افغانستان کے اخبارات پر ایک نظر

   
۳۰ اگست ۲۰۰۰ء

میں افغانستان کی حدود میں ۱۲ اگست کو دوپہر کے وقت داخل ہوا اور ۱۵ اگست کو اسی وقت افغانستان سے واپسی پر پاکستان کی حدود میں قدم رکھا۔ اس طرح مجھے افغانستان میں تین دن گزارنے کا موقع ملا جس کے دوران کابل کے علاوہ جلال آباد، سروبی اور قرہ باغ کے علاقوں میں بھی تھوڑے وقت کے لیے جانے کا موقع مل گیا۔

ان تین دنوں میں میری نظریں بازاروں میں کسی ایسے اسٹال کی تلاش میں رہیں جہاں اخبارات و رسائل فروخت ہوتے ہوں مگر کوئی اسٹال اس قسم کا میری نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ واپسی پر جلال آباد کے ایک بازار میں چھوٹا سا اسٹال نظر آیا جس کے باہر ایک ڈوری پر ’’ننگر ہار‘‘ نامی اخبار لٹکا ہوا دکھائی دیا جو پشتو زبان میں ہے۔ یہ اخبار ننگر ہار صوبے کے نام پر اس کے دارالحکومت جلال آباد سے شائع ہوتا ہے۔ چار صفحے کے اس اخبار کی قیمت پوچھی تو اسٹال کے مالک نے، جو نوعمر لڑکا تھا، دو روپے بتائی مگر اس نے ہمیں مہمان سمجھتے ہوئے اخبار بلا قیمت ہمارے حوالے کر دیا۔

اخبارات و رسائل کسی سوسائٹی کی مجموعی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں بشرطیکہ وہ آزاد ہوں اور پورے اعتماد کے ساتھ معاشرہ کے مجموعی حالات کو آئینہ کی سکرین پر دکھا سکتے ہوں۔ آزادی سے مراد صرف ریاستی پابندیوں اور پالیسیوں سے آزادی نہیں بلکہ آزاد صحافت کے لیے ان غیر مرئی اور ریموٹ کنٹرول قدغنوں اور رکاوٹوں سے آزادی بھی ضروری ہوتی ہے جو درپردہ لابیوں اور خفیہ اداروں کی طرف سے غیر محسوس طور پر اخبارات و جرائد کے گرد ایک ناقابل عبور حصار کی صورت میں قائم کر دی جاتی ہیں۔ اور بڑے بڑے خودمختار اور طاقتور نظر آنے والے اخبارات و رسائل بھی اپنے لیے اشاعتی مواد کے انتخاب اور پالیسی ترجیحات کے تعین میں ان رکاوٹوں کو عبور نہیں کر پاتے۔

میرا خیال تھا کہ کسی اسٹال سے اخبارات و جرائد کا انتخاب کروں گا اور انہیں سامنے رکھتے ہوئے افغانستان میں صحافت کی موجودہ صورت حال کے بارے میں کچھ لکھوں گا۔ مگر کابل سے صرف روزنامہ ’’ھیواد‘‘ کا ایک پرچہ اپنے میزبان کے گھر سے ملا جبکہ جلال آباد سے روزنامہ ’’ننگر ہار‘‘۔ البتہ مولانا محمد الیاس چنیوٹی نے اچھا کیا کہ میرے اس ذوق اور تلاش کو محسوس کرتے ہوئے ’’کابل ٹائمز‘‘، ’’انیس‘‘ اور ’’شریعت‘‘ کا ایک ایک شمارہ میرے لیے لیتے آئے۔ چونکہ وہ میرے بعد دو دن وہاں رہے اس لیے روزنامہ انیس کا ۱۲ اگست کا شمارہ بھی ان کی وساطت سے دیکھنے کو مل گیا۔

’’کابل ٹائمز‘‘ چار صفحات کا انگلش ہفت روزہ ہے جس کے چیف ایڈیٹر عیسیٰ خان ہیں اور یہ اخبار البیرونی پبلشنگ ہاؤس کابل سے شائع ہوتا ہے، اس کی قیمت ایک ہزار افغانی یا دو روپے پاکستانی ہے۔ اس کا ایڈریس پوسٹ بکس ۱۵۶۰ جی پی او کابل اور فون نمبر ۶۱۸۴۸ ہے۔ چونکہ میں انگلش نہیں پڑھ سکتا اس لیے اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ عرض نہیں کر سکتا۔

