قوم کو آگے لگا لے۔ اگر عوام کے دکھوں اور مجبوریوں سے کھیلنا اور انہیں خوش فہمیوں کا شکار کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنا سیاست ہے تو یہ سیاست چار حرف بھیجنے کے لائق ہے۔ اسی ہنگامہ خیز اور سنسنی آمیز سیاست کے نتیجہ میں تو وطن عزیز دولخت ہوا ہے اور بدقسمتی سے سلہری صاحب آج پھر سیاستدانوں کو اسی سیاست کا سبق پڑھانا چاہتے ہیں۔
باقی رہی متبادل قیادت کے فقدان کی بات تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ غلام محمد کے دور میں بھی یہی بات کہی جاتی تھی، سکندر مرزا کا دور بھی ان دعوؤں سے خالی نہیں ہے، مرحوم ایوب خان کے مداح تو یہ کہا کرتے تھے کہ پورے ملک میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان کا جانشین بن سکے اور اب مسٹر بھٹو کے دور میں بھی متبادل قیادت کے فقدان کا رونا رویا جا رہا ہے۔ یہ ایک سیاسی بات ہے جو ہر حکمران کے مداح نے کہی ہے اور آئندہ بھی کہی جاتی رہے گی۔ لیکن کوئی انسان اس دنیا میں عقل کل نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے جانے سے دنیا کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ اپوزیشن میں مسٹر بھٹو سے بھی زیادہ ذہین، زیرک، معاملہ فہم اور محب وطن سیاستدان موجود ہیں جو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر اسے مصائب و مشکلات کے بھنور سے نکال سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن نے حکمران گروہ کے بے پناہ جبر و تشدد اور غیر آئینی و غیر قانونی ہتھکنڈوں کے باوجود تحمل کے ساتھ چلنے اور مشتعل نہ ہونے کا جو رویہ اختیار کیا ہے وہ اپوزیشن راہنماؤں کی سیاسی بصیرت اور حب الوطنی کا واضح ثبوت ہے۔ اپوزیشن کے لیے مسٹر بھٹو کی طرح ہنگامہ خیز سیاست کو اختیار کر لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کسے ہوگا؟ یہ درست ہے کہ اپوزیشن کا طرز عمل تحمل، بردباری، اصول و اخلاق اور آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے دھیرے دھیرے سے چلنا ہے مگر قوم کے مزاج کو دیکھ کر اس کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینا تو کوئی عزیمت کی بات نہیں۔ بسا اوقات قوم کے مزاج کے خلاف چلنا اور قوم کے مزاج کو تبدیل کے لیے محنت کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے جیسا کہ اب ضروری ہے۔ کیونکہ سیاست کو قومی مزاج کے دھارے کے ساتھ بہا دینے کے نقصانات ہمارے سامنے آچکے ہیں، ہم نے ہنگامہ خیز سیاست سے بہت خسارہ اٹھایا ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو بااصول سیاست کا عادی بنایا جائے تاکہ صاف ستھرا سیاسی عمل ملک میں پنپ سکے۔
اس لیے میں بڑے ادب کے ساتھ محترم جناب زیڈ اے سلہری سے گزارش کروں گا کہ وہ اپوزیشن کو عجلت پسندی اور ہنگامہ خیزی کا مشورہ دینے کی بجائے وزیراعظم بھٹو کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کریں کہ وہ اس قسم کی سیاست کے اعادہ سے ملک و قوم کو بچائیں جس کا مظاہرہ خود انہوں نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے دو رمیں کیا تھا اور جس کے منفی نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اور اپوزیشن کو جبر و تشدد کے ذریعے ہنگامہ خیز سیاست کا خوگر بنانے کی بجائے ملک میں سیاسی آزادیاں بحال کریں، دفعہ ۱۴۴ اور ڈی پی آر کا اندھا دھند استعمال ختم کریں، اخبارات و جرائد کو رائے عامہ کی آزادانہ ترجمانی کا موقع فراہم کریں، ریڈیو اور ٹی وی سے اپوزیشن کو بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا حق دیں تاکہ صحیح سیاسی عمل کے ذریعے متبادل قیادت سامنے آسکے۔ کیونکہ متبادل قیادت آزادانہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی سامنے آیا کرتی ہے۔ جبر، سیاسی تعطل اور گھٹن سے ہمیشہ بچہ سقہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور پاکستان کو اب کسی بچہ سقہ کی ضرورت نہیں ہے۔