بین المذاہب مکالمہ کی ضرورت / مسلم مسیحی کشمکش کا نقطۂ آغاز

   
۹ اپریل ۲۰۱۰ء

انٹرفیتھ ڈائیلاگ یعنی بین المذاہب مکالمہ اس وقت کے اہم عالمی موضوعات میں سے ہے جس پر دنیا کے مختلف اداروں اور فورموں میں بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ ہر جگہ اس کے مقاصد مختلف ہیں لیکن مذاہب کے مابین مشترکات تلاش کرنے اور مذہب کے معاشرتی کردار کی حدود طے کرنے کا معاملہ کسی حد تک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر سطح پر اربابِ فکر و دانش اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ اس عمومی تناظر سے ہٹ کر معاصر ادیان و مذاہب سے واقفیت اور اسلامی تعلیمات کے تقابل میں ان کا مطالعہ دینی مدارس اور اساتذہ و طلبہ کی اپنی ضرورت بھی ہے جس کی طرف دینی مدارس کو وقتاً فوقتاً توجہ دلائی جاتی رہتی ہے اور بعض اداروں میں اس سلسلہ میں کسی حد تک کام بھی ہو رہا ہے۔ لیکن یہ موضوع اپنی اہمیت کے حوالے سے موجودہ عالمی تناظر میں جس قدر توجہ اور محنت کا تقاضا کر رہا ہے اس کی کوئی صورت بظاہر دکھائی نہیں دے رہی۔

ہمارے ہاں تقابلِ ادیان، تعارفِ ادیان اور مکالمہ بین الادیان والمذاہب کو دراصل مناظرانہ ماحول میں چند اعتقادی مباحث تک محدود کر لیا گیا ہے اور اسی کو تقابلِ ادیان تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال سامنے ہے کہ ملک کے ایک بڑے علمی فورم سے تقابلِ ادیان کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنانے کا تقاضا کیا گیا تو قادیانیت کے بارے میں ایک رسالہ شاملِ نصاب کر کے اس قضیہ کو نمٹا دیا گیا، جبکہ اس رسالہ کے بابت یہ مخمصہ ابھی باقی ہے کہ وہ باقاعدہ نصاب کا حصہ ہے یا محض مطالعاتی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں خود تعارفِ ادیان کو دینی مدارس کے نصاب میں باقاعدہ طور پر شامل کرنے کے حق میں ہوں بلکہ اس کے محرکین میں سے ہوں مگر اب اس کا مطلب صرف چند اعتقادی مسائل کو مناظرانہ انداز میں طلبہ کو یاد کروا دینا نہیں ہے بلکہ تعارفِ ادیان کا مقصد یہ ہے کہ

  • معاصر ادیان مثلاً مسیحیت، یہودیت، ہندوازم، سکھ مت، بدھ مت وغیرہ کی مختصر تاریخ،
  • ان کے بنیادی عقائد اور ثقافتی روایات،
  • اسلامی عقائد و ثقافت کے ساتھ ان کا فرق و امتیاز،
  • مسلمانوں کے ساتھ ان ادیان کے پیروکاروں کے تعلقات کا تاریخی پس منظر،
  • موجودہ عالمی کشمکش میں مسلمانوں کے ساتھ ان کے معاملات،
  • اس وقت دنیا میں ان ادیان کے پیروکاروں کی آبادی اور ان کے ممالک و اقوام، اور
  • مشترکہ سوسائٹیوں میں، جن کا دائرہ اب بڑھتا جا رہا ہے، مسلمانوں کے ضروری شرعی احکام و مسائل وغیرہ۔

ان امور کے ساتھ اگر اعتقادی مباحث پر متکلمانہ گفتگو کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں ہے لیکن تعارفِ ادیان کے حوالے سے ہمارے اساتذہ، خطباء، طلبہ اور دینی کارکنوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ

  • کس مذہب کے پیروکار دنیا میں کہاں کہاں بستے ہیں اور آبادی کا تناسب کیا ہے؟
  • ہمارا ان کے ساتھ اعتقادی اور ثقافتی فرق کیا ہے؟
  • ان کے ساتھ ہمارے سیاسی تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
  • موجودہ عالمی کشمکش میں وہ کہاں کھڑے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ اور
  • اسلام کی دعوت یا اس کے تحفظ و دفاع کے حوالہ سے ان سے ہم کس انداز میں بات کر سکتے ہیں؟

میری ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی مستقل ادارہ اس کام کو سنبھالے اور اربابِ فکر و دانش کی ایک ٹیم باہمی اشتراک و تعاون سے اس اہم مقصد کی طرف پیش رفت کرے۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی ہمارے پرانے رفیق کار، مسجد خضراء سمن آباد لاہور کے خطیب، جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل، جمعیۃ علماء اسلام (س) کے صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل اور اصلاً تعلیمی ذوق کے آدمی ہیں۔ انہوں نے چند سال پہلے کامونکی گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر اپنے ادارہ جامعہ اسلامیہ میں ’’مرکز مطالعۂ مذاہب‘‘ قائم کر کے اس سمت سفر کا آغاز کیا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ ایک اہم دینی اور علمی کام کے لیے محنت کے آغاز ہوگیا ہے۔ مولانا موصوف کو اس کام کے لیے آمادہ کرنے والوں میں خود میں بھی شامل ہوں اور شروع سے ایک مشیر کی حیثیت سے بحمد اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ معاونت کر رہا ہوں۔ مرکز مطالعۂ مذاہب کا سرِدست طریق کار یہ ہے کہ

  • متکلم اسلام حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے منسوب ایک ہال اور لائبریری قائم کی گئی ہے،
  • ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل ماہوار جریدہ شائع کیا جا رہا ہے،
  • اس موضوع کے حوالے سے مختلف کتابچے اور پمفلٹ شائع کر کے تقسیم کیے گئے ہیں،
  • تعارفِ مذاہب کے بارے میں سال میں دو تین مواقع پر تربیتی ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں جن میں دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ شرکاء کو متعلقہ مذہب کے بارے میں ضروری معلومات اور مواد فراہم کرتے ہیں اور اس کے مطالعہ کے لیے ان کی راہنمائی کرتے ہیں،
  • اب تک یہودیت، مسیحیت، ہندو ازم، سکھ مت اور بدھ مت کے حوالوں سے نصف درجن سے زائد ورکشاپس ہو چکی ہیں اور دینی مدارس کے سینکڑوں اساتذہ اور طلبہ نے ان سے استفادہ کیا ہے۔

اس سلسلہ میں گزشتہ دنوں مسیحیت کے موضوع پر تین روزہ ’’مطالعۂ مذاہب کورس‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں مندرجہ ذیل عنوانات پر اربابِ علم و دانش نے گفتگو کی:

  1. عیسائیت کا مذہبی ادب۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عبد اللہ (پنجاب یونیورسٹی)۔
  2. عقیدۂ تثلیث اور دیگر مذاہب۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عبد اللہ (پنجاب یونیورسٹی)۔
  3. اسلام اور عیسائیت کی کشمکش۔ مولانا ڈاکٹر سرفراز اعوان (پنجاب یونیورسٹی)۔
  4. اسلام کا نظریۂ جہاد اور عیسائیت۔ مولانا قاری منصور احمد۔
  5. صلیبی جنگوں کی تاریخ۔ مولانا مشتاق احمد چنیوٹی (جامعہ عربیہ چنیوٹ)
  6. بائبل اور بشارت۔ مولانا مشتاق احمد چنیوٹی (جامعہ عربیہ چنیوٹ)
  7. حیاتِ مسیح علیہ السلام۔ ڈاکٹر غلام علی خان (پنجاب یونیورسٹی)
  8. بائبل کی تدوین و تحریفات۔ مولانا مفتی غلام مصطفٰی (اوکاڑہ)۔
  9. عقیدۂ کفارہ کا اسلامی و مسیحی تصور۔ مولانا مشتاق احمد چنیوٹی۔
  10. بائبل کے تضادات و اختلافات۔ جناب یاسین عابد (علی پور چٹھہ)۔
  11. مسیحیت کا نصاب و نظام تعلیم۔ جناب شفقت علی (سابق مبشر انجیل)۔
  12. مسیحیت کا نظامِ عبادات۔ جناب گلزار احمد (سابق مسیحی پادری)۔

راقم الحروف نے دو نشستوں میں مطالعۂ مذاہب کی اہمیت اور مسلم مسیحی تعلقات کے تاریخی پس منظر پر تفصیلی گفتگو کی جبکہ مولانا عبد الرؤف فاروقی نے بطور میزبان شرکاء کو ’’مرکز مطالعۂ مذاہب‘‘ کی اب تک کی کارکردگی اور مستقبل کے عزائم سے آگاہ کیا۔ کورس کے شرکاء کی تعداد زیادہ تر مختلف دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ پر مشتمل تھی اور ان میں سے بیشتر کا تاثر یہ تھا کہ بہت سے معاملات کا انہیں پہلی بار علم ہوا ہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ مختلف معاصر ادیان کے بارے میں اس قسم کے کورسز وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ راقم الحروف نے مسلم مسیحی تعلقات کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے جو گفتگو کی اس کے دورِ نبویؐ والے حصے کا مختصر خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسلم مسیحی تعلقات کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ

  1. غارِ حراء میں پہلی وحی کے نزول کے بعد جناب رسالت مآبؐ کا واسطہ سب سے پہلے مسیحی عالم ورقہ بن نوفل سے پیش آیا جنہوں نے غارِ حرا کے واقعہ کو نزولِ وحی کا آغاز قرار دے کر جناب رسول اللہؐ کو تسلی دی اور بشرطِ زندگی مشکلات پیش آنے پر ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی۔
  2. مسیحیت کے ساتھ ہمارا دوسرا رابطہ صحابہ کرامؓ کی حبشہ کی طرف ہجرت کے موقع پر ہوا جہاں حبشہ کے مسیحی حکمران شاہ نجاشی نے مسلم مہاجرین کو نہ صرف سیاسی پناہ دی بلکہ حضرت جعفر طیارؓ سے قرآن کریم سن کر خود بھی اسلام قبول کر لیا۔
  3. مسیحیت کے ساتھ ہمارا تیسرا رابطہ بنو طے قبیلہ کے ساتھ جنگ اور ان کی شکست کے بعد عدی بن حاتمؓ اور ان کے رفقاء کا قبول اسلام ہے۔
  4. چوتھا رابطہ قیصرِ روم کے نام جناب رسول اکرمؐ کا دعوتِ اسلام کا مکتوبِ گرامی ہے جسے مکمل احترام اور پروٹوکول دیا گیا اور قیصرِ روم نے اس بات کا اظہار کیا کہ آنحضرتؒ وہی نبیؐ اور رسولؐ معلوم ہوتے ہیں جن کا ہمیں انتظار تھا۔
  5. پانچواں رابطہ نجران کے مسیحیوں کو حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے ذریعے دعوتِ اسلام، مسیحی علماء اور سرداروں کی مدینہ منورہ آمد، مکالمہ و مباہلہ اور پھر معاہدۂ نجران کی صورت میں ہوا۔

اس وقت تک کے سارے رابطے مثبت ہیں اور ان میں باہمی کشمکش کی کوئی جھلک موجود نہیں۔ جبکہ دورِ نبویؐ میں مسلم مسیحی کشمکش کا آغاز اس وقت ہوا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد اردگرد کے حکمرانوں کو قبول اسلام کی دعوت کے لیے خطوط ارسال کیے تو شام کے علاقہ بصریٰ کے حاکم شرجیل نے آپؐ کے قاصد حضرت حارث بن عمیرؓ کو شہید کر دیا جس پر آنحضرتؐ نے ان کا بدلہ لینے کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کی امارت میں تین ہزار کا لشکر روانہ کیا۔ موتہ کے مقام پر سخت جنگ ہوئی جس میں حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت جعفر طیارؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ شام کا علاقہ رومیوں کے زیرنگیں تھا اور شام کے علاقائی حکمران قیصرِ روم کے باجگزار تھے، یہ لوگ نسلاً عرب مگر مذہباً عیسائی تھے۔ موتہ کی جنگ کے بعد شام کے عرب عیسائیوں نے قیصرِ روم سے مدد طلب کی اور اس نے ان کی مدد کے لیے افواج بھجوائیں جس کے نتیجے میں تبوک کا معرکۃ الآراء غزوہ بپا ہوا اور جناب رسول اکرمؐ قیصرِ روم کی فوجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جیش العسرہ کی قیادت کرتے ہوئے خود تبوک تشریف لائے۔

حضرت حارث بن عمیرؓ کی شہادت، موتہ کی جنگ اور غزوۂ تبوک تاریخی طور پر مسلم مسیحی کشمکش کا نقطۂ آغاز ہے۔ تب سے اب تک یہ کشمکش چل رہی ہے اور بہت سے مراحل طے کرتے ہوئے آج کی غیر اعلانیہ عالمی جنگ کی صورت میں دنیا کے مختلف حصوں میں جاری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter