شریعت کے متعلق معذرت خواہانہ رویہ

   
تاریخ : 
اگست ۲۰۱۱ء

ہفت روزہ ’’اردو ٹائمز‘‘ نیویارک میں ۲۱ جولائی ۲۰۱۱ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:

’’شریعت کوئی قانون نہیں ہے بلکہ ایک طرز حیات ہے۔ اگر امریکہ میں شرعی قوانین کے خلاف کوئی قانون بنایا گیا تو اس سے امریکہ کے سیکولر تصور کو دھچکا لگے گا۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر طارق رمضان نے، جو حسن البناءؒ کے نواسے بھی ہیں، نیویارک میں ’’اکنا‘‘ کے زیراہتمام ایک فنڈریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا انعقاد مقامی ہوٹل میں گزشتہ اتوار کو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر طارق رمضان نے کہا کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں شرعی قوانین کو خلاف قانون قرار دینے کی مہم چلائی جا رہی ہے اور پروپیگنڈے کو اسلام کے خلاف ایک نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ کوئی منطقی بحث نہیں ہے کیونکہ قانون الگ ہے اور شریعت الگ۔ قانون کسی مقصد کو حاصل کرتا ہے جبکہ شریعت ایک راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔ شریعت سزائیں نہیں بتاتی۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج سب شریعت ہیں۔ ڈاکٹر طارق رمضان نے کہا کہ کچھ لوگ صوفی کو شریعت سے ماورا قرار دیتے ہیں مگر شریعت کے بغیر کوئی صوفی نہیں ہو سکتا۔ ہمیں خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہے جو شریعت کی غلط توجیہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں انصاف کے بغیر امن کا تصور مشکل ہے۔ امریکی قانون کئی مسلم ممالک کے مقابلے میں زیادہ انصاف کی ضمانت دیتا ہے اور یہاں مسلمانوں کو ہی نہیں، دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ یہی شریعت ہے۔ ہر وہ چیز جو صحیح ہے، شریعت ہے۔ صرف مسلمانوں کے خلاف اگر کوئی قانون لایا گیا تو وہ ایک کالونیل سلوک ہوگا۔ ڈاکٹر طارق رمضان نے کہا کہ جس طرح امریکی آئین نے ریاست اور چرچ کو الگ الگ خانوں میں رکھا ہے، اگر کوئی عورت پریسٹ نہیں بن سکتی تو امریکی آئین ان معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، اسی طرح ہمارے مذہبی معاملات میں بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم کسی بھی ایسے قانون کے خلاف مزاحمت کریں گے جس کے تحت مسلمانوں کو معاشرے سے الگ رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ تقریب میں ڈاکٹر زاہد بخاری سمیت دیگر خواتین و حضرات بھی موجود تھے۔‘‘

مغربی دنیا میں اس طرح کے ملے جلے افکار و نظریات کا عام طور پر اظہار کیا جاتا ہے، مگر ہمیں دو باتوں نے اس خبر کی طرف بطور خاص متوجہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ جس تقریب میں ان خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ’’اکنا‘‘ (اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا) کی سالانہ تقریب تھی اور ’’اکنا‘‘ جماعت اسلامی کے ساتھ فکری و نظریاتی تعلق رکھنے والے حضرات پر مشتمل ہے۔ جبکہ اظہارِ خیال کرنے والے محترم دانشور الشیخ حسن البناءؒ کے نواسے ہیں جو ’’الاخوان المسلمون‘‘ کے بانی تھے۔ ڈاکٹر طارق رمضان موصوف نے مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس تقریب میں جو کچھ فرمایا ہے، ان دونوں نسبتوں کے حوالے سے اس کی بعض باتیں محل نظر ہیں جو اگر جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمون کے اب تک چلے آنے والے موقف میں کسی تبدیلی کی غماز نہیں ہیں تو ان کی مناسب وضاحت ان حلقوں کی طرف سے سامنے آنی چاہیے۔ البتہ اس رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے چند گزارشات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

جہاں تک ’’سیکولرازم‘‘ کا تعلق ہے، ہمیں اب تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ مذہبی معاملات میں عدم مداخلت کا نام ہے جس کا مقصد ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت سے روکنا اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مذہبی آزادیاں فراہم کرنا ہے۔ لیکن امریکہ سمیت بہت سے سیکولر ممالک کی پالیسیوں کے تسلسل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس ’’مذہبی آزادی‘‘ اور ’’ریاست کی عدمِ مداخلت‘‘ کے پیچھے اصل مقصد اسلامی ثقافت و روایات کے عالمی سطح پر دوبارہ اظہار کو روکنا ہے۔ اس لیے یہ عدمِ مداخلت دھیرے دھیرے اسلامی روایات کے خلاف مداخلت کا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے اور امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ’’اسلامی شرعی قوانین‘‘ کے حوالے سے جس منفی مہم کا خدشہ ڈاکٹر طارق رمضان نے ظاہر کیا ہے وہ بھی اسی پس منظر میں ہے۔

ہمارے خیال میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ اور جرمنی کے ساتھ ساتھ خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے موقع پر ترکی کی قومی خود مختاری اور ریاستی تشخص کو تسلیم کرنے کے لیے مغربی ممالک نے شرعی قوانین کی منسوخی اور خلافتِ اسلامیہ کے خاتمہ کی جو شرط عائد کی تھی، اسے مغربی دنیا میں پورے عالمِ اسلام کے ساتھ اجتماعی معاہدہ سمجھا جا رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں شریعت کے نفاذ کو اس معاہدہ کی خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق برطانوی وزیر اعظم مسٹر ٹونی بلیئر نے اپنے دورِ اقتدار میں پورے اہتمام کے ساتھ اس امر کا اعلان کیا تھا کہ دنیا کے کسی خطے میں خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی اور نہ ہی شریعت نافذ ہونے دی جائے گی۔

ہمارے بہت سے دانشوروں نے ابھی تک مغرب کے سیکولرازم کو ’’مذہبی معاملات میں عدمِ مداخلت‘‘ ہی تصور کر رکھا ہے جس کی بنا پر وہ اسلام کو ’’نظامِ حیات‘‘ اور شریعت کو ’’قانونی ڈھانچہ‘‘ قرار دینے کے بارے میں گومگو حتٰی کہ بعض صورتوں میں نفی کا رجحان اپنائے ہوئے ہیں۔ جو اگرچہ موجودہ عالمی نظام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی نیت سے ہو سکتا ہے مگر اصلاً یہ ایک غیر فطری اور غیر واقعاتی سوچ ہے، اس لیے کہ نہ تو مغرب کا سیکولرازم مذہب کا عملی وجود قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کا مجموعی دائرہ سسٹم اور قانونی ڈھانچے سے خالی ہے۔ کیونکہ اگر اسلام قرآنِ کریم، سنتِ نبوی، اور خلافتِ راشدہ سے عبارت ہے تو اس میں ریاستی سسٹم بھی ہے، قانونی نظام بھی ہے، اور باقاعدہ احکام و قوانین کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ بھی موجود ہے جس پر عملدرآمد کسی باقاعدہ نظام اور قانونی ڈھانچے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے فقہاء کرام نے نظامِ خلافت کے قیام کے وجوب کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ قرآنِ کریم کے بہت سے احکام پر عملدرآمد باقاعدہ ریاست کے قیام اور حکومت کے وجود پر موقوف ہے، اس لیے خلافتِ اسلامیہ کا قیام امتِ مسلمہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے دانشوروں کو اس حقیقت کا اب تو ادراک کر ہی لینا چاہیے کہ حالات بہت آگے بڑھ چکے ہیں، تذبذب اور گومگو کی کیفیت کا زمانہ بیت چکا ہے، سامنے نظر آنے والے بہت سے واقعات کے پس پردہ اصل حقائق رفتہ رفتہ منکشف ہوتے جا رہے ہیں، اور دو سو سال قبل جس فکری اور ثقافتی کشمکش کا آغاز ہوا تھا وہ اب آخری اور فیصلہ کن راؤنڈ کے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے دینی حلقوں سے ’’اجتہاد‘‘ کا مسلسل تقاضا کرنے والوں کو خود بھی ’’اجتہادی نظر‘‘ سے کام لیتے ہوئے اپنا اندازِ فکر تبدیل کرنا چاہیے۔ مغرب کا معاشی اور معاشرتی نظام ہچکولے کھا رہا ہے اور دینی و روحانی اخلاقیات سے عاری مادہ پرستانہ مغربی فلسفہ حیات کے ناخدا خود متبادل کی تلاش میں پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وقت اسلام کے نظامِ زندگی ہونے اور شریعت کے قانون ہونے کی نفی کا نہیں، بلکہ اس کے اثبات و اظہار کا ہے۔ اور اقبالؒ کے بقول آج کا مجتہد اور مجدد یعنی اسلامی حکمت و دانش کا اصل وارث وہی ہوگا جو اسلامی اصول و روایات اور احکام و قوانین کو آج کی زبان و اسلوب میں پیش کرے گا اور منطق و استدلال کے ساتھ آج کے عالمی قوانین پر ان کی برتری ثابت کرے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیوسٹن (امریکہ) سے شائع ہونے والے عربی جریدہ ’’المدار‘‘ کی ایک خبر (۲۹ جون ۲۰۱۱ء) کے مطابق ڈاکٹر طارق رمضان کے اصل وطن یعنی عرب جمہوریہ مصر میں حال ہی میں ابھرنے والی عوامی تحریک ’’الحریۃ والعدالۃ‘‘ کے ایک مسیحی راہنما ناجی نجیب نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں اسلامی شریعت کے قوانین نافذ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ نفاذِ شریعت سے ڈرنے اور خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’لا خوف من تطبیق الحدود الاسلامیۃ فاذا کان السارق جزاء ہ ان تقطع یدہ فلتقطع والقاتل یقتل‘‘ حدودِ شرعیہ کے نفاذ سے کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ جب چور کی سزا ہی یہ ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو وہ کٹ جانا چاہیے اور قاتل کو قصاص میں قتل ہونا چاہیے۔ ناجی نجیب کا کہنا ہے کہ بعض حلقے انہیں یہ کہہ کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مسیحی ہو کر ’’الاخوان المسلمون‘‘ کے لیے کام کر رہے ہیں، حالانکہ میں الاخوان المسلمون کے لیے نہیں بلکہ الاخوان المصریون کے لیے کام کر رہا ہوں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بعض سنجیدہ مسیحی راہنماؤں کی طرف سے شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کی حمایت دراصل انسانی سوسائٹی کے لیے آسمانی تعلیمات کی ضرورت کا اظہار ہے اور یہ قرآنِ کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے آسمانی تعلیمات کو مستند اور مکمل حالت میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں آج بھی کوئی مسلمان دانشور مغرب کے فلسفہ و ثقافت کے فکری دباؤ کا شکار ہو کر اسلامی نظام و قوانین کے بارے میں گومگو کے لہجے میں بات کرتا ہے تو اسے اقبالؒ کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ:

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
   
2016ء سے
Flag Counter