تحریکِ بالاکوٹ اور جہادِ کشمیر

   
۲ اگست ۲۰۰۱ء

’’تحریکِ بالاکوٹ اور جہادِ کشمیر‘‘ کے عنوان سے محترم سید زاہد حسین نعیمی صاحب نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جو راقم الحروف اور محترم سید بشیر حسین جعفری کے درمیان زیر بحث ہے۔ نعیمی صاحب نے جعفری صاحب کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ مجاہدینِ بالاکوٹ اور مجاہدینِ کشمیر کے درمیان تعلق کا ثبوت ابھی تحقیق طلب ہے۔ یہ فرمایا ہے کہ جہادِ کشمیر میں صرف دیوبندی علماء کا حصہ نہیں بلکہ دوسرے مکاتبِ فکر کا بھی کردار ہے، اور آخر میں مجھے مشورہ دیا ہے کہ تاریخ اور عقیدت میں فرق ملحوظ رکھا جائے۔

سب سے پہلے تو میں محترم نعیمی صاحب کی اس مباحثہ میں آمد کا خیر مقدم کرتا ہوں، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے میں ہمارے ساتھ شریک کار رہیں گے۔ اس کے بعد ان کے اٹھائے ہوئے نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

مجاہدینِ بالاکوٹ اور مجاہدینِ کشمیر کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ یہ دونوں الگ الگ تحریکیں نہیں بلکہ ایک ہی تحریک تھی اور امیر المومنین سید احمد شہیدؒ ریاست کشمیر کو لاہور کی سکھ حکومت سے آزاد کرانے اور اسلامی حکومت قائم کر کے برصغیر کی تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ بنانے کی غرض سے مظفر آباد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ راستہ میں بالاکوٹ کے مقام پر دشمن سے ان کی جنگ ہو گئی اور انہوں نے اپنے رفقاء سمیت جام شہادت نوش کر لیا۔

جب کہ جعفری صاحب کا موقف یہ تھا کہ یہ دونوں الگ الگ تحریکیں تھیں اور دونوں کے درمیان تعلق تاریخی طور پر ابھی تک بحث طلب ہے۔ اس پر میں نے پنجاب یونیورسٹی کے ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ مہاراجہ گلاب سنگھ کی خودنوشت یادداشتوں کے مجموعہ ’’گلاب نامہ‘‘ اور معروف مؤرخ مولانا غلام رسول میر کی ’’تحریکِ مجاہدین‘‘ کے حوالہ جات دیے تو محترم سید بشیر حسین جعفری نے میرے موقف کو تسلیم کر لیا جو ان کی انصاف پسندی اور حق طلبی کی علامت ہے۔ جیسا کہ وہ میرے نام اپنے پانچ جولائی ۲۰۰۱ء کے تحریر کردہ مکتوب میں فرماتے ہیں کہ

’’اعتماد اور استدلال سے اور خلوصِ نیت سے بلکہ بے تکلفی سے جو سطریں لکھی جائیں وہ اثر رکھتی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ہمارے درمیان اس موضوع کا کوئی ذاتی پہلو نہیں ہے، ایک علمی و تاریخی بحث تھی اور یہ بھی اس طرح منطقی نتیجہ پر پہنچی کہ آپ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ مجاہدینِ منگ اور بالاکوٹ کے مابین رابطوں کا وجود ثابت ہوا کہ مقصد و مدعا ایک تھا، دشمن بھی ایک اور زمانہ بھی ایک۔’’

اس لیے جعفری صاحب کے ساتھ میری تحریری گفتگو تو خود ان کے ارشاد کے مطابق منطقی نتیجہ تک پہنچ گئی ہے، البتہ سید زاہد حسین نعیمی صاحب اس بحث کو کسی اور حوالہ سے آگے بڑھانا چاہیں تو میں حاضر ہوں اور مجھے ان کے ارشادات کا انتظار رہے گا۔

نعیمی صاحب نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ جہادِ کشمیر میں صرف دیوبندی علماء کا نہیں، بلکہ دوسرے مکاتبِ فکر کے مشائخ و علماء کا بھی مؤثر کردار موجود ہے۔ اس سلسلہ میں ان سے عرض ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرا مقدمہ یہ نہیں کہ جہادِ کشمیر صرف دیوبندی علماء کی جدوجہد کا رہین منت ہے، بلکہ میرا کیس یہ ہے کہ آزادئ کشمیر کی یہ جنگ شرعی جہاد ہے جس کی بنیاد علماء کرام اور مشائخ عظام کی قربانیوں اور ان کی جدوجہد پر ہے۔ اور جو لوگ اسے دینی اور نظریاتی پس منظر سے الگ کر کے صرف قومی جنگ قرار دے رہے ہیں یا سرے سے اس جنگ کی دینی حیثیت سے انکار کر رہے ہیں ان کا موقف درست نہیں ہے۔ اس لیے علماء کرام کے جتنے گروہوں یا مکاتبِ فکر کی شمولیت اس میں ثابت ہو اس سے میرے موقف کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔

نعیمی صاحب نے بہت اچھا کیا کہ بریلوی مشائخ و علماء کی ایک فہرست دے دی جو میرے علم میں نہیں تھی۔ اور وہ اس سے زیادہ اچھا کریں گے اگر ان بزرگوں کے جہادی کارناموں اور خدمات کو سپرد قلم کر کے نئی نسل کو ان سے آگاہ کرنے کا اہتمام بھی کر دیں۔ بلکہ میں تو بریلوی مکاتبِ فکر کے ساتھ ساتھ اہلحدیث علماء سے بھی یہ چاہتا ہوں کہ وہ منقار زیر پر نہ رہیں اور مولانا فضل الٰہی وزیر آباد، مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی اور ان جیسے دیگر اہلحدیث علماء کرام کی خدمات کو منظر عام پر لائیں جو جہادِ کشمیر میں مسلسل سر گرم عمل رہے ہیں۔ اور اگر ان دونوں مکاتبِ فکر کے اصحابِ قلم کے پاس فرصت نہ ہو تو مجھے مستند معلومات فراہم کر دیں، میں یہ خدمت سرانجام دینے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھوں گا۔

میری فکری اور نظریاتی جنگ تحریکِ آزادئ کشمیر کو قومیت کی جنگ قرار دینے والوں اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کے خلاف ہے، اور میں اس جنگ میں بریلوی اور اہلحدیث اصحابِ قلم اور اربابِ دانش کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر میرے دائیں جانب نعیمی صاحب اور بائیں جانب اسی طرح کے پڑھے لکھے کوئی ’’سلفی صاحب‘‘ آ جائیں تو اس فکری اور نظریاتی معرکہ کا لطف دوبالا ہو جائے۔

سید زاہد حسین نعیمی صاحب نے اپنے مضمون میں میرا ہی ایک مشورہ مجھے لوٹا دیا ہے کہ تاریخ اور عقیدت کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے کیونکہ عقیدت سے تاریخی واقعات میں کوئی تبدیلی نہیں آیا کرتی۔ میں ان سے اس حوالے سے کسی بے مقصد بحث میں الجھنے کی بجائے صرف اتنا اشارہ کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں عقیدت کی بنیاد پر تاریخ مرتب نہیں ہوتی، بلکہ تاریخ اور اس کے حقائق کی بنیاد پر عقیدت کا رشتہ استوار ہوا کرتا ہے، اور میرے خیال میں تاریخ اور عقیدت کا باہمی فطری تعلق بھی یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter