پہلی جنگ عظیم کے بعد ”انجمن اقوام“ کے نام سے ایک عالمی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد اقوام و ممالک کے درمیان جنگ کو روکنا اور متحارب اقوام و ممالک کو اس بات پر آمادہ کرنا تھا کہ وہ باہمی تنازعات کو جنگ کی بجائے بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ ختم ہو گئی تھی، جو دنیائے اسلام کے لیے اعصابی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اور عالمی فورم پر مسلمانوں کی نمائندگی کیا کرتی تھی، اس لیے ”انجمن اقوام“ کی قیادت عملاً ان ممالک کے ہاتھ میں تھی جو پہلی جنگ عظیم کے فاتح تھے۔ اور فاتح ہونے کا تصور ان کے ذہنوں میں راسخ ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے وہ دنیا کو ایک اور بڑی جنگ سے نہ روک سکے اور تمام معاملات کو اپنی مرضی اور ایجنڈے کے مطابق چلانے کی دھن نے خود انہیں دوسری عظیم جنگ کی طرف دھکیل دیا۔
دوسری جنگ عظیم ”انجمن اقوام“ کی ناکامی کی واضح علامت تھی، اس لیے اس کے ساتھ ہی وہ بھی تحلیل ہو گئی اور ایک اور عالمی ادارے کے قیام کی داغ بیل ڈالی گئی جو ”اقوام متحدہ“ کے نام سے اب تک موجود ہے اور عالمی سطح پر مسائل کو اپنی ترجیحات کے مطابق ڈیل کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا قیام ۱۹۴۵ء میں عمل میں لایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد بھی اقوام و ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات کو روکنا اور باہم متحارب ممالک و اقوام کو اپنے تنازعات باہمی مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔ لیکن چونکہ اس کی قیادت بھی دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے ہاتھ میں تھی اور اس کے اہداف، تنظیم اور طریق کار کے تعین میں وہی فیصلہ کن حیثیت رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس مقصد کے ساتھ دنیا پر اپنے غلبہ کو مستحکم کرنے، اسے اپنی تہذیبی بالادستی کی شکل دینے اور اس عالمی ادارے کے ذریعے پوری دنیا پر بالواسطہ اپنی حکمرانی قائم کرنے کو بھی اس کے اہداف میں شامل کر لیا اور انسانی حقوق کے چارٹر سے لے کر عسکری ٹیکنالوجی میں بالادستی اور اجارہ داری تک تمام معاملات اس انداز میں طے کیے کہ عملی کنٹرول انہی کے ہاتھ میں رہے اور وہ جس بات پر متفق ہو جائیں اسے اقوام متحدہ کے نام سے پوری دنیا کا متفقہ فیصلہ قرار دے کر اس کی چھتری تلے اسے عملی جامہ پہنا دیں۔
عالم اسلام کی صورت اقوام متحدہ کے قیام کے وقت کچھ اس طرح تھی کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ، جس نے صدیوں تک مسلم امہ کی قیادت اور عالمی فورم پر ملت اسلامیہ کی مسلسل نمائندگی کی تھی، تحلیل ہو چکی تھی اور دنیا کے بیشتر مسلم ممالک برطانوی، فرانسیسی، ولندیزی اور پرتگیزی استعماروں کے زیر تسلط تھے، اس لیے اقوام متحدہ کی تشکیل اور اس کے تنظیمی ڈھانچے اور پالیسیوں کی ترتیب و تدوین میں مسلم امہ کی معتد بہ اور متوازن نمائندگی موجود نہیں تھی۔ جس کے باعث بہت سے ایسے خلا باقی رہ گئے جو مسلم امہ کے مفادات اور موقف و جذبات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے اور گزشتہ ساٹھ برس سے امت مسلمہ مسلسل اس حوالے سے نقصانات کا سامنا کر رہی ہے۔
اگر عالم اسلام کے مسائل، مشکلات اور ان کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی گزشتہ ساٹھ سال کی کارکردگی کا ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہے گی کہ عالم اسلام کو نظرانداز کرنے بلکہ دبا کر رکھنے، اس کو مسلسل مشکلات و مسائل سے دوچار رکھنے اور منتشر و کمزور رکھنے کو اقوام متحدہ کی پالیسیوں اور طریق کار کی پشت پر کار فرما اصل عوامل کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اس کا تسلسل اب بھی بدستور جاری ہے، مگر دنیا کے مسلم ممالک اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کے نام سے متحد ہونے کے باوجود اس سلسلہ میں کوئی واضح اور مؤثر آواز بلند کرنے میں پیش رفت نہیں کر سکے۔ حتیٰ کہ اب سے دس برس قبل اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر ملائیشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد نے مسلم حکومتوں کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ وہ ان تقریبات کا بائیکاٹ کر کے اپنا دباؤ منظم کریں اور اقوام متحدہ کے نظام میں ضروری اصلاحات کے لیے آواز اٹھائیں تو اسے مسلم دنیا میں پذیرائی نہ ملی اور اصلاح احوال کے لیے کوشش کا یہ مناسب موقع بھی ضائع ہو گیا۔
اقوام متحدہ کی صورتحال یہ ہے کہ اس میں فیصلوں کی اصل قوت سلامتی کونسل کے پاس ہے اور سلامتی کونسل کی چابی ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کے ہاتھ میں ہے اور عملاً ان پانچ ممالک کی مرضی کے بغیر پوری اقوام متحدہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ صورتحال دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک، بالخصوص عالم اسلام کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے اور عالم اسلام کے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور توہین آمیز معاملہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پالیسی میکر حلقے مسلم امہ کا اسلامی تشخص قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ چونکہ مغربی دنیا نے مذہب کے معاشرتی کردار سے دست برداری اختیار کر لی ہے اور اسے قومی اور سیاسی معاملات سے بے دخل کر دیا ہے، اس لیے باقی ساری دنیا کو بھی یہی فلسفہ اختیار کرنا چاہیے اور عالم اسلام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مغرب کی طرح مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہو کر سیکولر فلسفہ حیات کو قبول کرے۔
سوال یہ ہے کہ مغرب اس حوالہ سے اپنا فلسفہ پوری دنیا پر ٹھونسنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟ مغرب اگر مذہب سے کنارہ کش ہو گیا ہے تو اسے اس کا اختیار ہے، لیکن اگر دنیا کی کوئی دوسری قوم اپنے مذہب اور اس کے معاشرتی کردار سے دست برداری اختیار نہیں کرنا چاہتی تو مغرب کے پاس اس کے لیے اس قوم پر جبر کرنے اور اس جبر کے لیے اقوام متحدہ کے فورم کو استعمال کرنے کا کیا جواز ہے؟
اس پس منظر میں ورلڈ اسلامک فورم نے اس سال جون کے دوران لندن میں اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک میمورنڈم پیش کیا جائے گا، جس کے ذریعے اقوام متحدہ اور مسلم حکومتوں کو اقوام متحدہ کے نظام اور طریق کار کے بارے میں مسلم دنیا کی بڑی بڑی شکایات سے آگاہ کیا جائے گا اور اصلاح احوال کی طرف توجہ دلائی جائے گی۔ اس فیصلہ کے مطابق ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے مندرجہ ذیل میمورنڈم اقوام متحدہ اور مسلم حکومتوں کو ارسال کیا، جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
ستمبر ۲۰۰۵ء کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اخباری اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے نظام میں اصلاحات کے حوالے سے چند اصلاحات کی تجاویز پیش کی جانے والی ہیں، اس لیے اس موقع عالم اسلام میں اقوام متحدہ کے بارے میں پائی جانے والی شکایات اور عالم اسلام کے مسائل کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے طرز عمل پر مسلسل بڑھنے والی بے چینی اور اضطراب کے پس منظر میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
- اب سے کم و بیش ساٹھ برس قبل جب اقوام متحدہ وجود میں آئی تھی تو بیشتر مسلم ممالک آزاد نہیں تھے، اس لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل میں عالم اسلام کی متوازن نمائندگی اور شرکت موجود نہیں تھی۔ اس وجہ سے انسانی حقوق کے چارٹر میں مسلم دنیا کے عقائد، تہذیبی تشخص و روایات کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ انسانی حقوق کے موجودہ چارٹر کی متعدد دفعات اسلامی احکام و قوانین سے متصادم ہیں اور ان کی بنیاد پر مسلمانوں کے معتقدات، دینی احکام اور تہذیبی روایات کی مسلسل نفی کی جا رہی ہے، اس لیے اس حوالہ سے اس چارٹر پر نظر ثانی ناگزیر ہو گئی ہے۔
- عسکری ٹیکنالوجی اور جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری کے استحقاق پر چند ممالک کی اجارہ داری اور باقی تمام ممالک کے لیے اس کی ممانعت اقوام و ممالک کے مابین برابری اور مساوات کے اصول کے منافی ہے اور اس کی زد سب سے زیادہ مسلم دنیا پر پڑ رہی ہے، اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس اجارہ دارانہ، غیرمساویانہ اور غیرمنصفانہ قانون و فلسفہ پر نظر ثانی کی جائے اور طاقت کے عالمی توازن پر چند ممالک کی اجارہ داری کے قوانین و ضوابط کو ختم کر کے برابری اور مساوات کے اصول پر نیا نظام وضع کیا جائے۔
- اقوام متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے مستقل ارکان میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی عالم اسلام کی کوئی نمائندگی نہیں ہے، بلکہ اسے عملاً اس سے دور رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کے نظام میں انصاف اور توازن کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے مستقل ارکان میں مسلم امہ کو دنیا میں اس کی مجموعی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
- اقوام متحدہ کا موجودہ سسٹم، طریق کار اور پالیسیاں دنیا بھر کی غریب، پسماندہ، غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام و ممالک کے مفادات، ضروریات اور مجبوریوں کا لحاظ اور پاسداری کرنے کی بجائے امیر ترین ممالک اور ترقی یافتہ اقوام کی اجارہ دارانہ اور استحصالی مفادات کی محافظ و نگران بن کر رہ گئی ہیں، اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ غریب اور پسماندہ ممالک کو الگ سے اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا جائے اور ان کی تجاویز و سفارشات کی روشنی میں پورے نظام پر نظر ثانی کی جائے۔
میمورنڈم میں مسلم حکومتوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان تجاویز کو جنرل اسمبلی کے فورم پر لانے کا اہتمام کریں۔