دیوبندی جماعتوں کی خصوصی توجہ کے لیے

   
تاریخ : 
دسمبر ۲۰۰۹ء

۱۹ نومبر ۲۰۰۹ء کو لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام (س) پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی کی دعوت پر دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی ایک درجن سے زائد جماعتوں کی صوبائی قیادتوں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد موجودہ ملکی صورتحال اور اس کے تناظر میں علماء دیوبند کے خلاف پروپیگنڈے میں مسلسل اضافے کا جائزہ لینا اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اجلاس میں طے پایا کہ صوبائی سطح پر ایک مجلس مشاورت قائم کی جائے جو باہمی مشاورت اور اشتراک عمل میں اضافہ کے لیے محنت کرے اور جماعتوں کی مرکزی قیادتوں سے رابطہ کر کے انہیں مرکزی سطح پر مشترکہ موقف اور لائحہ عمل پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔

راقم الحروف نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں گزارش کی کہ مسلکی حوالہ سے اور مسلکی دائرے میں اس وقت بہت سی باتیں سوچنے کی ہیں، اور ان پر باہمی تبادلۂ خیالات کی کوئی صورت ضرور نکلنی چاہیے، ان میں سے فوری نوعیت کی دو تین باتوں کی طرف اس وقت توجہ دلانا چاہوں گا جو فوری توجہ اور سنجیدہ بحث و تمحیص کی متقاضی ہیں:

  1. پہلی بات یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں اور تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں شروع سے یہ صورتحال چلی آرہی ہے کہ دینی و قومی تحریکوں میں ہمارا ہمیشہ مرکزی کردار رہا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ان تحریکوں میں ہراول دستہ کا رول ادا کیا ہے اور ایک عرصہ تک یہ کیفیت رہی ہے کہ کوئی دینی یا قومی مسئلہ پیدا ہونے پر لوگ ہماری طرف دیکھتے تھے اور ہمارے فیصلے اور موقف کا انتظار کرتے تھے، لیکن آج یہ صورتحال نہیں ہے اور ہم بتدریج اس کردار سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لینا چاہیے اس کے اسباب و عوامل پر غور کرنا چاہیے، اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور قومی سطح پر اپنے اس تاریخی کردار کی بحالی کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماحول میں دینی مدارس پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور نشانے پر صرف دیوبندی مدارس ہیں، ڈرون بموں کے حملے بھی ان پر ہو رہے ہیں، چھاپے بھی انہی پر پڑ رہے ہیں اور منفی پروپیگنڈے کا ہدف بھی وہی ہیں۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرنا ضروری ہے اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس میں کہیں ہماری کسی کمزوری اور کوتاہی کا دخل تو نہیں ہے؟ جن امور کو ان مدارس کے خلاف کاروائی کا بہانہ بنایا جا رہا ہے ان امور کا کھلے طور پر جائزہ لیا جانا چاہیے اور حقیقت پسندانہ بنیادوں پر تجزیہ و تنقیح کر کے اس بہانے کے ہتھیار کو بیکار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے لیے دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہو گا اور تذبذب کے ماحول سے باہر نکلنا ہو گا۔

    مثلاً میں اپنا ذاتی موقف عرض کرتا ہوں کہ میرے نزدیک افغانستان اور عراق وغیرہ میں جو لوگ امریکی فوجوں کی موجودگی اور تسلط کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ مجاہد ہیں، آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی جنگ شرعی جہاد ہے جس کی حمایت اور ان کی ہر ممکن امداد ہماری دینی ذمہ داری ہے، لیکن پاکستان کی حدود کے اندر کسی دینی یا سیاسی مطالبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا درست طرز عمل نہیں ہے اور اس طرز عمل کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یہ بات واضح طور پر کہنا ہو گی اور اس حقیقت کو بھی دو ٹوک انداز میں واضح کرنا ہو گا کہ بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی ایجنسیاں پاکستان کے اندر اس قسم کی کاروائیوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور دینی مدارس اور دینی قوتوں کو بدنام کرنا ہے، اور اس سب کچھ کا فائدہ عالمی استعمار کو ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتی طور پر اس سلسلہ میں دو ٹوک موقف کا اظہار ہو اور دیوبندی جماعتوں کی قیادتیں مجتمع ہو کر اپنے اجتماعی نقطۂ نظر کا اظہار کریں تو دینی مدارس کے خلاف کاروائیوں کا اہتمام کرنے والوں کو اس بہانے اور جواز سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

  3. تیسری بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اس وقت دیوبندی ہی عالمی استعمار کے خلاف صف آرا ہیں اور اسی بنیاد پر دیوبندیوں کو انتہاپسند اور دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ یہ کہہ کر عالمی استعمار اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کے ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ صرف دیوبندی ہیں۔ میرے نزدیک یہ الزام فرد جرم نہیں بلکہ کریڈٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس طرح برطانوی استعمار اپنے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیں سمجھتا تھا اور جس طرح روسی استعمار نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیں پایا ہے، اسی طرح امریکی استعمار بھی اپنی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہمیں ہی قرار دے رہا ہے۔ یہ تو تاریخی تسلسل ہے اور ہمیں اس الزام پر ناراض ہونے کی بجائے خوش ہونا چاہیے کہ ہم استعمار دشمنی میں اپنے اکابر کے راستے پر چل رہے ہیں۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے خود ہماری رائے عامہ کو ہمارے خلاف کیا جا رہا ہے اور کردارکشی کی یک طرفہ مہم کے ذریعے مسلم رائے عامہ کو ہم سے متنفر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں بے پرواہی سے کام نہیں لینا چاہیے اور رائے عامہ کو اپنے بارے میں مطمئن رکھنے کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اس کے لیے تمام ضروری اقدامات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
  4. اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ دیوبندیت کے خلاف اس منفی پروپیگنڈے اور کردارکشی کی اس مہم میں کہیں ہماری اپنی کمزوریاں اور نادان دوستوں کی بے وقوفیاں تو دشمن کا ہتھیار نہیں بن رہیں؟ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور ایسی ہر بات سے براءت کا اظہار کرنا ضروری ہے جو کسی بھی درجے میں دشمن کو جواز فراہم کرتی ہو یا اس کے ہاتھ میں بہانے کا ہتھیار بن سکتی ہو۔

بہرحال یہ چند امور ہیں جن کے بارے میں باہمی مشاورت اور تبادلہ خیالات کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس لیے یہ مناسب ہو گا کہ حالات پر نظر رکھنے والے کچھ اہل دانش مل بیٹھیں اور معروضی حالات کا سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ تجزیہ کر کے ایک بریفنگ رپورٹ مرتب کریں تاکہ یہ بات سامنے آئے کہ کیا ہو رہا ہے؟ کون کیا کر رہا ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اور تہہ منظر کے حقائق کیا ہیں؟ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دیوبندی جماعتوں کی مرکزی قیادتیں باہم مل بیٹھنے کا اہتمام کریں اور مشترکہ موقف اور لائحہ عمل کا تعین کر کے اسے رائے عامہ کے سامنے لائیں خدا کرے کہ ہم ایسا کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter