میانمار (برما) کے صوبہ اراکان میں مسلمانوں کے قتل عام کے حوالہ سے ان صفحات پر ہم اپنے جذبات کا اس سے قبل کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ اس خطہ کے مسلمان انتہائی مظلومیت کا شکار ہیں کہ جس ملک میں وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں وہاں کی حکومت انہیں اس ملک کا شہری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری طور پر ان کا مسلسل قتل عام ہو رہا ہے، پڑوس کے ممالک حتٰی کہ بنگلہ دیش بھی ان کے مہاجرین کو با قاعدہ پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور بین الاقوامی فورم پر ان مظلوم مسلمانوں کے انسانی حقوق اور شہری حقوق کی بحالی کی کوئی جدوجہد موجود نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں روزنامہ دنیا گوجرانوالہ ۲۲ جنوری ۲۰۱۳ء کی یہ خبر اس صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کر رہی ہے کہ برما سے کسی نہ کسی طرح ہجرت کر جانے والے اراکانی مسلمانوں کی تھائی لینڈ میں خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور لٹے پٹے مہاجرین کو تھائی لینڈ کے سکیورٹی حکام انسانی اسمگلرز کے سپرد کر کے پیسے بٹور رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں کی تنظیم او آئی سی کی طرف سے گزشتہ دنوں اس سلسلہ میں رسمی کاروائی کا کچھ سلسلہ سامنے آیا تھا مگر ابھی تک وہ رسمی قراردادوں اور بیانات تک محدود ہے، اور اقوام متحدہ کے متعلقہ شعبے بھی انسانی حقوق اور شہری حقوق کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو عملی طور پر پورا کرنے کی بجائے زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہے ہیں، جبکہ میانمار (برما) کی حکومت اور اپوزیشن دونوں اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے اور ان کے شہری حقوق کی پاسداری کے لیے زبانی طور پر بھی کوئی واضح بات کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ صورتحال انتہائی سنگین ہے اور سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے جس کی طرف پاکستان کی قومی و دینی جماعتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ہماری معلومات کے مطابق مسلم حکومتوں کی تنظیم او آئی سی کا ایک سربراہی اجلاس فروری کے دوران قاہرہ میں ہو رہا ہے، اس موقع پر اگر کوئی صورت ان مظلوموں کے مسئلہ کو سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں باقاعدہ طور پر شامل کرانے کی بن سکے تو اس کے لیے بڑی جماعتوں اور شخصیات کو ضرور کوشش کرنی چاہیے۔