مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دیے ہیں تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام نے عورت کو سب سے پہلا حق زندگی کا دیا ہے کہ اس معاشرہ میں جہاں پیدا ہونے والی لڑکی باپ کے رحم و کرم پر ہوتی تھی کہ وہ اسے زندہ رہنے دے یا زندہ ہی زمین میں دفنا دے، اسلام نے اس ظلم کا خاتمہ کر کے عورت کو دنیا میں زندہ رہنے کا حق دلوایا۔ یہ بات گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین ۷ جون ۲۰۱۵ء میں اس سلسلہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ دیکھ کر پھر سے تازہ ہوگئی جس میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ اب تک پوری دنیا میں گیارہ کروڑ سے زائد لڑکیاں قتل کی جا چکی ہیں۔ اس نسل کشی کو رپورٹ میں ’’جینڈر سائڈ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور اس کے اسباب میں (۱) اسقاط حمل (۲) کارو کاری (۳) نو عمری کی شادی اور (۴) چین میں ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی کو نمایاں قرار دیا گیا ہے۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرہ میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رجحان عام تھا جس کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے اور کلام باری تعالیٰ میں اس کے دو اہم اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ ایک ’’خشیۃ املاق‘‘ کہ فاقے کے ڈر سے بچی کو زندہ ہی دفن کر دیا جاتا تھا کہ یہ ساری زندگی دوسروں پر بوجھ رہے گی اور خود کما نہیں سکے گی۔ اور دوسرا ’’عار‘‘ ہے کہ لڑکی کا باپ ہونا عار سمجھا جاتا تھا۔ اور جس کے گھر میں بچی پیدا ہوتی تھی وہ ’’یتواریٰ من القوم‘‘ لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا کہ کوئی اس کو بچی پیدا ہونے کا طعنہ نہ دے دے۔
اسلام نے اس کو سنگین جرم قرار دیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار بیٹیوں کی پرورش کر کے اور انہیں محبت و شفقت اور عزت و احترام فراہم کر کے دنیا کو یہ سبق دیا کہ بیٹی بھی نعمت ہوتی ہے اور عزت و احترام کی مستحق ہوتی ہے۔ دیوان حماسہ میں اسلام کی اس تعلیم کے معاشرتی اثرات کو ایک عرب شاعر کی زبان میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’غدا الناس مذقام النبی الجواریا‘‘ جب سے یہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آیا ہے ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوگئی ہیں۔
مذکورہ بالا رپورٹ میں امریکی شہر ’’ڈیلاس‘‘ میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں نوبل انعام یافتہ بھارتی دانش ور امریتا سین نے اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف اسباب کے باعث دنیا بھر میں لڑکیوں کے اس قتل عام کی وجہ سے مردوں اور عورتوں کا فطری تناسب بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اور اقوام متحدہ کو اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ خاص طور پر بھارت کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں مرد و خواتین کے درمیان عدم توازن خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے۔ البتہ بنگلہ دیش میں یہ تناسب بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بچیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دینے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔‘‘
رپورٹ میں بنگلہ دیش میں مرد و خواتین کے درمیان عدم توازن کو بہت کم بتایا گیا ہے جبکہ ہمارے خیال کے مطابق اگر پوری دنیا میں اس کا جائزہ لیا جائے تو مسلم معاشروں میں ہر جگہ یہ عدم توازن انتہائی معمولی دکھائی دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے لڑکیوں کے قتل کے جو دو اسباب بیان کیے ہیں وہ اگرچہ آج بھی دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں مگر عالم اسلام ان دونوں حوالوں سے اپنی معاصر دنیا سے بحمد اللہ تعالیٰ بہت پیچھے ہے۔
مغرب میں ’’اسقاط حمل‘‘ کو قانونی حقوق میں شامل کر لیا گیا ہے، اس لیے کہ ’’زنا‘‘ عام ہے اور رضامندی کے زنا کو جرائم کی فہرست سے خارج کیا جا چکا ہے۔ اس وجہ سے صورت حال یہ ہے کہ زنا پر تو کوئی قدغن نہیں ہے مگر اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے بچے کی ذمہ داری کو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں میں کوئی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور اس کا یہ حل کم و بیش ہر جگہ طے شدہ ہے کہ حمل ہی کو ساقط کرا دیا جائے۔ جبکہ اسلام میں ماں کے پیٹ میں بچے میں روح پڑ جانے کے بعد اسقاط حمل کو باقاعدہ قتل تصور کیا جاتا ہے اور اس کی شدید ممانعت کی گئی ہے۔ مسیحی دنیا کے پیشوا پاپائے روم بھی اس سلسلہ میں یہی موقف رکھتے ہیں اور مطلقاً اسقاط حمل کو درست قرار دینے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہیں۔ مگر مغرب کی سیکولر دانش اس قتل کو زنا کار جوڑے کے انسانی حقوق میں شمار کرتی ہے اور دنیا بھر میں اسقاط حمل کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے خود اقوام متحدہ مسلسل سرگرم عمل رہتی ہے، حتیٰ کہ مسلم ممالک سے بھی اس کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
بھارت میں اسقاط حمل کا رجحان عام ہے اور اس کا سبب ’’عار‘‘ ہے کہ معاشرہ میں لڑکی کا باپ ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بے شمار لڑکیاں ماں کے پیٹ میں ہی قتل کر دی جاتی ہیں۔ چین میں اس کا سبب دونوں سے مختلف ہے کہ قومی پالیسی کے طور پر طے کر لیا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک بچے کی ولادت پر ہی اکتفا کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ لڑکا اور لڑکی میں سے عام طور پر لڑکے کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے لڑکی کو دنیا میں آنے سے قبل روانگی کا پروانہ دے دیا جاتا ہے۔ اس سے آبادی میں اضافہ تو روکا جا سکتا ہے لیکن معاشرہ میں مرد و خواتین کے تناسب میں تفاوت مستقبل میں جو ہوشربا صورت اختیار کر سکتا ہے اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔
مغرب نے عورت کے حقوق اور آزادی کا نعرہ تو بلند کر دیا اور اس کا ڈھنڈورا بھی مسلسل پیٹا جا رہا ہے۔ مگر عورت کی تحقیر اور قتل کے اسباب پر قابو پانے میں وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا بلکہ ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ فطرت کے قوانین سے انحراف کا نتیجہ بہرحال وہی ہوتا ہے جو آج اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا رپورٹ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جس سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ معاشرتی امن و سکون اور ترقی و استحکام کے لیے ان فطری قوانین کی طرف رجوع ہی واحد راستہ ہے جو آسمانی تعلیمات کی صورت میں آج بھی ہماری راہنمائی کے لیے محفوظ و موجود ہیں۔