جنوبی افریقہ کے دورہ کے تاثرات و مشاہدات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے قبل وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اجلاس کے حوالہ سے گزشتہ روز شائع ہونے والے کالم کے بارے میں ایک وضاحت ضروری ہے۔ رپورٹ میں تخصصات کے نصاب کے حوالہ سے یہ کہا گیا ہے کہ
’’اجلاس میں طے پایا کہ تخصصات کے نصابوں کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں نصابوں کو پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مروجہ معیار اور طریق کار سے ہم آہنگ کرنے کا جائزہ لیا جائے اور اسے بھی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے۔ نیز تخصصات کے نصابوں کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں (۱) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (۲) مولانا منظور احمد منگل (۳) راقم الحروف ابوعمار زاہد الراشدی (۴) مولانا سعید یوسف خان (۵) اور مولانا محمد ولی خان المظفر کو شامل کیا جائے۔‘‘
شائع ہونے والے کالم میں اس کا کچھ حصہ شامل ہونے سے رہ گیا ہے اس لیے بطور وضاحت یہ پیرا دوبارہ درج کیا جا رہا ہے۔
جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن کی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان سے جانے والے حضرات میں (۱) علامہ ڈاکٹر خالد محمود (۲) مولانا محمد الیاس چنیوٹی (۳) مولانا محمد احمد لدھیانوی (۴) صاحبزادہ مولانا زاہد محمود قاسمی (۵) مولانا مفتی شاہد محمود (۶) مولانا راشد فاروقی اور (۷) راقم الحروف شامل تھے۔ راشد فاروقی تو لیٹ ہوجانے کی وجہ سے کراچی سے فلائٹ نہ پکڑ سکے اور اگلے روز پہنچے جبکہ باقی ہم چھ حضرات ۳۰ اکتوبر کو کراچی سے امارات ایئرلائنز کے ذریعے دبئی اور پھر وہاں سے کم و بیش آٹھ گھنٹے کا فضائی سفر کرتے ہوئے اسی ایئرلائن سے جوہانسبرگ پہنچے۔
جب ہم ایئرپورٹ پر اترے تو عشاء کی نمازیں ہو چکی تھیں۔ وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہونے کی وجہ سے ہماری گھڑیاں تین گھنٹے مقدم ہوگئیں۔ ایئرپورٹ پر مولانا عبد الحفیظ مکی کے خلیفہ مجاز مولانا جنید ہاشم اپنے رفقاء سمیت خیرمقدم کے لیے موجود تھے۔ اس سفر میں ہم نے میزبانی کی ایک نئی روایت دیکھی کہ ایئرپورٹ سے باہر نکلنے سے قبل ہم سب کو میزبانوں کی طرف سے موبائل فون کی ایک ایک سم پیش کی گئی جو کم از کم میرے لیے پہلا خوشگوار تجربہ تھا۔ میرا معمول ہے کہ لمبے سفر میں منزل پر پہنچنے کے بعد گھر والوں کو فون پر اطلاع کیا کرتا ہوں جس کا انہیں انتظار رہتا ہے اور ان کا حق بھی ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جنوبی افریقہ پہلی بار آیا ہوں تو گھر رابطے کی کیا صورت ہوگی؟ موبائل فون کی سم ملی جس میں ضرورت کے مطابق بیلنس بھی تھا، ایئرپورٹ سے قیام گاہ کی طرف روانہ ہوتے ہی گاڑی میں فون پر گھر والوں کو بخیر و عافیت جوہانسبرگ پہنچنے کی اطلاع کی۔ جوہانسبرگ میں ہمارا صرف ایک رات کا قیام تھا کیونکہ علی الصبح ہم نے کیپ ٹاؤن کی طرف روانہ ہوجانا تھا۔ رات ہم خانقاہ خلیلیہ مکیہ میں رہے جو حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے منسوب ہے۔
صبح جمعہ تھا اور ہمارے وفد میں شامل حضرات نے کانفرنس کے پروگرام کے مطابق کیپ ٹاؤن کی مختلف مساجد میں جمعۃ المبارک کے اجتماعات سے خطاب کرنا تھا۔ جبکہ جوہانسبرگ سے کیپ ٹاؤن تک دو گھنٹے کی فلائٹ تھی اس لیے صبح نماز فجر ادا کرتے ہی ہم ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔ کیپ ٹاؤن میں مسلم جوڈیشیل کونسل ہماری میزبان تھی اور کونسل نے ہمارے قیام کا اہتمام ٹیبل ماؤنٹ کے دامن میں بحرِ اوقیانوس کے کنارے ایک ہوٹل میں کر رکھا تھا۔ کیپ ٹاؤن میں ایک پہاڑ کی چوٹی میز کی طرح بالکل چپٹی ہے جس کی وجہ سے اسے ’’ٹیبل ماؤنٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ایک اور پہاڑی کی چوٹی دور سے پہلی نظر میں یوں دکھائی دیتی ہے جیسے شیر بیٹھا ہوا ہے چنانچہ ان مناظر کو دیکھنے کے لیے لوگ اہتمام کر کے یہاں آتے ہیں۔ اس ہوٹل میں ہمارا تین دن قیام رہا۔ ایک طرف تاحدِ نظر بحرِ اوقیانوس اور دوسری طرف پہاڑی سلسلہ ہے، بہت خوبصورت منظر تھا اور مولانا عبد الخالق علی اور ان کی باذوق ٹیم کی مہمان نوازی نے اس کا لطف دوبالا کر رکھا تھا۔ موسم کم و بیش ایسا ہی تھا جیسا ان دنوں اسلام آباد کا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اسلام آباد میں موسم گرما رخصت ہو کر موسم سرما کی آمد آمد ہے جبکہ کیپ ٹاؤن موسم سرما کو رخصت کر کے موسم گرما کی طرف بڑھ رہا ہے۔
جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی آمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یہاں انڈونیشیا سے ایک بزرگ ابراہیم بطاویہ ۱۶۵۲ء میں آئے جنہیں اس خطہ میں آنے والا پہلا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ انڈونیشیا پر دلندیزی استعمار کے تسلط کے بعد ۱۶۹۶ء میں ایک بزرگ شیخ یوسف خلوتی کو دلندیزی استعمار کے خلاف مزاحمت کے جرم میں سزا کے طور پر براعظم افریقہ کے اس جنوبی حصے میں بھیج دیا گیا۔ گویا یہ اس زمانے میں انڈونیشیا کے مجاہدینِ آزادی کے لیے گوانتاناموبے یا کالاپانی تھا۔ شیخ یوسف خلوتی کا تعلق انڈونیشیا کے کسی جزیرہ کے ایک سابق حکمران خاندان سے تھا، وہ عالم دین تھے اور خلوتی سلسلہ کے صوفی بزرگ بھی تھے۔ انہوں نے دلندیزی حکمرانوں کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کی قوت مزاحمت کو منظم کرنا چاہا اور تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی جس کی پاداش میں انہیں جلاوطن کر کے جنوبی افریقہ میں پہنچا دیا گیا۔ یہاں کے باخبر حضرات کا کہنا ہے کہ شیخ یوسف خلوتی کا یہاں آنا اسلام کی دعوت کا ذریعہ بن گیا اور آج اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کی سرگرمیوں کا جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس کی خشتِ اول کا مقام شیخ یوسف خلوتی کو حاصل ہے۔ مجھے یہ بات سن کر شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ یاد آگئے جنہیں حضرت شیخ الہند کی تحریک ریشمی رومال سبوتاژ ہوجانے کے بعد برطانوی استعماری حکمرانوں نے اس خیال سے لاہور میں نظر بند کر دیا تھا کہ اس شہر میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں ہے اس لیے یہ ’’باغیانہ سرگرمیاں‘‘ منظم نہیں کر پائیں گے۔ حتیٰ کہ حضرت لاہوریؒ کی شخصی ضمانت دینے کے لیے بھی لاہور سے کوئی صاحب میسر نہیں آئے تھے اور ان کی ضمانت گوجرانوالہ کے ملک لال خان مرحوم نے دی تھی۔ لیکن ایک بے سروسامان درویش کو اجنبی شہر میں نظربند کرنے والوں کو کیا خبر تھی کہ ’’لاہوری‘‘ اس مردِ درویش کے نام کا حصہ بن جائے گا اور جب اس کا جنازہ اٹھے گا اس میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے پورا لاہور امڈ آئے گا۔
جنوبی افریقہ میں باہر سے آنے والے مسلمانوں کی اکثریت انڈونیشیا، ملائیشیا اور مشرقِ بعید سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تھی جو زیادہ تر شافعی المسلک ہیں۔ اس کے بعد ہندوستان کے علاقہ گجرات اور دیگر صوبوں سے مسلمان یہاں بڑی تعداد میں آئے جو اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ یہاں آنے والے مسلمانوں نے تجارت میں خصوصی دلچسپی لی چنانچہ جنوبی افریقہ کے تجارتی میدان میں مسلمان امتیازی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔
جنوبی افریقہ ایک عرصہ تک برطانوی استعمار کی نوآبادی رہا ہے اور یہاں گوروں کی نسل پرست حکومت رہی ہے۔ ان گوروں کا یہ امتیاز تھا کہ نسل پرستی ان کی سرکاری پالیسی کا حصہ تھی اور وہ سیاہ فام اکثریت کو برابر کے حقوق دینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ عالمی ادارے ایک مدت تک اسرائیل کے ساتھ جنوبی افریقہ کو بھی نسل پرست ملک شمار کرتے رہے۔ اس بیرونی تسلط اور نسل پرست حکومت کے خلاف نیلسن منڈیلا نے آزادی کی جنگ لڑی تھی جس کے لیے انہیں کم و بیش ربع صدی تک قید میں رہنا پڑا اور انہیں ’’روبن آئی لینڈ‘‘ نامی جزیرہ میں طویل عرصہ بند رکھا گیا۔ لیکن ان کی پر امن تحریک بالآخر رنگ لائی اور جنوبی افریقہ کو نسل پرست گوری حکومت سے نجات مل گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا عمومی ماحول چونکہ تاجرانہ تھا اس لیے تحریک آزادی میں ان کا کوئی سرگرم کردار عمومی سطح پر نظر نہیں آتا لیکن چند مسلمان راہنما ایسے بھی تھے جنہوں نے آزادی کی اس جنگ میں حصہ لیا اور قربانیاں بھی دیں۔ چنانچہ احمد قطرزادہ نامی ایک بزرگ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے تحریک آزادی میں نیلسن منڈیلا کے ساتھ روبن آئی لینڈ میں زندگی کے کم و بیش دو عشرے قید و بند میں گزارے ہیں، جبکہ عزیز بھات اور یوسف بھات نامی دو مسلمان راہنما جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں جلاوطن رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں بھی امریکہ کے ایک صدی قبل کے ماحول کی طرح کالوں اور گوروں کی الگ الگ بستیاں رہی ہیں اور جس نسلی امتیاز کو قانون و رواج کا درجہ حاصل رہا ہے اس کے نشانات اب تک موجود ہیں۔ کیپ ٹاؤن سے واپسی پر جوہانسبرگ سے گرزادویل جاتے ہوئے راستے میں دو تین بڑی بستیاں دیکھنے میں آئیں جو چھوٹے چھوٹے ڈربہ نما مکانوں پر مشتمل تھیں۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ ان میں کوئی دو منزلہ مکان نظر آئے مگر دو یا تین کے سوا کوئی دو منزلہ مکان دکھائی نہ دیا۔ ایک منزلہ چھوٹے چھوٹے مکان اگرچہ پختہ اور نئے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے لیے ’’مکان‘‘ کا لفظ ذہن میں سیٹ نہیں ہو رہا تھا۔ میزبان حضرات نے دریافت کرنے پر بتایا کہ یہ کالوں کی بستیاں ہیں اور ان کے یہ چھوٹے چھوٹے مکان آزادی کے بعد حکومت نے بنوائے ہیں ورنہ گوری حکومت کے دور میں یہ جھونپڑیوں میں رہتے تھے اور زندگی کی عام سی بنیادی سہولتیں بھی انہیں حاصل نہیں تھیں۔
یہاں علماء کرام کی سب سے بڑی تنظیم ’’جمعیۃ علماء جنوبی افریقہ‘‘ ہے جس کی سرگرمیوں کے بارے میں پہلے بھی متعدد بار ذکر کر چکا ہوں، خیال تھا کہ موقع ملا تو جمعیۃ کے راہنماؤں سے براہ راست مل کر معلومات حاصل کروں گا لیکن جنوبی افریقہ میں حاضری کے باوجود اس سفر میں وقت کی قلت کے باعث اس کا موقع نہ مل سکا اور سوائے مولانا محمد یونس پٹیل اور دیگر ایک دو حضرات کے کسی سے ملاقات و گفتگو نہ ہو سکی۔ البتہ مسلم جوڈیشیل کونسل کی سرگرمیاں دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ کونسل کا قیام ۱۹۴۵ء کے دوران ایک مصری عالم دین الشیخ احمد بہاء الدین کی مساعی سے عمل میں آیا، پھر انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے بزرگ الشیخ عیس روس نے اس کی سرگرمیوں اور دائرہ کار کو وسعت دی، اس کے بعد شیخ محمد نظیم کے دور میں اس نے مزید پیش رفت کی۔ شیخ نظیم کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوگیا ہے اور کیپ ٹاؤن کی ختم نبوت کانفرنس میں مختلف مقررین نے جس اندازِ محبت سے ان کا تذکرہ کیا اور ان کی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا اس سے ان کی خدمات اور مقام و حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ بالخصوص قادیانیت کے بارے میں ان کی مساعی کو بہت سراہا گیا اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جنوبی افریقہ کی عدالتِ عظمیٰ میں قادیانیت کے حوالہ سے چلنے والے کیس کے تذکرہ میں شیخ نظیم کا بار بار ذکر ہوا۔
آج کل الشیخ احسان ہمدرکس مسلم جوڈیشیل کونسل کے صدر اور مولانا عبد الخالق علی سیکرٹری جنرل ہیں۔ جبکہ علماء کرام کی مختلف تنظیموں اور حلقوں کا ایک مشترکہ فورم بھی ’’علماء اتحاد کونسل‘‘ کے نام سے موجود ہے جس کے سربراہ الشیخ جبریل ہیں، وہ بھی اس کانفرنس کے دوران خاصے متحرک رہے اور ان کا پرجوش خطاب اس محاذ پر کام کرنے والوں کے لیے بہت حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ مسلم جوڈیشیل کونسل کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کے باہمی تنازعات کے حوالہ سے اس کا طریق کار یہ ہے کہ تنازعہ کے دونوں فریق کونسل سے رابطہ قائم کرتے ہیں اور اس کے ہیڈ آفس میں باقاعدہ درخواست دیتے ہیں، ان میں زیادہ تر درخواستیں خاندانی جھگڑوں اور نکاح و طلاق کے تنازعات کے بارے میں ہوتی ہیں۔ کونسل کی طرف سے کچھ حضرات باقاعدہ طور پر مقرر ہیں جو درخواست موصول ہونے کے بعد فریقین سے رابطہ کر کے ان کی صلح کے لیے کوشش کرتے ہیں اور جس مقدمہ میں باہمی صلح نہ ہو سکے وہ باقاعدہ سماعت کے لیے کونسل کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ مسلم جوڈیشیل کونسل کے سیکرٹری جنرل الشیخ عبد الخالق علی نے بتایا کہ ہفتہ میں چار دن درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور جمعرات کے دن باقاعدہ عدالت لگتی ہے۔ اوسطاً ہفتے میں ۷۵ سے ۸۰ درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن میں سے بیشتر ابتدائی مرحلہ یعنی مصالحت و مفاہمت کی کوششوں کے ذریعے نمٹ جاتی ہیں۔ جبکہ اوسطا چار یا پانچ کیس اس مرحلہ میں طے نہیں ہو پاتے جن کی جمعرات کے دن کونسل کی عدالت میں باقاعدہ سماعت کی جاتی ہے۔ مسلم جوڈیشیل کونسل کی عدالت کے سربراہ ان دنوں مولانا محمد یوسف کران ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے پرانے فضلاء میں سے ہیں، ان سے ختم نبوت کانفرنس کے دوران ملاقات تو دو تین نشستوں میں ہوئی لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کہ ان سے عدالتی طریقہ کار اور جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کر سکوں۔
کیپ ٹاؤن آنے والے لوگ جنوبی افریقہ کے اس آخری کنارے کو دیکھنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں جہاں سے آگے سمندر ہی سمندر ہے اور بحرِ ہند کا بحرِ اوقیانوس سے ملاپ ہوتا ہے۔ ہم نے بھی ختم نبوت کانفرنس کے منتظمین سے دنیا کا یہ جنوبی کنارہ دیکھنے کی فرمائش کی چنانچہ ہمیں ایک قافلہ کی صورت میں وہاں لے جایا گیا اور ہم اس پہاڑی چوٹی تک پہنچے جہاں سے یہ منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ اس روز قدرے دھند تھی اس لیے منظر زیادہ واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا البتہ جن حضرات نے یہ منظر صاف ماحول میں دیکھ رکھا ہے انہوں نے بتایا کہ بحرِ ہند اور بحرِ اوقیانوس کے ملاپ کا منظر یہ ہے کہ دونوں سمندروں کے درمیان ایک لکیر دور تک دکھائی دیتی ہے۔ دونوں طرف کے پانی کا رنگ الگ الگ ہے اور کیفیت بھی الگ الگ ہے کہ ایک طرف پانی میں سکون کی حکمرانی ہے مگر دوسری طرف تموج کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ منظر دھند کی وجہ سے اچھی طرح نہ دیکھ سکنے پر مجھے بیس سال قبل کا واقعہ یاد آگیا جب امریکہ کے سفر کے موقع پر میں اپنے میزبان اور ہم زلف برادرم محمد یونس صاحب کے ہمراہ نیویارک کا آنجہانی ورلڈ ٹریڈ سنٹر دیکھنے گیا جو ایک سو گیارہ منزلوں پر مشتمل تھا، ایک سو ساتویں منزل پر عام لوگوں کے لیے تفریح گاہ بنائی گئی تھی جہاں جا کر سیاح لوگ آسمان اور زمین کے مناظر کا نظارہ کیا کرتے تھے۔ ہم جب اوپر جانے کے لیے ٹکٹ خریدنے گئے تو کاؤنٹر پر ٹکٹ فروخت کرنے والی خاتون نے ہمیں بتایا کہ اوپر جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لیے کہ بادل اس منزل سے نیچے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں اور آپ کو نیچے کا منظر دکھائی نہیں دے گا۔ ہم نے اس کے باوجود ٹکٹ خریدے اور تیز رفتار لفٹ کے ذریعے اوپر جا پہنچے مگر وہاں جا کر وہی کیفیت تھی جو اس خاتون نے بتائی تھی اور بادلوں کی وجہ سے ہم اتنی بلندی سے نیویارک اور اس کے اردگرد سمندر کا نظارہ نہیں کر سکے تھے۔
بہرحال کیپ ٹاؤن کی اس چوٹی پر پہنچے تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ مولانا محمد احمد لدھیانوی ’’ختم نبوتؐ زندہ باد‘‘ اور ’’ناموسِ صحابہؓ زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، مولانا محمد الیاس چنیوٹی دو رکعت نماز کے لیے قبلہ رخ دریافت کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں دنیا کے اس جنوبی کنارے کو بھی اپنے رب کے حضور عبادت کا گواہ بنانا چاہتا ہوں، علامہ خالد محمود صاحب کے فرزند انجینئر طارق محمود آیت الکرسی کا ورد کر رہے تھے اور میں چاروں طرف کے مناظر کو غور سے دیکھنے اور اردگرد لوگوں سے تفصیلات معلوم کرنے کے لیے بے چین تھا۔ اس چوٹی پر دنیا کے مختلف شہروں کی طرف تیر کے نشان دے کر ان کا رخ بتایا گیا ہے اور فاصلہ بھی لکھا ہوا ہے۔ نیویارک کا فاصلہ ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر درج ہے، میں یہ دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اسی بحرِ اوقیانوس کے دوسرے کنارے پر نیویارک واقع ہے۔ بیت المقدس کا فاصلہ سات اور آٹھ ہزار کلومیٹر کے درمیان بتایا گیا، میں نے کوشش کی کہ مکہ مکرمہ کا رخ اور فاصلہ بھی کہیں لکھا ہوا نظر آجائے لیکن وہ نہیں ملا۔
ختم نبوت کانفرنس ۲ نومبر کو ختم ہوگئی تھی، مجھے اور علامہ خالد محمود صاحب کو ۴ نومبر منگل کو جوہانسبرگ سے کراچی کے لیے واپس روانہ ہونا تھا، جنوبی افریقہ کے ایک اور اہم شہر ڈربن سے جو علماء کرام کانفرنس میں تشریف لائے ہوئے تھے ان کا اصرار تھا کہ ہم ڈربن بھی حاضری دیں لیکن درمیان میں صرف ایک دن تھا جو ہم جوہانسبرگ میں گزارنا چاہتے تھے۔ میں نے سفر پر روانہ ہونے سے قبل گکھڑ میں والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے اس سفر کا ذکر کیا تو انہوں نے بطور خاص پوچھا کہ دارالعلوم زکریا بھی جاؤ گے اور مفتی شبیر صاحب سے بھی ملو گے؟ میں نے عرض کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور جاؤں گا۔ والد محترم مدظلہ دو بار جنوبی افریقہ کا سفر کر چکے ہیں، انہوں نے جس انداز سے دارالعلوم زکریا کا ذکر کیا اس سے میں نے اپنی ذمہ داری قرار دے لیا کہ اور کہیں جا سکوں یا نہیں وہاں ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ ڈربن والے دوستوں سے معذرت کرنا پڑی البتہ وفد کے باقی حضرات ڈربن چلے گئے جبکہ علامہ خالد محمود صاحب اور راقم الحروف تین نومبر کو جوہانسبرگ پہنچ گئے۔
جوہانسبرگ ایئرپورٹ سے ہمیں دارالعلوم زکریا ہی کے احباب نے وصول کیا لیکن پہلے ہم اسپرنگ کے علاقہ میں گئے جہاں مولانا مفتی محمد اسماعیل صاحب نے جامعہ محمودیہ کے نام سے درسگاہ قائم کر رکھی ہے۔ مفتی صاحب گزشتہ سال گوجرانوالہ تشریف لا چکے ہیں اور حضرت والد محترم مدظلہ سے ملاقات کے لیے میں ان کے ساتھ گکھڑ گیا تھا، ان کا علمی اور تدریسی ذوق دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ انگریزی میں قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہے ہیں اور اپنے اکابر کی مختلف تفاسیر کے ساتھ ساتھ قدیمی تفاسیر کا بغور مطالعہ کر کے ان سب کے افادات کو انگریزی میں مرتب کر رہے ہیں۔ ہم جتنی دیر وہاں رہے وہ مختلف تفسیری نکات اور اشکالات پر حضرت علامہ صاحب سے محو گفتگو رہے حتیٰ کہ دوسرے دن جب ہم واپس جا رہے تھے توہ کتابیں لے کر ایئرپورٹ پہنچ گئے اور وہاں بھی متعدد مسائل پر انہوں نے علامہ صاحب سے بات کی۔ ہم نے عصر کی نماز جامعہ محمودیہ میں ادا کی اور نماز کے بعد اساتذہ اور طلبہ سے علامہ صاحب نے مختصر خطاب کیا اور اس کے بعد دارالعلوم زکریا جوہانسبرگ کی طرف روانہ ہوگئے۔ رات کو وہیں قیام تھا اور عشاء کے بعد باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے حضرت علامہ خالد محمود صاحب اور راقم الحروف نے تفصیلی خطاب کیا۔ یہاں بنگلہ دیش کی طرح دینی درسگاہوں میں اردو کا ماحول باقی رکھا گیا ہے، طلبہ کو باقاعدہ اردو پڑھائی جاتی ہے اور تدریس کا ایک بڑا حصہ اردو زبان میں ہوتا ہے۔ ایسا اہتمام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ہمارے اکابر کا بیشتر دینی و علمی لٹریچر اردو میں ہے اور ہم اپنی نئی نسل کو اپنے اکابر سے لاتعلق نہیں کر سکتے اس لیے اردو کو اپنے ماحول اور بول چال میں باقی رکھنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے طلبہ اور اساتذہ سے اردو میں خطاب کیا اور خاص طور پر دارالعلوم زکریا میں ہمیں قطعاً یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں خطاب کر رہے ہیں۔
دارالعلوم زکریا جوہانسبرگ شہر سے کچھ فاصلے پر ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس اللہ سرہ العزیز کی نسبت سے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے بانی اور مہتمم مولانا مفتی شبیر احمد سالوجی ہیں جو جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فضلاء میں سے ہیں، ان سے میری ملاقات ان کے کراچی کے قیام کے دوران بھی رہی ہے اور وہ حضرت والد محترم مدظلہ سے ملاقات کے لیے گکھڑ میں ایک سے زیادہ بار تشریف لا چکے ہیں۔
۴ نومبر کو صبح ہم آزاد ویل کے علاقہ میں گئے جہاں مولانا عبد الحمید صاحب کا قائم کردہ بڑا دینی جامعہ ہے۔ یہ مدرسہ غالباً سب سے بڑا مدرسہ ہے جس کی خوبصورت عمارت اور تعلیمی چہل پہل متاثرکن ہے۔ مولانا عبد الحمید صاحب حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب مدظلہ کے خلفاء میں سے ہیں اور جنوبی افریقہ میں علمی و روحانی سرگرمیوں کی بہار انہوں نے قائم کر رکھی ہے۔ جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا فضل الرحمان اعظمی سے ملاقات ہوئی جو برصغیر کے نامور محدث حضرت مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور مختصر محفل میں ان کی گفتگو اور ان کے بعض علمی رسائل سے اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنے عظیم استاذ سے علمی اور تحقیقی ذوق کا وافر حصہ پایا ہے۔ علمِ حدیث بالخصوص رجالِ حدیث پر حضرت مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ کے علمی کام کو برصغیر کے علاوہ عرب دنیا میں بھی قدر و منزلت حاصل ہے اور عرب دنیا میں وہ برصغیر کے علماء حق کی مستند پہچان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جامعہ کے منتہی طلبہ کی ایک نشست سے حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے خطاب کیا اور اساتذہ و طلبہ کو قیمتی نصائح سے نوازا۔
اس کے بعد ہم نے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہونا تھا مگر معلوم ہوا کہ فقیہ الہند حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی قبر جوہانسبرگ میں ہے اور ایئرپورٹ جاتے ہوئے وہاں حاضری دی جا سکتی ہے تو میں نے فرمائش کر دی کہ ہم اس مردِ درویش کی قبر پر حاضری دینا چاہتے ہیں چنانچہ ہم قبرستان پہنچے۔ ایک بڑے قبرستان کے کونے پر مسلمانوں کے لیے الگ قبروں کی جگہ مخصوص ہے جہاں چند قبروں کے درمیان ایک قبر حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کی بھی ہے۔ وہاں ہم نے دعا کی اور جوہانسبرگ ہی کے ایک اور بزرگ بھائی احمد لمبات کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے، وہ جنوبی افریقہ کے پرانے وکلاء میں سے ہیں، اب بزرگی کی عمر میں اللہ اللہ میں مصروف رہتے ہیں اور ان کا زیادہ وقت سعودی عرب میں گزرتا ہے۔ جدہ میں میرے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد صاحب کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات ہیں، قاری صاحب نے سعودی عرب سے بطور خاص مجھے فون پر کہا کہ بھائی احمد صاحب کے ہاں آپ نے ضرور جانا ہے۔ جبکہ دارالعلوم زکریا کے رات کے اجلاس میں احمد صاحب خود بھی تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میرے ہاں آپ لوگ ضرور آئیں خواہ دس منٹ کے لیے آئیں۔ چنانچہ ہم حاضر ہوئے، انہوں نے زم زم اور تمر مدینہ سے ہماری تواضع کی کہ ناشتہ ہم کر آئے تھے اور چائے کی گنجائش نہیں تھی۔ وہاں سے ہم جوہانسبرگ کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے جہاں جامعہ محمودیہ کے مولانا مفتی محمد اسماعیل اپنے علمی اشکالات لیے کتابوں سمیت موجود تھے۔ تھوڑی دیر ان سے گفتگو ہوئی اور پھر ہم مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے طیارے میں سوار ہوگئے۔ الامارات کی فلائٹ تھی، راستہ میں کچھ دیر دبئی میں اسٹاپ تھا۔ ہم نے ظہر کے لگ بھگ جوہانسبرگ سے پرواز کی اور دبئی میں طیارہ تبدیل کرتے ہوئے جب کراچی اترے تو فجر کی اذانوں کی شروعات ہو چکی تھی۔
کراچی ایئرپورٹ سے ہم جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں حاضر ہوئے، فجر کی نماز کے بعد علامہ صاحب نے جامعہ انوار القرآن کی تخصص فی الفقہ کی کلاس سے مختصر خطاب فرمایا اور بعض دوستوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ انہوں نے اس روز لاہور جانا تھا جبکہ میں نے جامعہ انوار القرآن سے دارالعلوم کراچی جانا تھا جس کا پہلے سے وعدہ کر رکھا تھا، وہاں حاضری دی اور قیوم آباد میں بنات کے ایک مدرسہ میں بخاری شریف کا پہلا سبق پڑھا کر واپسی کی اور نصف شب کے قریب گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