دفاعِ اسلام اور استحکامِ پاکستان

   
تاریخ: 
۱۱ جون ۲۰۱۱ء

۱۱ جون کو خانیوال کے ڈسٹرکٹ پریس کلب میں ’’دفاعِ اسلام اور استحکامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام جمعیۃ علماء اسلام (مولانا سمیع الحق گروپ) نے کیا تھا۔ مولانا عباس اختر نے سیمینار کی صدارت کی جبکہ مولانا عبد الکریم نعمانی اور مفتی خالد محمود کے علاوہ ہفت روزہ شب و روز کے مدیر جناب امتیاز اسعد نے بھی خطاب کیا۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سیمینار کے عنوان کے حوالے سے مجھے دو امور کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔ ایک دفاعِ اسلام اور دوسرا استحکامِ پاکستان۔ دفاعِ اسلام پر گفتگو کو میں تین دائروں میں تقسیم کروں گا۔ ذاتی دائرہ، قومی دائرہ اور عالمی دائرہ۔

  1. ذاتی دائرے میں مجھے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ میں اور ہم میں سے ہر فرد اسلام کے ساتھ کس درجے کی کمٹمنٹ رکھتا ہے اور اس کے احکام پر کس قدر عمل پیرا ہے؟ اسلام میرا دین ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے میں اس بات کا پابند ہوں کہ میری زندگی قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کے مطابق بسر ہو۔ جبکہ اسلام سے ہٹ کر بہت سے تصورات و خیالات اور اقدار و روایات نے مجھ پر یلغار کر رکھی ہے اور میں مسلسل ان کی زد میں ہوں۔ اس لیے مجھے ہر وقت اس بات کی فکر رہنی چاہیے کہ یہ خارجی اثرات مجھ پر اس قدر حاوی نہ ہو جائیں کہ میں قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ کی تعلیمات و احکام سے ہی خدانخواستہ بے پروا ہو جاؤں۔
  2. قومی دائرہ یہ ہے کہ ہم فرد کے ساتھ ساتھ سوسائٹی اور قوم کی سطح پر بھی اسلام کے احکام و قوانین پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو ظاہر ہے کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ہی، مگر پاکستانی ہونے کے ناتے سے بھی ہمارا یہ اجتماعی فریضہ ہے، اس لیے کہ پاکستان کا قیام اسی مقصد کے تحت عمل میں آیا تھا۔ جبکہ دنیا کے بہت سے حلقے، جن کے ساتھ ہمارے بعض پاکستانی حضرات بھی شریک ہیں، مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم کر کے اسے ایک سیکولر ملک کا روپ دے دیا جائے۔ اس لیے دفاعِ اسلام کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے اسلامی تشخص کے بارے میں ہر وقت متفکر رہیں اور اسے ختم کرنے کی سازشوں پر نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی شناخت اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے سرگرم کردار ادا کرتے رہیں۔
  3. عالمی سطح پر دفاعِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ مسلم ممالک اور اقوام استعماری قوتوں کی زد میں ہیں اور اور ان کی آزادی و خودمختاری عالمی استعماری قوتوں کی ہوس زر اور ہوس اقتدار کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی شریعت کے احکام و قوانین بھی ہر سطح پر اعتراضات اور شکوک و شبہات کی زد میں ہیں، جس کا مقصد اسلام کے ایک قابل عمل ضابطۂ حیات ہونے کی نفی اور مسلمانوں کو خود ان کے دین اور تہذیب سے برگشتہ کرنا ہے۔ میڈیا، لابنگ، لالچ، دباؤ اور خوف کے تمام حربے اس مہم میں بے دریغ استعمال کیے جا رہے ہیں اور نہ صرف استعماری حکومتوں بلکہ مختلف لابیوں کو بھی اس کے لیے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ بھی ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس صورتحال پر نظر رکھیں اور اسلامی عقیدہ و ثقافت کے خلاف اس عالمی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے مربوط اور منظم کوشش کریں۔

استحکامِ پاکستان کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کو چھ عشروں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے مگر ہم ابھی تک اپنا قومی رخ متعین نہیں کر سکے۔ ہم نے آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنی قومی شناخت کے لیے اسلام اور جمہوریت دونوں کو بنیاد بنایا تھا، اور اس خوبصورت توازن کے ساتھ بنایا تھا کہ ہمارے ہاں حکومت کی تشکیل عوام کے ووٹوں سے ہوگی اور خاندانی بادشاہت یا جبری نظامِ حکومت نہیں ہوگا، البتہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت ملکی نظام اور اپنی پالیسیوں کے حوالے سے قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی پابند ہوگی۔ مگر گزشتہ چھ عشروں کے دوران ہم قومی سطح پر اسلام اور جمہوریت دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی مخلص نہیں رہے۔ ہم نے اپنے دستور میں تو ان دونوں بنیادوں کو تسلیم کیا ہے لیکن قومی طرزعمل ان دونوں کے ساتھ منافقت کا چلا آرہا ہے۔