روزنامہ ’’ھیواد‘‘ کابل سے شائع ہوتا ہے، پشتو زبان میں ہے، اس کے مدیر ملا اسد اللہ حنیفی ہیں، امارت اسلامی افغانستان کے مرکزی ادارہ نشریات کی طرف سے چھپتا ہے، چار صفحات کا اخبار ہے، اور اس کا ۱۴ اگست کا شمارہ میرے سامنے ہے۔ میں پشتو نہیں پڑھ سکتا مگر اس کا ایک صفحہ فارسی میں بھی ہے جو مفہوم سمجھنے کی حد تک پڑھ لیتا ہوں۔ چونکہ ۱۴ اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے اس لیے طبعی طور پر یہ دیکھنے کو جی چاہا کہ اس اخبار میں پاکستان کے یوم آزادی کے حوالہ سے کوئی مضمون یا خبر چھپی ہے یا نہیں۔ مگر اخبار کے چاروں صفحات پر نظر ڈال کر افسوس ہوا کہ اس سلسلہ میں کوئی مواد مضمون یا خبر کی صورت میں موجود نہیں تھا۔
پشتو اخبار ’’شریعت‘‘ ہفت روزہ ہے جس کے مدیر عبد الرحیم ثاقب ہیں اور یہ بھی امارت اسلامی افغانستان کے مرکزی شعبہ نشریات کی طرف سے شائع ہوتا ہے۔

’’انیس‘‘ فارسی روزنامہ ہے جو کابل سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے بانی کے طور پر غلام محی الدین انیس کا نام پیشانی پر درج ہے اور ناشر ’’موئسہ نشریاتی انیس کابل‘‘ ہے۔ ایڈریس پوسٹ بکس ۵۴۹ کابل ہے۔ اخبار میں فارسی کے ساتھ ساتھ کچھ مضامین اور خبریں پشتو میں بھی ہیں۔ اخبار انیس کا ۱۲ اگست کا شمارہ میرے سامنے ہے اور چونکہ یہ دن افغانستان میں ’’یوم استقلال‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اس لیے زیادہ تر مضامین اور کچھ خبریں استقلال کے حوالہ سے ہیں۔

افغانستان میں ’’یوم استقلال‘‘ برطانوی استعمار کے خلاف افغانستان کی جنگ آزادی میں کامیابی اور برطانیہ کی طرف سے افغانستان کی آزادی کو تسلیم کرنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے جو اگست ۱۹۱۹ء میں ’’معاہدہ راولپنڈی‘‘ کی صورت میں تسلیم کی گئی تھی۔ اس سے قبل افغانستان پر برطانوی فوجوں کی یلغار رہتی تھی اور متعدد بار کابل، قندھار اور جلال آباد پر برطانوی فوجوں کا قبضہ ہوا۔ اور ایک مرحلہ پر والئ افغانستان امیر عبد الرحمن خان نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پونڈ کے عوض افغانستان کے بیرونی معاملات کا کنٹرول تحریری طور پر برطانوی حکومت کے سپرد کر دیا۔ مگر مارچ ۱۹۱۹ء میں امیر عبد الرحمن خان کے پوتے امیر امان اللہ خان نے برطانوی استعمار سے مکمل آزادی کا اعلان کر کے جنگ چھیڑ دی جس میں برطانوی فوجوں کو افغان حریت پسندوں کے مقابلہ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور پھر اس کے نتیجے میں اسی سال اگست میں مذکورہ معاہدہ ہوا اور افغانستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔

انگلش، فارسی اور پشتو کے یہ سب اخبارات چار چار صفحات کے ہیں، ان میں جاندار کی تصویر نہیں ہے، کسی عنوان پر تجزیاتی مضامین اور فیچروں کا کوئی سلسلہ موجود نہیں ہے، اور مراسلات کا کوئی کالم بھی نظر سے نہیں گزرا۔ جبکہ میرے لیے کسی اخبار کا سب سے زیادہ دلچسپی کا کالم یہی ہوتا ہے اور اسی سے میں سوسائٹی کے مجموعی رجحانات کا اندازہ کرتا ہوں۔ یہ اخبارات چونکہ سرکاری طور پر شائع ہوتے ہیں اس لیے انہیں حکومتی خبرنامہ یا گزٹ کہنا زیادہ مناسب ہوگا جس سے حکومتی پالیسیوں اور ترجیحات کا پتہ چل جاتا ہے۔ جبکہ ’’اخبار‘‘ اس سے بالکل مختلف چیز ہوتی ہے کہ اس کی حیثیت ایک ’’آئینہ‘‘ کی ہوتی ہے جو چہرے کے حسن و قبح دونوں کو یکساں دکھائے تو اپنے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ ورنہ کسی صاف اور شفاف آئینے پر بھی اپنی مرضی کے نقش و نگار مرقسم کر دیے جائیں تو وہ اپنے تمام تر حسن اور چمک کے باوجود آئینہ کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter