جناب صدر! ہماری منزل یہ نہیں ہے

   
فروری ۲۰۰۸ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۲ جنوری ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ دورۂ یورپ کے دوران یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے غیر حقیقی معیار پر نہیں پرکھا جانا چاہیے‘‘۔ انہوں نے مغرب پر الزام لگایا ہے کہ اس پر جمہوریت کا بھوت سوار ہے اور کہا کہ ’’آپ لوگ جس معیار تک پہنچ چکے ہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں وقت درکار ہے اور یہ وقت ہمیں ملنا چاہیے‘‘۔

اخباری تبصروں کے مطابق صدر پرویز مشرف یہ دورہ مغربی ممالک کو یہ یقین دلانے کے لیے کر رہے ہیں کہ ۱۸ فروری کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات منصفانہ اور آزادانہ ہوں گے اس لیے مغرب کو پاکستان میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالہ سے بے لچک رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ یورپی یونین اور مغربی حکومتیں صدر پرویز مشرف کی ان یقین دہانیوں پر کس حد تک یقین کرتی ہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور ہمیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس لیے کہ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ:

  1. مغربی ممالک خواہ وہ یورپ سے تعلق رکھتے ہوں یا ان کا تعلق براعظم امریکہ سے ہو، ان کو صرف اپنے مفادات اور ایجنڈے سے غرض رہی ہے اور وہ ان مفادات اور ایجنڈے سے ہٹ کر پاکستانی عوام کے جذبات، مفادات اور ضروریات کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے۔
  2. مغرب کو پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ جس دوسری بات سے دلچسپی رہی ہے اور وہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، وہ یہ کہ اسلام کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق کمزور ہو، اسلام کے معاشرتی کردار پر یقین رکھنے والے دینی حلقوں کو کارنر کیا جائے اور مغرب کے دین بیزار فلسفہ اور کلچر کو مسلم ممالک میں فروغ دیا جائے۔ جس کے لیے مغرب نے جمہوریت، شہری آزادیوں، انسانی حقوق کے خود ساختہ تصورات اور معیارات کو ہتھیار بنا رکھا ہے۔

صدر پرویز مشرف کے ان ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں مغرب کے اس ایجنڈے سے اصولاً کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ انہیں یہ شکایت ہے کہ مغرب اس سلسلہ میں حقیقت پسندی کی بجائے جلد بازی سے کام لے رہا ہے، اور پاکستان کو مغرب کے معیار تک لے جانے کے لیے ان کے خیال میں جو وقت درکار ہے وہ وقت دینے کے لیے مغرب تیار نہیں ہے۔ لیکن ہم اس حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ مسلم امہ کے عقیدہ و ایمان، پاکستان کے قیام کے تاریخی پس منظر، پاکستان کے دستور و قانون اور پاکستانی عوام کے رجحانات کی رو سے مغرب کے موجودہ معیار و مقام کے بارے میں یہ کہنا ہی سرے سے غلط ہے کہ ہماری منزل بھی یہی ہے لیکن ہمیں وہاں تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ ہماری منزل خالص مغربی جمہوریت کبھی نہیں رہی، پاکستان کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد بھی پوری وضاحت کے ساتھ بار بار کہا جا چکا ہے کہ ہم ایک جمہوری حکومت اور نظام پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس کی بنیاد مغرب کے فلسفہ و نظام پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر اور قرآن و سنت کے دائرہ میں ہو گی۔ ملک کا دستور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ عوام کی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی پابند ہو گی۔

روزنامہ پاکستان لاہور میں ۸ جنوری ۲۰۰۸ء کو شائع ہو نے والی ایک رپورٹ کے مطابق معروف امریکی ادارے ’’یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘‘ کی طرف سے پاکستان میں کرائے جانے والے ایک حالیہ سروے میں ملک کے عوام کی اکثریت نے ایک بار پھر اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں ایک ایسا جمہوری نظام چاہتے ہیں جو اسلام سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہو۔ اس لیے ہماری منزل مغرب کی جمہوریت اور اس کا نام نہاد انسانی حقوق کا معیار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالا دستی پر مبنی منصفانہ اور عادلانہ نظام ہے۔ اور پاکستان کے مغرب نواز حکمران اس نظام کی راہ میں جتنی رکاوٹیں چاہے کھڑی کر لیں بالآخر یہ نظام ملک میں آ کر رہے گا اس لیے کہ یہ ملک کے عوام کی غالب اکثریت کی آرزو ہے اور عوامی آرزوؤں کو جبر کے ذریعہ دبائے رکھنے کے حربے زیادہ تر تک کامیاب نہیں ہوا کرتے۔

   
2016ء سے
Flag Counter