اسلام کے ساتھ ہم نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر ہم جمہوریت کے ساتھ مخلص ہوتے تو بھی حالات اس قدر خراب نہ ہوتے اور غالب مسلم اکثریت رکھنے والے ملک کی رائے عامہ اس راستے سے بھی ہمیں اسلامی تشخص کی طرف ہی لے جاتی، لیکن ہم نے اس کے ساتھ بھی وفا نہیں کی اور آج اس منافقت اور دوعملی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ملک کے دینی حلقوں نے جب ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے ملکی نظام میں قرآن و سنت کی بالادستی کو دستوری طور پر یقینی بنانے کی بات کی تو اس پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی بالادستی قبول کرنے کا پابند بنا کر پارلیمنٹ کی ساورنٹی اور خودمختاری کو ختم کیا جا رہا ہے۔ لیکن قرآن و سنت کے سامنے غیر مشروط سرنڈر نہ ہونے والی پارلیمنٹ کی ساورنٹی آج عالمی قوتوں کی یرغمال بن کر رہ گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالہ سے منتخب پارلیمنٹ کی ایک متفقہ قرارداد پہلے ہی عالمی طاقتوں کے مفادات کے فریزر میں منجمد پڑی ہے، اب پارلیمنٹ کی دوسری متفقہ قرارداد بھی اسی فریزر کے دوسرے کونے میں منجمد کی جا رہی ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں عوام نے جن پالیسیوں کو ووٹ کے ذریعے کھلے بندوں مسترد کر دیا تھا وہ پالیسیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور رائے عامہ کے فیصلے کو کلیتاً مسترد کر دیا گیا ہے۔ ہم نے قرآن و سنت کی بالادستی کے سامنے سرتسلم خم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو قدرت نے ہمیں دشمن کی بالادستی کے سامنے سرنڈر کر دیا ہے۔ آج ہم استعماری قوتوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے بے بسی کے ساتھ ہاتھ پاؤں مارنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کے لیے اب بھی ہم قومی سطح پر تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قوموں کو دی جانے والی سزاؤں میں سے ایک خوفناک سزا کا یوں ذکر کیا ہے کہ ’’لا تکونوا کالذین نسوا اللہ فانساھم انفسھم‘‘ تم لوگوں ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کر دیا۔

آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنے نفع و نقصان سے غافل ہو چکے ہیں، اپنی قومی حیثیت کو بھول چکے ہیں اور اپنی الگ شناخت اور پہچان کھوتے جا رہے ہیں۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق یہ بھی سزا کی ایک صورت ہے جو خدا کو بھول جانے والی قوموں کو دی جاتی ہے اور ہم اس خدائی سزا کا عملی طور پر شکار ہوگئے ہیں۔ ہماری قومی حالت اس مریض جیسی ہے جس کے جسم کی چیرپھاڑ کرنے سے پہلے ڈاکٹر اس کے جسم کو سن کر دیتا ہے مگر بے ہوش نہیں کرتا۔ پھر اس کی نظروں کے سامنے اس کا آپریشن کرتا ہے، وہ اپنے جسم کی چیرپھاڑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے مگر اسے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی، وہ بے حس ہو جاتا ہے اور اپنے جسم پر چلنے والی قینچی کے عمل کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جبکہ ہماری قومی بے حسی کی حالت یہ ہے کہ ہم اپنے جسم کے مختلف حصوں کی چیرپھاڑ کو صرف دیکھ ہی نہیں رہے بلکہ ’’انجوائے‘‘ بھی کر رہے ہیں، ہم نے خود کو مکمل طور پر ایک ایسے دشمن کے سپرد کر رکھا ہے جو آپریشن کے نام پر ہمارے قومی جسم کے حصے بخرے کرتا جا رہا ہے اور ہم اسے ’’مسیحا‘‘ سمجھ کر اس کی ان حرکتوں پر اسے داد بھی دیے جا رہے ہیں۔

استحکامِ پاکستان پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اس صورتحال کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ ہماری قومی خودمختاری سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے، ہماری سرحدوں کا تقدس ڈرون حملوں اور ایبٹ آباد آپریشن نے بری طرح پامال کر کے رکھ دیا ہے، ملکی رائے عامہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی، عوام کے ووٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا گیا ہے، منتخب پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کو فریز کر دیا گیا ہے اور ہمارے دینی تشخص اور اقدار و روایات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود عالمی قوتوں کے مفادات کا جہنم بھرنے نہیں پا رہا اور وہ ’’ھل من مزید‘‘ کی چیخ و پکار میں مصروف ہیں۔

  1. آج استحکام پاکستان کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنا قومی رخ واضح کریں، تذبذب کی فضا سے نکلیں اور تحریک پاکستان اور دستور پاکستان کے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریاتی شناخت کے خلاف سازشوں کو مسترد کر دیں۔
  2. اس کے بعد استحکامِ پاکستان کا دوسرا بڑا تقاضا ہے کہ ہم قومی خودمختاری کی بحالی کی فکر کریں اور اپنے فیصلے خود کر سکنے کا اختیار واپس لیں، ملکی سالمیت اور سرحدوں کے تقدس کی پامالی کو روکنے کے لیے متحد ہو جائیں، اور ملی وقار اور آزادی کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں۔ یہ ذمہ داری علماء کرام کی بھی ہے مگر صرف ان کی نہیں ہے بلکہ سیاستدانوں، دانشوروں، اساتذہ، صحافیوں اور قوم کے دیگر تمام طبقات کی بھی ہے۔ جب تک ہم قومی وقار، آزادی اور خودمختاری کے لیے متحد نہیں ہو جاتے اور بیرونی مداخلت کو مسترد کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑتے ’’استحکامِ پاکستان‘‘ کو اس بھنور سے نکالنے کا کوئی اور راستہ ہمیں نہیں مل سکتا۔
(روزنامہ پاکستان، لاہور ۔ ۲۰ جون ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter