جدید دور میں عورت کے لیے زندگی کا حق

   
۱۱ ستمبر ۲۰۰۸ء

بلوچستان میں پانچ عورتوں کو زندہ دفن کر دیا گیا ہے اور اسے قبائلی روایات کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں اس کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس سلسلہ میں مسلسل متحرک ہیں۔ سینٹ آف پاکستان نے بھی مذمت کی قرارداد منظور کی ہے اور اس سانحہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات تو انکوائری کی رپورٹ سامنے آنے پر ہی معلوم ہوں گی لیکن کسی انسان کی روح کو لرزا دینے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ پانچ عورتوں کو ایک قبائلی رسم کی بھینٹ چڑھا کر زندگی کے حق سے محروم کر دیا گیا اور پھر ایک گڑھے میں دبا کر ان پر زمین برابر کر دی گئی۔

جاہلیت کے دور میں عرب معاشرے میں بھی بعض قبائل اس انسان سوز رسم پر عمل پیرا تھے جس کی قرآن کریم نے مذمت کی ہے۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قبائلی روایات کو اپنی تئیس سالہ جانگسل جدوجہد کے ساتھ عرب معاشرے سے عملاً ختم کیا تھا ان میں ایک مذموم روایت اور رسم بد یہ بھی تھی، حتیٰ کہ ’’دیوانِ حماسہ‘‘ میں ایک شاعر کے کلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک عرب سردار سے کسی نے لڑکی کا رشتہ مانگا تو اس نے انکار کرتے ہوئے اپنے شاعرانہ جواب میں یہ مصرع کہا کہ ’’جب سے یہ نبی کھڑا ہوا ہے، ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوگئی ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں نبی کریمؐ کی دعوت و تبلیغ کے باعث لڑکیوں کی کثرت ہوگئی ہے اس لیے رشتے کے لیے میری طرف مت دیکھو۔ اس طرح جناب رسول اللہؐ کا تاریخ میں ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ آپؐ عورتوں کو زندگی کا حق دلوانے والے نبی ہیں۔

عرب جاہلیت میں عورت نفرت اور حقارت کا عنوان تھی، لڑکی کی ولادت کو شرمندگی کی علامت سمجھا اور بوجھ تصور کیا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے سورۃ النحل آیت ۵۷ تا ۵۹ میں اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ ’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی ولادت کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور اس کا دم غصے سے گھٹنے لگتا ہے، وہ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا اسے مٹی میں دبا دے‘‘۔ مشرکینِ عرب کا عقیدہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ قرآن کریم نے اس پر طعن کرتے ہوئے سورۃ النجم آیت ۲۱ و ۲۲ میں کہا کہ اپنے لیے تو تم بیٹیاں پسند نہیں کرتے مگر خدا کے کھاتے میں تم نے بیٹیاں ڈال رکھی ہیں، یہ کتنی بری تقسیم تم نے کی ہے۔ لڑکیوں کو باعث عار ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بوجھ بھی تصور کیا جاتا تھا کہ ساری زندگی ان کو کھلانا پڑے گا اس لیے انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کرنے میں عافیت سمجھی جاتی تھی۔ قرآن کریم نے سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کو فاقے کے خوف سے قتل مت کرو اس لیے کہ تمہیں بھی ہم رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی ہم ہی رزق دیتے ہیں‘‘۔

ایک شخص جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا اسلام قبول کرنے سے میرے جاہلیت کے دور کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اسلام کا ضابطہ یہی ہے کہ کوئی کافر اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائے تو اس کے کفر کے دور کے سب کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنے ہاتھوں اپنی آٹھ بیٹیاں زندہ دفن کی ہیں، پھر اس نے سب سے آخری بیٹی کو دفن کرنے کا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ اس نے کہا کہ میں سفر پر روانہ ہو رہا تھا اور میری بیوی اس وقت حاملہ تھی، میں نے سال دو سال کے بعد واپس آنا تھا، بیوی کو وصیت کی کہ اگر اس حمل سے لڑکا پیدا ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ لڑکی کی صورت میں اسے زمین میں دبا دینا تاکہ میں واپسی پر اس کی شکل نہ دیکھوں۔ خدا کی قدرت کہ میرے چلے جانے کے بعد لڑکی پیدا ہوگئی مگر ماں کا حوصلہ نہ ہوا کہ وہ اسے زندہ دفن کر دے۔ وہ بچی گھر میں پلتی رہی، کچھ عرصہ بعد میں واپس آیا تو ایک بچی کو گھر میں کھیلتے دیکھا، بیوی پوچھا تو اس نے کہا کہ رشتہ داروں کی بچی ہے اور پھر اسے کسی رشتہ دار کے ہاں بھجوا دیا، مجھے بتایا کہ تمہاری بچی پیدا ہوئی تھی جو میں نے زندہ دفن کر دی تھی۔ میں مطمئن ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر کسی سفر پر گیا اور اچانک واپس آیا تو اس بچی کو پھر گھر کے صحن میں دیکھا۔ مجھے شک ہوا، میں نے بیوی سے سختی سے پوچھا تو اس نے اصل بات بتا دی کہ یہ تمہاری ہی بچی ہے میرا حوصلہ نہیں ہوا تھا کہ اسے زندہ درگور کر سکوں۔ میں نے کہا کہ خیر ہے کوئی بات نہیں اور پھر میں نے خاموشی اختیار کر لی مگر موقع کی تاک میں رہا۔ بچی تین چار سال کی ہوگئی تو میں نے بیوی سے کہا کہ اے تیار کر دو میں اسے میلہ دکھانے ساتھ لے جاؤں گا، اس نے بچی کو تیار کر دیا۔ میں اسے لے کر جنگل میں گیا اور ایک گڑھا کھود کر اسے اس میں بٹھا دیا اور اوپر سے مٹی ڈالنے لگا۔ وہ معصوم اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے میری داڑھی کی مٹی جھاڑتی تھی اور توتلی زبان کے ساتھ مجھ سے پوچھتی تھی کہ ابو یہ آپ کیا کر رہے ہیں اور مجھے میلہ دکھانے کیوں نہیں لے جا رہے، اس مرحلے میرا دل کچھ پسیجا مگر اپنے اوپر جبر کر کے میں نے اسے دفن کر ہی دیا۔

یہ قصہ سنا کر اس شخص نے پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا میرے سب گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، آپؐ نے فرمایا، تم نے بہت ظلم کیا ہے مگر ضابطہ یہی ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پچھلے گناہ سب معاف ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کی داستانیں اس معاشرے میں عام تھیں اور عورت کی زندگی کا حق بہت سے قبائل کی روایات کی بھینٹ چڑھا ہوا تھا۔ لیکن بعض نیک دل لوگ بھی ہوتے تھے جو ایسی بچیوں کو بچانے کی کوشش کرتے تھے اور نیکی کماتے تھے۔ ایک صاحب کا قصہ ہے جو غالباً مشہور عرب شاعر فرزدق کے دادا تھے۔ وہ اپنے کسی گم شدہ اونٹ کی تلاش میں تھے کہ ایک جگہ خیمہ نظر آیا، قریب گئے تو ایک خاندان اس میں قیام پذیر تھا۔ اندر خواتین تھیں اور غالباً کسی عورت کے ہاں بچہ ہونے والا تھا اور اس کا خاوند خیمے سے باہر لکڑی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ میں جب قریب گیا تو اس شخص کو یہ کہتے سنا کہ اگر لڑکا ہوا تو مجھے خوشخبری دینا اور اگر لڑکی ہوئی تو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے پچھلے دروازے سے لے جا کر اسے زمین میں دبا دینا۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ میں بھی پاس بیٹھ گیا، تھوڑی دیر کے بعد اندر سے آواز آئی کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ اس نے زور سے کہا کہ مجھے مت دکھاؤ پیچھے سے لے جا کر زمین میں دبا دو۔ میں نے اس سے کہا کہ اس معصوم بچی کو نہ مارو بلکہ ایک اونٹ کے عوض مجھے دے دو۔ اس نے وہ بچی اونٹ کے عوض مجھے دے دی اور میں اسے گھر لے آیا۔ پھر میں نے اپنی عادت بنا لی کہ جہاں بھی مجھے معلوم ہوتا کہ بچی پیدا ہوئی ہے اور گھر والے اسے دفن کرنا چاہتے ہیں تو میں فورًا وہاں پہنچتا اور ایک اونٹ کے عوض اسے لے لیتا۔ ان صاحب کے بارے میں تاریخی روایات میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا دور آنے تک تین سو کے لگ بھگ بچیاں اسی طرح لوگوں سے لے کر پالی تھیں اور ان کی پرورش کرنے کے بعد ان کی شادیاں کی تھیں۔ سوسائٹی میں ایسے رحم دل لوگ بھی موجود تھے لیکن لڑکی کی پیدائش عام طور پر شرمساری کا باعث اور زندگی بھر کا بوجھ سمجھی جاتی تھی اور اسے بچپن میں زندہ درگور کر دینے کو ہی بہتر تصور کیا جاتا تھا۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسمِ بد کی نہ صرف یہ کہ مذمت کی اور اسے سختی کے ساتھ روکا بلکہ اپنے عمل کے ساتھ بھی بتایا کہ بچی شفقت اور پیار کی مستحق ہے اور عورت کو بھی زندگی کا اسی طرح حق حاصل ہے جس طرح مرد کو ہے۔ آپؐ نے اپنی چار بیٹیوں کی محبت اور شفقت کے ساتھ پرورش کر کے دنیا کو سبق دیا کہ بچیوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ نبی اکرمؐ کی نواسی امامہ اور ام المؤمنین ام سلمہؓ کی پہلے خاوند سے بیٹی زینبؓ نے بھی رسول اکرمؐ کی گود میں پرورش پائی ہے۔ آپؐ نے دنیا کو اپنے عمل کے ساتھ بتایا کہ لڑکی نہ عار کی چیز ہے اور نہ ہی بوجھ کا باعث ہے۔

مگر آج کی دنیا پھر جاہلیت کی طرف پلٹتی نظر آرہی ہے اور یہ صرف بلوچستان کے بعض قبائل کی روایت کے طور پر نہیں ہے بلکہ مغرب کی مہذب دنیا بھی اسی ذہنیت کا شکار ہے۔ ہزاروں حمل صرف اس لیے ماؤں کے پیٹ میں ختم کر دیے جاتے ہیں کہ ان کی پرورش کون کرے گا؟ حضورؐ نے اسقاطِ حمل کو قتل سے تعبیر کیا ہے۔ پاپائے روم بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں مگر مغربی دنیا میں اسے عورت کا حق قرار دینے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پھر مغرب کا اسقاطِ حمل تو لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے یکساں ہے مگر ہمارے پڑوس بھارت میں یہ اسقاطِ حمل صرف اس لیے ہوتا ہے کہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے معلوم کر لیا جاتا ہے کہ پیدا ہونے والی بچی ہے اس لیے اسے پیٹ میں ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے ماں کے پیٹ میں بچے یا بچی کے بارے میں معلوم کر لینا سائنس کے کمالات میں سے ہے مگر بھارت میں یہ لڑکیوں کے لیے عذاب کا باعث بن گیا ہے کہ بھارتی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب ایسے اسقاطِ حمل کے واقعات کی تعداد سالانہ لاکھوں تک جا پہنچی ہے جن میں الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے یہ معلوم ہو جانے پر حمل ساقط کرا دیا جاتا ہے کہ بچی جنم لینے والی ہے۔ اس خطرناک اور عورت دشمن رجحان کو روکنے کے لیے اب وہاں کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کیے جا رہے ہیں۔

عورت آج پھر زندگی کے حق سے محروم ہو رہی ہے، بلوچستان میں بھی، بھارت میں بھی اور مغربی دنیا میں بھی، صرف طریق کار مختلف ہے۔ اس لیے اگر عورت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی این جی اوز بلوچستان میں پانچ عورتوں کے اس وحشیانہ قتل کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں، اس ظلم کی تلافی کے ساتھ ساتھ عورت کی جان اور حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہیں اور سینٹ آف پاکستان اور حکومت پاکستان بھی اس کے لیے سنجیدہ اور متحرک ہوگئی ہیں تو یہ بہت خوشی اور اطمینان کی بات ہے، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ البتہ اس موقع پر بلوچستان میں زندہ دفن کی جانے والی عورتوں کے بارے میں جائز طور پر آواز اٹھانے والی این جی اوز، سینٹ آف پاکستان اور حکومتِ پاکستان سے ہم یہ سوال کرنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ ایک سال قبل اسلام آباد کے جامعہ حفصہ میں زندہ جلائی جانے والی بچیاں بھی تو عورت کی صنف سے ہی تعلق رکھتی تھیں۔ کیا آگ میں زندہ بھسم کر دی جانے والی ان معصوم بچیوں کی داد رسی کے لیے بھی کوئی حکومت، کوئی سینٹ اور کوئی این جی او آواز اٹھانے کے لیے تیار ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter