عالم اسلام پر مغربی فکر کی یلغار اور علماء کرام کی ذمہ داری

   
ہڈرزفیلڈ، انگلینڈ
۲ اگست ۱۹۹۲ء

(۲ اگست ۱۹۹۲ء کو ہڈرزفیلڈ، انگلینڈ میں جمعیۃ علماء برطانیہ کی ساتویں سالانہ کانفرنس سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔

رکھیو غالب! مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

حضرت الامیر، قابل صد احترام علماء کرام اور محترم بزرگو اور ساتھیو! سب سے پہلے جمعیت علماء برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس کانفرنس میں حاضری اور آپ حضرات سے گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ جمعیت کے راہنماؤں کو جزائے خیر دیں اور کچھ مقصد کی باتیں عرض کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین۔ میری گفتگو کا عنوان ہے: ’’عالم اسلام پر مغربی فکر کی یلغار اور علماء کرام کی ذمہ داری‘‘۔ یہ عنوان خود میرا تجویز کردہ ہے اور آج کی اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عنوان کے تحت کچھ تلخ گزارشات آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں اور اسی لیے غالب مرحوم کا شعر بطور معذرت ابتدا میں آپ کی نذر کیا ہے۔ حضرات محترم! اس عنوان کے تحت بنیادی طور پر چار امور غور طلب ہیں:

  1. ایک یہ کہ مغربی فکر کیا ہے؟
  2. دوسرا یہ کہ مغربی فکر کے عالم اسلام پر اثرات کیا ہیں؟
  3. تیسرا یہ کہ اس کے مقابلہ میں ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ کہاں تک مؤثر ہے؟
  4. اور چوتھا یہ کہ مسلمانوں کو اس مغربی فکر کے حصار سے نکالنے کے لیے علماء کرام پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

جہاں تک مغربی فکر اور فلسفہ کا تعلق ہے، اس کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یورپ میں بادشاہت، جاگیرداری اور کلیسا کے مظالم کے خلاف یہاں کے عوام کی بغاوت اور صنعتی انقلاب کے ساتھ اس فکر کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انقلاب فرانس اس کا نقطہ آغاز ہے جو بادشاہت کے خلاف تھا اور اس انقلاب سے ہی یورپ میں جمہوری دور شروع ہوا۔ کلیسا نے اس کشمکش میں جاگیرداری اور بادشاہت کا ساتھ دیا اور صنعت و سائنس کی ایجادات و انکشافات سے انکار کی راہ اختیار کی، اس لیے بادشاہت کے ساتھ ساتھ پورے یورپ میں کلیسا کے اقتدار کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا۔ بائبل کی صرف وہ باتیں قابل توجہ قرار پائیں جن کا تعلق اعتقادات، عبادات اور شخصی اخلاق سے ہے۔ جبکہ سیاست، معاشرت، معیشت، قانون اور نظم و نسق سمیت انسانی زندگی کے تمام اجتماعی شعبوں سے مذہب، بائبل، کلیسا اور پادری کو کلیتاً بے دخل کر دیا گیا۔ یہ ہے مغربی فکر اور فلسفہ جس کی بنیاد انسانی زندگی کے اجتماعی شعبوں سے مذہب کی مکمل لاتعلقی پر ہے اور اسے سیاسی زبان میں سیکولر ازم کہا جاتا ہے جو آج عالم اسلام میں بھی دین اور دینی قوتوں کے خلاف صف آرا ہے۔

آپ حضرات برطانیہ میں رہتے ہیں اور اجتماعی زندگی کی مذہب سے لاتعلقی کے نتائج و ثمرات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ابھی مولانا عبد الرشید ربانی نے اپنے خطاب میں بتایا ہے کہ برطانیہ میں جو چرچ خرید کر مساجد میں تبدیل کیے گئے ہیں، ان کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ یہاں کے عام آدمی کا مذہب کے ساتھ کوئی عملی تعلق باقی نہیں رہا، چرچ فروخت ہو رہے ہیں اور پادری کا کردار دن بدن محدود ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ جس مذہب کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق باقی نہ رہے، وہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔

اب آئیے ان اثرات کا جائزہ لیں جو گزشتہ دو سو سالہ استعماری تسلط کے دوران اس فکر و فلسفہ کے حوالہ سے عالم اسلام پر مرتب ہوئے ہیں۔ عالم اسلام کے بیشتر ممالک ایک عرصہ تک مغربی ممالک کے زیر تسلط رہے ہیں۔ کچھ پر برطانیہ کا قبضہ رہا ہے، کچھ فرانس کے زیرنگیں تھے، اور کچھ پر ولندیزیوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ اس دوران ان قوتوں نے ہماری پوری طرح برین واشنگ کی ہے اور ہمیں ہمارے ماضی سے کاٹنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی جیسے فتنے کھڑے کیے گئے، جہاد اور خلافت کے تصور کو مسلمانوں کے ذہنوں سے محو کرنے کے لیے منظم محنت کی گئی۔ علماء اسلام نے ان فتنوں کا مقابلہ کیا اور ان کو ناکام بنانے کے پورے جتن کیے، لیکن آج نتائج کے اعتبار سے جب دیکھتے ہیں تو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ استعماری قوتیں اپنے مقاصد میں بہت حد تک کامیاب رہی ہیں:

  • ہم نے مرزا غلام احمد قادیانی کے فتنہ کا مقابلہ کیا، اسے کافر قرار دیا، اس کے گمراہ کن عقائد کی تردید کی اور اس گروہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں کامیابی حاصل کی، لیکن اس کی جھوٹی نبوت کا بنیادی مقصد جہاد کی مخالفت تھا۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اس کا مشن کامیاب نظر آتا ہے کہ آج ہماری اجتماعی زندگی میں جہاد کا تصور نہیں ہے۔ وہ تو افغان مجاہدین کو دعائیں دیں کہ انہوں نے ہزاروں جانوں کی قربانی سے جہاد کے عمل کو عالم اسلام میں دوبارہ زندہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاد کے احیا کا ذریعہ بنا دیا، ورنہ جہاد اور خلافت کے تصور کو ہمارے ذہنوں اور اجتماعی زندگی سے نکالنے میں استعماری قوتیں اپنی حد تک کامیاب رہی ہیں۔
  • اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد خلافت پر ہے، لیکن ہم میں سے کوئی آج خلافت کے حوالہ سے بات نہیں کرتا، حتیٰ کہ علماء کرام کی زبان پر بھی جمہوری نظام کی باتیں ہیں اور خلافت و جہاد کا ذکر تک متروک ہو گیا ہے۔
  • ہم اسلامی نظام کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن اجتماعی زندگی میں مذہب کی عملداری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایک مسلمان ملک کی پارلیمنٹ قرآن و سنت کو بالاتر قانون تسلیم کرنے کا بل منظور کرتی ہے تو اس شرط کے ساتھ کہ اس سے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہیں ہوگا۔ سیکولرازم اسی کا نام ہے اور مغرب کا فکر و فلسفہ یہی ہے جو آج ہماری اجتماعی زندگی کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
  • حضرات گرامی قدر! اگر علماء کرام مجھے اس گستاخی پر معاف فرمائیں تو یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہماری دینی درسگاہوں میں بھی اسلام کے اجتماعی پہلوؤں پر بات نہیں ہوتی۔ دینی تعلیم کے حوالہ سے ہماری گفتگو اعتقادات، عبادات، اخلاقیات یا زیادہ سے زیادہ خاندانی معاشرت کے مسائل تک محدود رہتی ہے۔ ہم بخاری شریف پڑھاتے ہیں تو ہمارا سارا زور کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلوٰۃ کے مباحث میں صرف ہوتا ہے۔ بخاری میں کتاب البیوع بھی ہے، کتاب الجہاد بھی ہے، کتاب الامارۃ بھی ہے، کتاب المزارعۃ بھی ہے اور زندگی کے اجتماعی شعبوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے ابواب بھی ہیں، لیکن ہم ان ابواب سے یوں گزرتے ہیں جیسے یہ سب منسوخ ہو گئے ہیں۔

    ہم آج کے نظاموں سے ان ابواب کا تقابل نہیں کرتے اور اپنے تلامذہ کو یہ نہیں بتاتے کہ آج کی تجارت میں اور اسلامی تجارت میں کیا فرق ہے اور آج کے جنگی اصولوں اور جہاد میں کیا فرق ہے۔ مجھے اس دکھ کا اظہار کرنے کی اجازت دیجیے کہ ہم بخاری اور ترمذی پڑھاتے ہوئے ایک ایک مسئلہ پر چھ چھ دن بحث کرتے ہیں اور دلائل کا انبار لگاتے ہیں، آخر میں نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہی کہ یہ اولٰی ہے اور وہ غیر اولٰی ہے، جبکہ سیکولر دانشور ہمیں سود کا متبادل پیش کرنے کا چیلنج کر رہے ہیں، اسلامی قوانین کو وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دے رہے ہیں، اور انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی نظام کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمیں سرے سے ان مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے، ان کی کوئی اہمیت ہمارے نزدیک نہیں ہے اور ہم ان مباحث کو علمی مباحث کا موضوع بنانے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

آخر یہ ذہن ہمیں کہاں سے ملا ہے؟ کیا ہم بھی غیر شعوری طور پر مغربی فلسفہ اور فکر کو قبول تو نہیں کر چکے؟ میرے محترم بزرگو اور دوستو! ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت ہے کہ مغرب کا لادینی فلسفہ ہمارے دل و دماغ پر حاوی ہو چکا ہے اور ہم اس کے دائرہ سے نکلنے کا حوصلہ نہیں پاتے، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مغرب اس پر بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہ عالم اسلام کو اسلامی نظام سے دور رکھنے کے لیے نئی صف بندی کے ساتھ سامنے آگیا ہے، انسانی حقوق اور بنیاد پرستی کے عنوان سے ایک نئی فکری جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں اگر اسلامی نظام صحیح طور پر عملاً نافذ ہو گیا تو مغربی فلسفہ کے لیے اس کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا، اور روسی کمیونزم کی طرح مغربی سیکولرزم بھی ریت کی دیوار کی طرح بکھر کر رہ جائے گا۔ اسی لیے مغرب، اور صرف مغرب نہیں، چین اور جاپان سمیت تمام غیر اسلامی قوتیں اس نکتہ پر متفق ہیں کہ انسانی حقوق کا واویلا کر کے اور بنیاد پرستی کا ہوا کھڑا کر کے اسلامی نظام کے خلاف نفرت کا ایک طوفان بپا کر دیا جائے اور دنیا کے کسی خطہ میں اسلامی نظام کو کسی قیمت پر نافذ نہ ہونے دیا جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا کے کسی مسلمان ملک میں اسلامی نظام مکمل طور پر نافذ نہیں ہے۔ صرف سعودی عرب کا عدالتی نظام قرآن و سنت کے مطابق ہے اور فقہ حنبلی کے مطابق لوگوں کے مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی شعبوں میں وہاں بھی اسلامی نظام نہیں ہے۔ صرف عدالتی نظام اسلام کے مطابق ہے اور قرآن و سنت کے قوانین نہ صرف نافذ ہیں بلکہ ان پر بلا امتیاز عمل بھی ہوتا ہے۔ اس کی برکات یہ ہیں کہ دنیا میں جرائم کی سب سے کم شرح سعودی عرب میں ہے۔ گزشتہ سال کی سروے رپورٹوں کے مطابق نیویارک میں ایک سال کے دوران ڈکیتی کی ترانوے ہزار وارداتیں ہوئیں اور لندن میں چوری کرنے کی پونے دو لاکھ وارداتوں کو ریکارڈ پر لایا گیا، مگر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سروے کر کے دیکھ لیں کہ گزشتہ سال کے دوران چوری اور ڈکیتی کے کتنے واقعات ہوئے ہیں؟ یہ اسلام کی برکات ہیں، اسلام کے نظام و قانون کے ثمرات ہیں۔ اور آپ خود اندازہ کریں کہ اگر صرف ایک شعبہ میں اسلام نافذ کرنے کے نتائج و ثمرات یہ ہیں تو مکمل اسلامی نظام کی برکات کا کیا عالم ہوگا؟ مغرب اس سے بے خبر نہیں ہے۔ مغربی دانشور ناسمجھ نہیں ہیں، بے حد دانا اور عقل مند ہیں، انہیں اپنے فلسفہ و نظام کا کھوکھلا پن اور اسلامی نظام کی برکات و ثمرات نظر آ رہے ہیں اور وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں صحیح اور مکمل اسلامی نظام نافذ ہونے کی صورت میں مغربی فلسفہ کا حشر کیا ہوگا۔ وہ اسی لیے اسلامی نظام کا راستہ روکنے اور اس کے سامنے نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، الجزائر، مصر، تیونس، مراکش، انڈونیشیا اور ملائیشیا سمیت دنیا بھر کے بیشتر مسلم ممالک میں یہی جنگ جاری ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی کے پیچھے یہی سازش کار فرما ہے کہ کہیں افغان مجاہدین مکمل اسلامی نظام نافذ کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔

حضرات محترم! آج امریکہ کا ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ سامنے ہے، اس حوالہ سے امریکہ عالم اسلام پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور ایک بات آپ کے نوٹس میں لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکہ نے پاکستان کی جو امداد بند کر رکھی ہے، اس کی بحالی کی شرائط میں صرف ایٹمی تنصیبات کا مسئلہ نہیں بلکہ اسلامی قوانین اور قادیانیت کے مسائل بھی ان شرائط میں شامل ہیں۔ آج ان شرائط کے حوالہ سے صرف ایٹمی تنصیبات کا مسئلہ عوام کے سامنے ہے، اس پر پاکستان کی قوم کا ایک ہی موقف ہے اور ہم ان کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں، بلکہ ہمارا موقف تو اس سے آگے ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم بم بنانا مسلمان ملکوں کا حق ہے اور اس کے بارے میں مسلم حکومتوں کو معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ امریکی شرائط میں صرف ایٹمی تنصیبات کا سوال نہیں بلکہ یہ بات بھی شامل ہے کہ حکومت پاکستان قادیانیوں کے خلاف کیے گئے آئینی و قانونی اقدامات واپس لے، اور یہ بھی ان شرائط میں ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے منافی کوئی قانون نافذ نہ کرنے کی ضمانت دی جائے۔

بظاہر یہ ایک خوبصورت سا جملہ ہے لیکن اس کی تہہ میں جو زہر چھپا ہوا ہے، اس سے آپ حضرات کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کا مغربی تصور یہ ہے کہ قرآن کریم نے چوری، زنا، ڈکیتی اور قتل کی جو سزائیں مقرر کی ہیں، مغربی دانشور انہیں انسانی حقوق کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا، سنگسار کرنا اور قاتل کو قصاص میں قتل کرنا تہذیب کے خلاف ہے۔ یہ ان سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہیں، جبکہ ہماری مرعوبیت کا حال یہ ہے کہ اس وقت بھی پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اس نکتہ پر بحث جاری ہے کہ مجرم کو عام لوگوں کے سامنے سزا دینا انسانی حقوق کے منافی ہے یا نہیں؟ وہاں یہ دلائل دیے جا رہے ہیں کہ مجرم کو برسر عام سزا دینا اس کی عزت نفس کے خلاف ہے، عزت نفس انسانی حقوق میں شامل ہے اور ہم انسانی حقوق کی پاسداری کا وعدہ کر چکے ہیں، اس لیے پاکستان میں کسی مجرم کو برسرعام سزا نہیں دی جا سکتی۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ مجرم کو عام لوگوں کے سامنے سزا دو تاکہ وہ عبرت پکڑیں، لیکن ہماری عدالت عظمیٰ اس بحث میں الجھی ہوئی ہے کہ کہیں یہ انسانی حقوق کے منافی تو نہیں؟ اس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ مغرب کا انسانی حقوق کا تصور کیا ہے اور جب مغربی ممالک اور لابیاں ہم سے انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا کرتی ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے۔

علماء کرام! آئیے تھوڑی دیر کے لیے ’’بنیاد پرستی‘‘ کے طعنے کا بھی جائزہ لے لیں۔ آج ہمیں مغرب کی طرف سے بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے اور ہم جذبات میں آ کر جوش کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے، ہم بنیاد پرست ہیں۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ ہمیں اس طعنہ اور الزام کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کی وجہ سمجھنا چاہیے کہ آخر اس طعنہ کا مقصد کیا ہے اور بنیاد پرستی سے مغرب کی مراد کیا ہے؟ کسی لفظ یا جملہ کا لفظی معنی کچھ بھی ہو، لیکن جب تاریخ اسے کسی خاص مفہوم اور مصداق کے لیے متعین کر دیتی ہے تو وہ جب بھی بولا جاتا ہے، اس سے وہی اصطلاح و معنی مراد ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں بنیاد پرستی کے اصطلاحی معنی تلاش کرنا ہوں گے۔

تاریخ یہ کہتی ہے کہ بنیاد پرست سب سے پہلے ان پادریوں کو کہا گیا جو یورپ میں بادشاہت، جاگیرداری اور کلیسا کے مظالم کے خلاف جمہوری انقلاب میں بادشاہ کے ساتھ تھے اور عوام پر بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم کی حمایت کرتے تھے۔ صرف یہ نہیں بلکہ سائنسی مشاہدات اور صنعتی ایجادات سے انکار کر کے ان پر کفر کے فتوے صادر کیا کرتے تھے۔ وہ پادری جو جدید سائنسی ترقی اور عوامی حقوق کے خلاف فریق بن گئے، انہیں تاریخ میں بنیاد پرست کا خطاب ملا، اور بادشاہ اور جاگیر دار کے ساتھ ساتھ معاشرہ پر ان پادریوں کے اقتدار کا سورج بھی ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ آج جب مغربی لابیاں عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات پر بنیاد پرستی کی پھبتی کستی ہیں تو اس سے ان کا مقصد اپنی رائے عامہ کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے یہ علماء اور دینی راہنما دراصل اس پادری کی طرح ہیں جسے مغربی رائے عامہ نے تین سو سال قبل مسترد کر کے گرجوں میں محصور کر دیا تھا۔ مغربی لابیاں ہمیں بنیاد پرست قرار دے کر اپنے ملک کی رائے عامہ پر خوف مسلط کرنا چاہتی ہیں کہ عوام کو حقوق سے محروم کرنے والا اور سائنسی انکشافات اور ایجادات سے انکار کرنے والا پادری دوبارہ زندہ ہو رہا ہے، اس سے بچو، اس کو روکو اور اس کو کسی ملک پر مسلط نہ ہونے دو، ورنہ تمہارا وہ ظلم اور تاریکی کا دور واپس آ جائے گا۔

یہ ہے پس منظر بنیاد پرستی کے طعنہ کا، اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ اس الزام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں! میں تو اس سے انکار کرتا ہوں اور اس پادری کا کردار قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو عوام کے مقابلے میں بادشاہ کا ساتھی تھا اور علم و ترقی کے مقابلہ میں جہالت کا طرف دار تھا۔

محترم بزرگو اور دوستو! میں نے آپ کا خاصا وقت لے لیا ہے اور گستاخیوں کا مرتکب بھی ہوا ہوں، لیکن اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوں اور آپ سے دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں، مغرب کے عزائم اور چیلنج کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس بات کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ تجزیہ کریں کہ اس چیلنج کے مقابلہ میں ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہماری دینی تحریکات کیا کر رہی ہیں؟ حقیقت حال یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر کو تو ان مسائل کا ادراک و احساس ہی نہیں ہے اور اگر کسی حلقہ میں ادراک و احساس ہے تو ہماری ترجیحات درست نہیں ہیں اور ہم مسائل کے تجزیہ و تحلیل اور ان کے حل کے لیے گہری سوچ اور منصوبہ بندی کے عادی نہیں رہے۔

آپ حضرات مغرب میں رہتے ہیں، آپ نے مغربی معاشرہ سے بہت سی باتیں سیکھی ہیں، لیکن ان کی یہ عادت اپنانے کی ہم نے کوشش نہیں کی۔ ان کی یہ عادت اچھی ہے کہ مسائل کا تجزیہ جذبات سے ہٹ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کرتے ہیں اور پوری سنجیدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں بھی جذبات سے ہٹ کر عالم اسلام کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے، مغرب کے چیلنج کو سمجھنا چاہیے، اس کے طریق واردات کو سمجھنا چاہیے اور پورے شعور، دانش اور جرات کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغرب کی رائے عامہ تک رسائی حاصل کریں، مغربی میڈیا اور سائنٹفک طریق کار تک رسائی حاصل کریں، اور اسلام کے احکام و قوانین کو آج کی زبان میں آج کی دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو ہمارا یہ جرم نہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی کے قابل ہوگا اور نہ ہی تاریخ ہمیں معاف کرے گی۔

میں ایک بار پھر جمعیۃ علماء برطانیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تلخ و ترش گزارشات پر آپ سب بزرگوں اور دوستوں سے معذرت خواہ ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو صحیح سمت پر دین اسلام کی مثبت اور مؤثر خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter