منافقین کے خلاف جہاد کی نبویؐ حکمت عملی

   
آسٹریلیا مسجد، لاہور
۱۹ دسمبر ۲۰۱۵ء

(پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام سیرت کانفرنس سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالہ سے ایک پہلو پر آج چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ’’یا ایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم‘‘ اے نبیؐ! کافروں اور منافقین کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ کے دس سالہ دور میں کافروں کے خلاف مسلسل جہاد کیا۔ طبقاتِ ابن سعدؒ کی روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تعداد ستائیس ۲۷ ہے جو دس سال کے اندر ہوئے اور سارے جہاد کفار کے خلاف تھے۔ جبکہ یہ بات غور طلب ہے کہ منافقین کے خلاف کون سا جہاد ہوا؟ اس لیے کہ دس سالہ مدنی دور میں منافقوں کے خلاف ایک بار بھی ہتھیار نہیں اٹھایا گیا، وہ مدینہ منورہ میں رہے اور سارے معاملات میں شریک رہے، شرارتیں بھی کرتے رہے اور بڑے بڑے فتنے انہوں نے کھڑے کیے مگر ایک بار بھی ان کے خلاف تلوار استعمال نہیں ہوئی، حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سرکردہ منافقوں کو قتل کرنے کی اجازت مانگی گئی مگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

منافقوں نے اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف جو بڑی بڑی حرکتیں اور شرارتیں کیں ان میں سے چند کا ذکر کروں گا:

غزوۂ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کا لشکر لے کر احد کے دامن میں آئے تھے جن میں سے تین سو افراد رئیس المنافقین عبد اللہ بن أبی کی سربراہی میں میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ یہ صریح غداری تھی اور وفاداری سے انحراف تھا۔ بعد میں وہ میدان احد میں مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات پر طعنے بھی دیتے رہے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ غزوۂ احد سے فارغ ہونے کے بعد خود مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے اس بات کی تحریک کی کہ میدان احد سے واپس آجانے والے ان منافقوں کے خلاف جنگ لڑنی چاہئے، اور جب اس پر باہمی اختلاف رائے ہو گیا تو قرآن کریم نے یہ فرما کر اسی جنگ سے روک دیا کہ ’’فما لکم فی المنافقین فئتین‘‘ تم منافقین کے بارے میں دو گروہوں میں کیوں بٹ گئے ہو؟ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ نے منافقین کی حرکات کا قرآن میں تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا، ان کی مذمت بھی کی مگر مسلمانوں کو ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر قذف و تہمت کے حوالہ سے عبد اللہ بن أبی اور دیگر منافقین کا طرز عمل سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ایک ماہ تک مدینہ منورہ میں فتنہ بپا کیے رکھا، خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی آنے تک پریشانی کا شکار رہے، مسجد نبویؐ میں اس مسئلہ پر صحابہ کرامؓ میں جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ قرآن کریم میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی پاکدامنی کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کی مذمت کی مگر ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے گئے، حتیٰ کہ حضرت سعد بن معاذؓ نے کھلے اجتماع میں عبد اللہ بن أبی کو قتل کر دینے کی بات کی مگر اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایک موقع پر عبد اللہ بن أبی اور اس کے چند ساتھیوں نے سفر کے دوران مہاجرین کے خلاف باتیں کیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ اب مدینہ منورہ واپس پہنچنے پر ”لیخرجن الأعز منہا الأذل“ ہم میں سے جو طاقتور ہو گا وہ دوسروں کو مدینہ منورہ سے نکال دے گا۔ حضرت زید بن ارقمؓ یہ باتیں سن رہے تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو طلب کرنے پر منافقین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی قسمیں کھائیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ارقمؓ کو ڈانٹ دیا اور ان کی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جس پر قرآن کریم میں سورۃ المنافقون نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ منافقوں کی قسمیں جھوٹی ہیں اور زید بن ارقمؓ نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے۔

چند شرارتیں ہیں جو میں نے ذکر کی ہیں جبکہ مدینہ منورہ میں منافقوں نے مسلسل شرارتوں اور فتنوں کا ماحول مسلسل قائم رکھا حتیٰ کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر ایک جگہ چودہ منافقین گھات لگائے کھڑے تھے جنہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہاں سے گزرنے پر ان کو شہید کرنے کے ارادے سے گھیر لیا، انہوں نے اپنے منہ لپیٹ رکھے تھے، وہ اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو پہچان لیا، وہ سب کے سب مدینہ منورہ میں رہنے والے منافقین تھے، ان کے نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی حضرت حذیفہؓ کو اس شرط کے ساتھ بتا دیے کہ وہ کسی اور کو اس سے آگاہ نہیں کریں گے۔ چنانچہ حضرت حذیفہؓ نے ان ناموں کو مرتے دم تک راز میں رکھا جس کی وجہ سے وہ ”صاحب سرِ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدار کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔

اس قسم کی حرکتوں پر بعض منافقوں بالخصوص عبد اللہ بن ابی کو قتل کرنے کی اجازت مانگی گئی اور اجازت مانگنے والوں میں حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ بھی شامل ہیں، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دینے سے انکار فرما دیا، اور اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ ”اس طرح لوگ یہ کہیں گے کہ محمدؐ نے اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔“

ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم میں منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کے صریح حکم کے باوجود عملی صورت حال یہ رہی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور نہ ہی ان میں سے کسی کو قتل کرنے کی اجازت دی حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے گھیر لینے والے چودہ منافقوں کے ناموں کو بھی خفیہ رکھا جن کا حضرت حذیفہؓ کے سوا کسی کو پتہ نہیں چل سکا۔

یہ وہ کلمہ گو کافر ہیں جنہیں خود قرآن کریم نے کافر قرار دیا ہے، ہم ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں تو اس کی بنیاد کسی استدلال و استنباط پر ہوتی ہے جس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے لیکن ان کلمہ گو منافقوں کو قرآن کریم نے ”وماہم بمؤمنین“ اور ”انہم الکاذبون“ کہہ کر کافر قرار دیا ہے لیکن انہیں قتل کرنے اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی، اس لیے کہ وہ کافر ہونے کے باوجود ”کلمہ گو“ تھے۔

سوال یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمہ گو کافروں کے خلاف جنگ نہیں لڑی اور ان میں سے کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی تو منافقوں کے خلاف جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کے اس حکم کا کیا ہوا جو قرآن کریم میں آج بھی موجود ہے؟ کیا یہ سوچا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآنی حکم پر عمل نہیں کیا؟ ایسا نہیں ہے بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم پر پورا عمل کیا ہے، منافقوں کے خلاف بھی جہاد کیا ہے لیکن وہ جہاد تلوار کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا تھا جس کے نتیجے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی یہ منافقین ختم ہو گئے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان منافقوں کا تاریخ میں کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ حکمت عملی کا جہاد کیا تھا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں پہلی بات تو وہی ہے جو میں نے ذکر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو یہ تاثر اور پیغام نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں اس لیے کہ اس سے اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور باقی دنیا کے سامنے مسلمانوں کا تعارف صحیح نہیں رہتا۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ منافقین کا یہ گروہ مدینہ منورہ میں اپنا ایک تشخص قائم نہ کر سکے۔ اس کا امکان سب سے پہلے غزوہ احد کے موقع پر پیدا ہوا تھا جب منافقین تین سو کی تعداد میں الگ ہو گئے تھے، ایک ہزار میں سے تین سو کا الگ ہو جانا ان کی طرف سے قوت کا اظہار بھی تھا اور اپنے الگ تشخص کی علامت بھی تھی۔ اگر اس موقع پر ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جاتے تو مدینہ منور کے اندر ایک مستقل محاذ قائم ہو جاتا اور مسلم سوسائٹی لوگوں کی نظروں میں دو حصوں میں بٹ جاتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال سے بچنے کے لیے ان کی اتنی بڑی حرکت کو نظر انداز کر دیا اور ان کے خلاف کوئی عملی کاروائی نہیں کی گویا ان کے اس وار کو ناکام بنا دیا۔ دوسرا موقع ”مسجد ضرار“ کی تعمیر کا تھا یہ بھی منافقین کی طرف سے اپنے الگ تشخص کے اظہار کی کوشش تھی جسے قرآن کریم نے ”کفرا و تفریقا بین المؤمنین وارصادا لمن حارب اللّٰہ ورسولہ“ سے تعبیر کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت عملی سے یہ مسجد تو ختم کر دی مگر ان منافقین کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے کر ان کے الگ تشخص اور گروہ بندی کے امکانات بھی ناکام بنا دیے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد جس طرح تلوار سے ہوتا ہے حکمت عملی سے بھی ہوتا ہے، جہاں تلوار کی ضرورت ہے وہاں ہتھیار اٹھانا جہاد ہے اور جہاں حکمت عملی کی ضرورت ہے وہاں حکمت و دانش سے کام لینا اور ہتھیار نہ اٹھا نا بھی جہاد ہی کا تقاضہ ہوتا ہے۔ آج کے دور میں اور دنیا کے موجودہ حالات میں اس حکمت نبویؐ کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ جنوری ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter