مغرب سے مکالمہ کی ضرورت، ترجیحات اور تقاضے

   
۲۷ و ۲۸ مارچ ۲۰۰۶ء

ماہ رواں کے آغاز میں کراچی حاضری کے موقع پر جامعۃ الرشید میں اساتذہ کرام کی ایک نشست میں ”مغرب سے مکالمہ کی ضرورت، ترجیحات اور تقاضے“ کے عنوان سے تفصیلی گفتگو کا موقع ملا، اس کے علاوہ جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ، کراچی میں درجہ تخصص کے طلبہ کے سامنے دو نشستوں میں اس عنوان پر اظہار خیال کیا اور بعض دیگر اجتماعات میں بھی اس حوالے سے معروضات پیش کیں۔ موضوع کی اہمیت کی مناسبت سے اس متفرق گفتگو کا خلاصہ نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔

مغرب سے مکالمہ کے بارے میں اس وقت بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور مختلف سطحوں پر اس مکالمہ کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس مکالمہ کی ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں ہے، بلکہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان دن بدن تیز ہونے والی فکری اور تہذیبی کشمکش کے پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس مکالمے کو اس کے صحیح فریقوں کے درمیان اور اس کے حقیقی ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھایا جا سکے تو اس سے ہمیں اپنا موقف زیادہ بہتر طور پر دنیا کے سامنے واضح کرنے کا موقع ملے گا اور بہت سی غلط فہمیاں جو اس حوالے سے پائی جاتی ہیں دور ہو سکیں گی، لیکن اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ مکالمہ اصل فریقوں کے درمیان ہو اور اصل ایجنڈے کے مطابق ہو۔ مثلاً اس وقت مغرب اور مسلمانوں کے درمیان جو تہذیبی و فکری کشمکش ہے وہ مغرب کے مذہب سے منحرف سیکولر حلقوں اور مذہب پر پختہ یقین رکھنے والے مسلمانوں کے درمیان ہے، لیکن مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کے لیے مغرب اپنے مذہبی رہنماؤں کو آگے کر رہا ہے، جو اس کشمکش میں سرے سے فریق ہی نہیں ہیں۔ مغرب کی کوشش یہ نظر آتی ہے کہ مکالمہ کو ”مذاہب کے درمیان بحث و مباحثہ“ کے عنوان سے چلنے دیا جائے اور اس آڑ میں مذہب سے منحرف گروہ اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرتا رہے۔ یہ بات مغالطہ آفرینی اور فریب کاری کے سوا کچھ نہیں ہے، جس سے باخبر اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مغرب کے ساتھ مکالمے کی ترجیحات اور اس کے ضروری ایجنڈے پر ایک نظر ڈال لی جائے۔

مغرب کو ہم اس حوالے سے تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر طبقہ کے ساتھ گفتگو کے لیے الگ الگ ایجنڈے اور تقاضوں کو ایک ترتیب کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اصل منظر اور ماحول گفتگو کے لیے سامنے رہے۔

جہاں تک مغرب کے مذہبی حلقے کا تعلق ہے، اس کے ساتھ گفتگو اور مکالمہ کی ضرورت کو ہم تسلیم کرتے ہیں، مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ موجودہ کشمکش میں وہ ہمارے خلاف فریق نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ صرف مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا مغرب کی اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا اور نہ ہی مغرب کے مذہبی رہنما موجودہ مغربی ثقافت اور فلسفہ کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مجھے مذاہب کے درمیان ایک مکالمہ میں شرکت کے لیے کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ میں مغرب کے مذہبی رہنماؤں کو مغرب اور مسلمانوں کی موجودہ کشمکش میں فریق ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس حوالے سے ان کے ساتھ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ایسا کرنا صرف وقت گزاری کے مترادف ہو گا۔ فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے حوالہ سے ہماری کشمکش مغرب کے ان عناصر سے ہے، جو مذہب کے معاشرتی کردار سے کلیۃً دست بردار ہو چکے ہیں اور اب ہم مسلمانوں سے اس طرح کی دست برداری کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ کشمکش مذاہب کے درمیان نہیں، بلکہ مذہب اور لامذہبیت کے درمیان ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنا حقیقت پسندی ہو گا۔

مغرب کے مذہبی رہنماؤں سے جب ہم بات کریں گے تو اس میں گفتگو کا ایجنڈا موجودہ کشمکش نہیں ہو گا، بلکہ اس مکالمہ کا موضوع اور ایجنڈا یہ ہو گا کہ

  1. مغرب کے مذہبی رہنما اپنے معاشرے کو مذہب کی طرف واپس لانے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
  2. اس وقت پوری انسانی سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کی جدوجہد صرف اور صرف مسلمان کر رہے ہیں، مغرب کے مذہبی رہنما اس جدوجہد میں مسلمانوں کے مذہبی حلقوں کا کیا تعاون کر سکتے ہیں؟
  3. انسانی سوسائٹی کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کی صورت میں آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے اوریجنل ذخیرہ اور مستند و محفوظ مواد کے تعین کے لیے مغرب کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو کی ضرورت ہو گی۔ لیکن اس کا مرحلہ بعد میں آئے گا، اس سے قبل پہلے دو نکات پر گفتگو ضروری ہے۔
  4. مغرب کے مذہبی رہنماؤں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی سوسائٹی پر ان کی عملداری کے خواہاں ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی بیزار سیکولر فلسفہ کی حمایت کرنے کی بجائے انسانی معاشرہ میں آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی بحالی کے لیے محنت کریں۔

اس کے بعد موجودہ مغربی فلسفہ و ثقافت کے نمائندوں کی باری آتی ہے، کیونکہ ہمارے خلاف اصل فریق وہی ہیں اور ان کے ساتھ دو مسئلوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے:

  1. مغرب نے جب مذہب کے معاشرتی کردار سے لاتعلقی اختیار کی تھی تو اس کا ایک خاص پس منظر تھا، جس کی وجہ سے مغرب کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ معاشرتی ارتقا کے سفر میں مذہب کو ساتھ لے کر چل سکے۔ اس پس منظر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مغرب میں صدیوں تک جاری رہنے والے تاریک دور میں جب مغرب پر بادشاہ اور جاگیرداروں کی حکمرانی تھی، ظلم و جبر کا دور تھا اور عام شہری جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے، اس ظلم و جبر میں مذہب بھی ایک ادارے کے طور پر بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھی تھا اور ان کے مظالم کا پشت پناہ تھا۔ اس لیے جب بادشاہت اور جاگیرداروں کے خلاف عوامی بغاوت نے کامیابی حاصل کی تو ان کے پشت پناہ مذہب کو بھی ان کے ساتھ ہی معاشرتی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا۔

    جبکہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مغرب میں سائنسی ارتقا کا دور شروع ہوا اور سائنسی مطالعہ اور ایجادات نے پیشرفت کی تو مذہب اس کے خلاف فریق بن گیا اور سائنسدانوں کے خلاف الحاد و کفر کے فتوے اور ان کے قتل کے احکام جاری کر کے ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں نے آکسفورڈ میں وہ مقام خود دیکھا ہے جہاں اس دور میں مذہبی عدالت لگتی تھی اور سائنس و ٹیکنالوجی اور جغرافیہ کے علوم میں تحقیق کرنے والوں کو ملحد اور زندیق قرار دے کر ان کے قتل کے احکام جاری کیے جاتے تھے۔ اس لیے سائنس کے آگے بڑھنے کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مذہب سے پیچھا چھڑا لیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔

    ہمارا مغرب کے دانشوروں سے سوال یہ ہے کہ انہوں نے مذہب کے معاشرتی کردار کو مسترد کیا تو اس کا ایک مخصوص پس منظر تھا، اس کے اسباب تھے اور وجوہات تھیں، جن کی وجہ سے مغرب کی مذہب سے دست برداری سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن مغرب اپنا پس منظر ہم مسلمانوں پر کیوں مسلط کرنا چاہتا ہے؟ ہمارا پس منظر یہ نہیں ہے اور ہمارے چودہ سو سالہ ماضی میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ مذہب دلیل، حق اور اصول کی بجائے جبر اور طاقت کا ساتھی بن گیا ہو۔ اسلام بحیثیت مذہب ہر دور میں اصول، حق اور دلیل کا ساتھی رہا ہے، مظلوم کا حمایتی رہا ہے اور اس نے کبھی بطور ادارہ جبر و ظلم اور طاقت کا ساتھ نہیں دیا۔ ہمارے علماء کی تاریخ جیلوں، شہادتوں اور قربانیوں سے پر ہے کہ انہوں نے جانوں کی قربانی دے دی، جیلوں کی تنہائیاں قبول کر لیں، مگر ظالم اور جابر کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کا کردار اس حوالہ سے ہمیشہ شاندار رہا ہے۔

    اسی طرح اسلام کبھی سائنس کی راہ میں حائل نہیں ہوا اور ٹیکنالوجی کے ارتقا میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ بلکہ مغرب کی تمام تر سائنسی ترقی مسلم اسپین کے ان تعلیمی اداروں کی رہین منت ہے، جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی سوسائٹی کے ارتقا کی راہ ہموار کی۔ مگر ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ مسلم اسپین میدان جنگ میں شکست کھا کر اس میدان میں خود پیش رفت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا اور اس کی تحقیقات کی بنیاد پر مغرب نے سائنس میں ارتقا کا سفر شروع کر دیا۔

    اس پس منظر میں مغرب سے ہماری شکایت یہ ہے کہ وہ اپنا مخصوص پس منظر پوری دنیا پر، بالخصوص مسلمانوں پر مسلط کرنے کی ناروا کوشش کر رہا ہے اور اپنا تاریک ماضی دکھا کر ہمیں اپنے روشن ماضی سے دست بردار ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔

  2. اس حوالے سے مغرب کے ساتھ کرنے کی دوسری بات یہ ہے کہ ان کی سوسائٹی پر مغرب کے اس مذہب بیزار فلسفہ و ثقافت کے اثرات اور نتائج کا جائزہ لیا جائے، جس کا آغاز انقلاب فرانس سے ہوا تھا۔ اس مذہب بیزار فلسفہ نے سائنس و ٹیکنالوجی کی سپورٹ اور پشت پناہی کے باوجود انسانی معاشرت کے ارتقا میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ اس مذہب بیزاری کے نتیجے میں مغرب کا خاندانی نظام تتر بتر ہو کر رہ گیا ہے، رشتوں کا تقدس پامال ہو گیا، بلکہ سرے سے رشتوں کا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہا۔ ”انڈویجول ازم“ کے اس مغربی فلسفہ نے انسانی سوسائٹی میں باہمی اشتراک و تعاون کے نظام کی چولیں ہلا دی ہیں، روحانی و اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے اور آج خود مغرب کا دانش ور بھی مذہب بیزار فلسفہ کے نتائج سے پریشان ہو کر واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے۔

    مغرب کے دانشوروں سے ہمیں اس نکتہ پر بات کرنی چاہیے کہ مذہب بیزار سیکولر فلسفہ کے منفی نتائج دیکھ کر بھی وہ ہم مسلمانوں سے یہ تقاضا کیوں کر رہے ہیں کہ ہم بھی ان کی طرح مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہو کر اپنے محفوظ خاندانی نظام سے محروم ہو جائیں، باہمی رشتوں اور معاشرتی تعلقات کو خیر باد کہہ دیں اور روحانی و اخلاقی قدروں سے کنارہ کش ہو کر ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کے لیے نشہ اور ماہرین نفسیات کے گرد طواف شروع کر دیں۔

    یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب میں مذہب کا جو کردار قرون مظلمہ میں رہا ہے اور جس کا تصور کر کے آج بھی اہل مغرب کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جس سے مغرب اس قدر خوفزدہ ہے کہ آج بھی دنیا کے کسی خطے میں مذہب کے معاشرتی کردار کی بات ہوتی ہے تو مغرب خود کو اس کے خلاف فریق تصور کرنے لگتا ہے، اس کا بھی ایک خاص پس منظر ہے اور اس کی وجوہ ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ مسیحیت کے پاس تورات اور انجیل کا محفوظ اور مستند ذخیرہ موجود نہیں تھا اور نہ اب موجود ہے، جس کی وجہ سے مذہب کی تشریح کا حتمی اختیار پوپ اور چرچ کو حاصل ہو گیا تھا اور دلیل کی بجائے فرد یا افراد مذہب کی تعبیر و تشریح میں فائنل اتھارٹی کی حیثیت اختیار کر گئے تھے، یہی وجہ ان کے مطلق العنان ہونے کی تھی۔

    مگر اسلام میں ہمیشہ دلیل اور استدلال کو فوقیت حاصل رہی ہے، قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات محفوظ اور مستند صورت میں موجود ہیں، اس لیے اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بعد کسی فرد یا طبقہ کو مذہب کی تعبیر و تشریح کا حتمی اختیار نہیں ہے، ہر ایک کو دلیل سے بات کرنا پڑتی ہے اور اپنے موقف اور رائے کے حق میں قرآن و سنت سے استدلال کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ خلفاء راشدینؓ اور ائمہ مجتہدین کے احوال و آرا سے بھی دلیل کی بنیاد پر سینکڑوں امور پر اختلاف کیا گیا ہے، اس لیے اسلام میں دلیل اور استدلال سے ہٹ کر کسی فرد یا طبقہ کے لیے مذہب کی تعبیر و تشریح میں فائنل اتھارٹی کا مقام حاصل کرنے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہے۔

چنانچہ مغرب کے اہل دانش سے جب بات کی جائے گی تو یہ نکتہ بھی زیر بحث آئے گا کہ وہ مسیحیت اور اسلام کو ان کے علمی اور معاشرتی کردار میں اس قدر واضح فرق کے باوجود ایک ہی پلڑے میں کیوں رکھ رہے ہیں اور اس معاملے میں بھی مغرب کا مخصوص پس منظر مسلمانوں پر مسلط کرنے کی تگ و دو میں کیوں مصروف ہیں؟

گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور مسیحیت کا علمی کردار ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے اور ان کا معاشرتی کردار بھی جداگانہ اور ایک دوسرے سے قطعی طور پر الگ رہا ہے۔ اس لیے اگر اہل مغرب کو ان کا مذہب اپنے مخصوص پس منظر اور کردار کی وجہ سے راس نہیں آیا تو اس کی بنیاد پر انہیں اس بات کا حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ دوسرے مذاہب کو بھی مسترد کر دیں اور ساری دنیا کے پیچھے اس دست برداری کو منوانے کے لیے لٹھ لے کر گھومتے پھریں۔ اگر کسی شخص کو اس کے عوارض اور بیماری کی وجہ سے گوشت راس نہیں آتا تو وہ نہ کھائے، لیکن اسے یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ باقی لوگوں کے ہاتھوں سے بھی یہ کہہ کر گوشت چھیننا شروع کر دے کہ چونکہ مجھے گوشت موافق نہیں ہے اس لیے تم سب بھی گوشت کھانا چھوڑ دو؟ اسے اپنی بیماری کا علاج کرانا چاہیے تاکہ وہ بھی اس نعمت سے کبھی مستفید ہو سکے، نہ یہ کہ وہ دوسروں کو بھی اس نعمت سے محروم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔

اب رہی بات مغرب کے اہل سیاست کی تو ان سے گفتگو کا ایجنڈا الگ ہے اور ان سے مکالمہ میں جن امور پر بات کرنے کی ضرورت ہے، ان میں زیادہ اہم امور یہ ہیں:

  • مغرب کے اہل اقتدار نے یک طرفہ طاقت اور جبر کے زور پر سائنس و ٹیکنالوجی، معیشت و تجارت، عسکری قوت اور سیاست و اقتدار پر جو عالمی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، وہ اصول اور انصاف کے کسی بھی مسلمہ معیار پر پوری نہیں اترتی۔
  • مغرب دنیائے اسلام میں سیاسی مداخلت کر کے اپنی مرضی کی حکومتیں اور اپنی مرضی کے نظام قائم رکھنے پر مصر ہے، اس کے نزدیک جمہوریت، عوامی رائے اور وہاں کے لوگوں کی مرضی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، جس مسلمان ملک میں جس قسم کی حکومت اور جس قسم کا نظام مغرب کی اجارہ داری اور تسلط قائم رکھنے کے لیے فائدہ مند ہے وہ اس کو وہاں مسلط رکھنے پر مصر ہے اور اس کے لیے اعلانیہ اور خفیہ ہر قسم کے حربے اختیار کیے ہوئے ہے۔
  • مغرب نے اپنے مذہب بیزار فلسفے کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے فورم سے انسانی حقوق کا جو چارٹر طے کیا تھا اسے وہ پوری دنیا پر بین الاقوامی قانون کے طور پر مسلط کیے ہوئے ہے، حالانکہ مسلمان اپنے عقائد اور ثقافت کے حوالے سے اس چارٹر کے بارے میں واضح تحفظات رکھتے ہیں اور اس چارٹر کو من و عن قبول کرنے کی صورت میں انہیں قرآن و سنت کے متعدد احکام سے جس طرح دست بردار ہونا پڑتا ہے وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے، لیکن مغرب اس چارٹر کو حرف آخر قرار دے کر مسلمانوں کے عقائد اور شرعی احکام کی نفی کر رہا ہے۔
  • سائنس اور ٹیکنالوجی بالخصوص عسکری ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی میں مغرب نے اپنی اجارہ داری کو بین الاقوامی قانون کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ خاص طور پر کسی بھی مسلمان ملک کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی میں مغرب کے قائم کردہ اجارہ داری کے سرخ دائرے کو پار کر سکے اور عسکری قوت میں مغرب کی قائم کردہ حدود سے آگے بڑھ سکے۔ یہ سراسر ناانصافی اور ظلم کا قانون ہے اور اقوامِ عالم کے درمیان برابری اور مساوات کے اصول کے منافی ہے۔
  • اقوام متحدہ میں، جسے بین الاقوامی حکومت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، فیصلوں کی قوت کا توازن یک طرفہ اور اجارہ دارانہ ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور ویٹو پاور میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسلمان اقوام متحدہ کا ایک معطل حصہ ہیں اور ان کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی لندن کے ہائیڈ پارک کارنر سے زیادہ کوئی افادیت نہیں رکھتی۔
  • عسکری قوت اور جدید ترین ٹیکنالوجی میں مسلمانوں کی پیشرفت کا راستہ روک کر یک طرفہ عسکری اور معاشی قوت کے بل بوتے پر مغرب نے مسلمانوں کے معدنی وسائل اور تیل پر قبضہ جما رکھا ہے اور مسلم حکومتوں کو آلہ کار بنا کر وہ مسلمانوں کا مسلسل استحصال کر رہا ہے۔

ہمارے نزدیک مغرب کے اہل سیاست و اقتدار سے مسلمانوں کے مکالمہ کے اہم نکات یہ ہونے چاہئیں۔ ہمیں مکالمہ کے لیے مغرب کے پیش کردہ نکات پر بات چیت کرنے سے بھی انکار نہیں ہے، لیکن بات یک طرفہ ایجنڈے پر نہیں ہونی چاہیے، مکالمہ ایجنڈا ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ مغرب اس معاملے میں بھی اجارہ داری کے یک طرفہ طرز عمل پر قائم ہے اور مسلمانوں سے ان کے مسائل اور شکایات پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس حوالے سے ہم ملک کے دینی اداروں اور علمی مراکز سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اس صورتحال سے خود واقف ہونے اور اپنے اساتذہ، طلبہ اور دانشوروں کو واقف کرانے کی ضرورت ہے، رائے عامہ کو بیدار کرنے اور اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے اور اس احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ مکالمہ جس مسئلہ پر بھی ہو اس کے اصل فریق سے اور حقیقی ایجنڈے پر ہو گا تو فائدہ مند ہو گا، ورنہ وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter