توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اصحابِ فکر و دانش اپنے اپنے انداز میں اس پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک سوال عام طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ کیا اس سزا کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے؟ اور سوال کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر قرآنِ کریم میں یہ سزا مذکور نہیں ہے تو اس پر اس قدر زور دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بہت سے علماء کرام اس کے جواب میں قرآنِ کریم کی متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن سے اس پر استدلال کیا جاتا ہے، مگر اس سے قطع نظر ہم سوال کے اس پہلو کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ہر مسئلہ کا حل قرآنِ کریم میں تلاش کرنا ضروری ہے اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک اتھارٹی کی حیثیت نہیں رکھتے؟
قرآنِ کریم نے متعدد آیات میں اطاعتِ خداوندی کے ساتھ اطاعتِ رسولؐ کا حکم دیا ہے اور نبی اکرمؐ کی یہ حیثیت بیان کی ہے کہ آپؐ ایک مستقل اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور جس طرح قرآنِ کریم کے بیان کردہ احکام کی اطاعت ضروری ہے اسی طرح نبی اکرمؐ کے ارشادات کی اطاعت بھی ایک مسلمان کے لیے واجب اور ضروری ہے، خواہ وہ قرآنِ کریم میں مذکور نہ ہوں۔ چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم یا فیصلہ سامنے آجانے کے بعد یہ سوال کرنا کہ کیا یہ حکم قرآنِ کریم میں موجود ہے، نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے بلکہ آنحضرتؐ کے مطاع اور اتھارٹی ہونے کی (خدانخواستہ) نفی کے بھی مترادف ہے۔
گزشتہ روز ایک معروف محقق اور دانشور کے بارے میں یہ بات سن کر مجھے بے حد تعجب ہوا کہ انہوں نے کہا ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا کے بارے میں ’’قرآنِ کریم خاموش ہے‘‘۔ تعجب اس لیے کہ قرآنِ کریم تو دینی احکام کے ایک بڑے حصے کے بارے میں خاموش ہے اور بے شمار احکام ایسے ہیں جو جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمائے ہیں جبکہ ان کا قرآن کریم میں کسی جگہ بھی تذکرہ نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر ان صاحب کی یہ منطق تسلیم کر لی جائے تو صرف توہینِ رسالتؐ کے قانون سے نہیں بلکہ احکامِ شریعت کے ایک بڑے ذخیرے سے دستبرداری اختیار کرنا پڑے گی۔ مسند دارمیؒ میں معروف صحابیٔ رسولؐ حضرت عمران بن حصینؓ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کسی صاحب نے کوئی مسئلہ پوچھا اور یہ شرط لگا دی کہ مجھے یہ مسئلہ صرف قرآن کریم کے حوالے سے بتائیں۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے اس سوال پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ تم جو نماز پڑھتے ہو اس کی ترتیب و تفصیل قرآن کریم میں کہاں بیان ہوئی ہے؟
قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں نماز کی تلقین کی گئی ہے، اس کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے، اس کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے، اس کے ترک پر سخت عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے اور بے نمازی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیظ و غضب کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ دن رات میں کتنی نمازیں پڑھنی ہیں، نماز کی رکعتیں کتنی ہیں، ایک رکعت میں سجدے کتنے ہیں اور نماز کی ترتیب کیا ہے۔ چودہ سو سال سے امتِ مسلمہ اس بارے میں جناب رسول اکرمؐ کے ارشادات اور سنت کو بنیاد بنا کر نمازیں پڑھتی آرہی ہے۔ اب اگر ’’قرآن کریم خاموش ہے‘‘ کی منطق کو قبول کر کے کوئی صاحب سرے سے نمازوں کی تعداد، رکعات کی ترتیب اور اوقات سے ہی انکار کر دیں تو انہیں اس بات سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
حضرت عمران بن حصینؓ نے تو حدیث نبویؐ کی اہمیت و ضرورت کو اس پہلو سے بیان فرمایا ہے کہ حدیث نبویؐ قرآن کریم کی ایسی شرح ہے جس کے بغیر قرآن کریم کے احکام کی عملی صورتوں کا تعین ہی ممکن نہیں۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہ بات سمجھانے کے لیے ایک اور اسلوب اختیار فرمایا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک بار کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے ہفتہ وار درس کے دوران یہ بات فرمائی کہ بعض مخصوص قسم کے فیشن اختیار کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسولؐ نے لعنت فرمائی ہے۔ اس پر ایک خاتون ام یعقوبؓ نے ان سے برسرعام سوال کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کا ذکر کر رہے ہیں تو کیا یہ بات قرآن کریم میں موجود ہے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ ہاں موجود ہے۔ اس خاتون نے کہا کہ میں نے بھی قرآن کریم پڑھا ہے اس میں یہ بات کہیں بھی نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ تم نے قرآن کریم پڑھا ہی نہیں ہے۔ وہ عورت بولی کہ خدا کی قسم میں نے حرف بہ حرف قرآن کریم کی تلاوت کی ہے اس میں یہ مسئلہ مذکور نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
’’اللہ کا رسول تمہیں جو چیز دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ۔‘‘
اور میں نے جناب رسول اللہؐ سے خود سنا ہے کہ ایسا فیشن کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے، اس لیے حضورؐ کا یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور قرآن کریم کا حصہ ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ تفسیر قرطبی میں سورۃ الحشر کی اسی آیت کریمہ کے تحت درج ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کو حالت احرام میں احرام کی دو چادروں کے ساتھ کوئی سلا ہوا کپڑا پہنے دیکھا تو اس سے کہا کہ حالت احرام میں مرد کو سلا ہوا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس شخص نے ہمارے آج کے بہت سے دانشوروں کی طرح یہ سوال کیا کہ کیا آپ اس بات پر قرآن کریم سے کوئی دلیل دیں گے؟ اسے بھی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہی جواب دیا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ’’رسول اللہؐ تمہیں جس کام سے روکیں اس سے رک جاؤ‘‘ اور میں نے خود اللہ کے نبی سے سنا ہے کہ مرد کے لیے حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے، اس لیے نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی طرف سے ہی ہے۔
کسی مسئلہ پر صرف قرآن کریم سے دلیل طلب کرنے پر یہ ردعمل اور جواب دو بزرگ صحابہ کرام حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور حضرت عمران بن حصینؓ کا ہے جبکہ صاحبِ مشکوٰۃ نے حضرت ابو رافعؒ، حضرت مقدامؒ اور حضرت عرباض بن ساریہؒ کی روایت سے خود جناب نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد گرامی بھی نقل کیا ہے کہ
’’کوئی شخص گھمنڈ میں آکر یہ نہ کہتا پھرے کہ صرف قرآن کریم کی پابندی لازم ہے، اس لیے اس میں جو حرام قرار دیا گیا ہے وہی حرام ہے، خبردار! مجھے قرآن کریم بھی دیا گیا ہے اور قرآن کریم سے ہٹ کر بھی احکام دیے گئے ہیں۔‘‘
اس لیے اللہ کا رسول جس چیز کو حرام قرار دے وہ بھی اسی طرح حرام ہے جیسے قرآن کریم کی طرف سے حرام قرار دی ہوئی چیز حرام ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی سزا کا ذکر قرآن کریم میں ہے یا نہیں، اس لیے کہ جب اس کے بارے میں آنحضرتؐ کے واضح ارشادات اور فیصلے موجود ہیں تو ان کے واجب العمل ہونے کے لیے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ جناب رسول اکرمؐ دین کے احکام میں خود ایک مستقل اتھارٹی ہیں اور آپؐ کے مستقل اتھارٹی ہونے کا اعلان قرآنِ کریم نے درجنوں مقامات پر واضح طور پر کر رکھا ہے۔