علماء اور قومی سیاست

   
جامع مسجد صدیقیہ، سیٹلائیٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ
اکتوبر ۱۹۹۳ء

(ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست اکتوبر ۱۹۹۳ء کو بعد نماز عشا جامع مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل سنت کے زیراہتمام منعقد ہوئی جس میں فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ’’علماء اور قومی سیاست‘‘ کے موضوع پر مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں سب سے پہلے جمعیۃ اہل سنت گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ حضرات سے ملاقات و گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کے ساتھ آج کی اس گفتگو کے لیے ’’علماء اور قومی سیاست‘‘ کا موضوع طے ہوا ہے اور میں اس کے حوالہ سے کچھ ضروری گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معروضات بنیادی طور پر تین پہلوؤں پر مشتمل ہوگی:

  1. سیاست کے ساتھ علماء کا تعلق کیا ہے؟
  2. قومی سیاست میں اب تک علماء کا رول کیا ہے اور اس کے ثمرات و نتائج کیا ہیں؟
  3. آئندہ سیاسی محاذ پر علماء کے آگے بڑھنے کے امکانات کیا ہیں؟

جہاں تک علماء اور سیاست کے باہمی تعلق کا سوال ہے تو یہ بات بطور اصول پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ سیاست کے ساتھ علماء کا تعلق دینی اور نظریاتی بھی ہے اور عملی اور واقعاتی بھی۔ دینی اور نظریاتی تعلق یہ ہے کہ علمائے کرام اپنے منصب اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے حضرات انبیائے کرام علیم السلام کی نیابت و وراثت کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:

’’بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیاء کرامؑ کرتے تھے، جب ایک نبی دنیا سے چلا جاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ خلفا ہوں گے۔‘‘

گویا سیاسی قیادت حضرات انبیاء کرامؑ کے منصبی فرائض میں شامل تھی اور چونکہ جناب نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا اس لیے ان کی سیاسی قیادت والی ذمہ داری خلفاء کو منتقل ہوگئی ہے۔ جبکہ اس وقت دنیا میں کسی جگہ بھی خلافت اسلامیہ کا نظام موجود نہیں ہے اس لیے جہاں دوسرے بہت سے امور میں علمائے کرام جناب نبی کریمؐ کی نیابت و وراثت کے ذمہ دار ہیں، امت کی سیاسی راہنمائی بھی وارثینِ نبوت ہونے کے حوالے سے علمائے کرام کے فرائض میں شامل ہے اور وہ اس بارے میں مسئول اور ذمہ دار ہیں۔

سیاست کے ساتھ علماء کے واقعاتی تعلق پر برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تاریخ شاہد ہے۔ یہاں علمائے کرام نے امت مسلمہ کی سیاسی راہنمائی جس جرأت و استقلال کے ساتھ کی ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت مجدد الفؒ ثانی کو دیکھ لیجئے ! انہوں نے کس عزیمت و استقامت کے ساتھ اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دینِ الٰہی‘‘ کے خلاف جدوجہد کی اور بالآخر اسے شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے خانوادہ کی سیاسی جدوجہد پر ایک نظر ڈال لیجئے! حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مسلمانوں کے گرتے ہوئے اقتدار کو کس طرح سہارا دینے کی کوشش کی اور ان کے بگڑے ہوئے نظام کی اصلاح کے لیے کیا کیا جتن کیے۔ مرہٹوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تباہی کے آثار دیکھ کر احمد شاہ ابدالیؒ کو آواز دی جس نے آکر پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کا زور توڑا۔ پھر فرنگی اقتدار قائم ہونے پر شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور انہی کی ہدایت و تربیت کے باعث سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے حریت کے لیے پہلا مسلح معرکہ بپا کیا۔ اس کے بعد ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی میں علماء نے قائدانہ کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں انہیں فرنگی کے وحشیانہ انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت، جمعیۃ علماء ہند، مجلس احرار اسلام اور دیگر حوالوں سے آزادی کی جدوجہد میں علماء نے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی۔

یہ ایک تاریخی تسلسل ہے جس کی تفصیل بیان کرنا اس وقت مقصود نہیں ہے، صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس خطۂ زمین میں جسے برصغیر کہا جاتا ہے، سیاسی جدوجہد اور تحریک آزادی میں علماء نے ایثار و قربانی کا جو شاندار حصہ ادا کیا ہے، ملت کا کوئی اور طبقہ اس بارے میں ان کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔اور اس سلسلہ کی آخری کڑی تحریک پاکستان میں علامہ شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا اطہر علیؒ، مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی اور مولانا ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کی قیادت میں علماء کے ایک بہت بڑے طبقہ کا متحرک کردار ہے جس کے بغیر تحریک پاکستان کا تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔

الغرض سیاست کے ساتھ علماء کا تعلق دینی بھی ہے کہ امت مسلمہ کی سیاسی راہنمائی ان کے مذہبی فرائض میں شامل ہے، اور واقعاتی بھی ہے کہ ان کے اسلاف نے سیاسی محاذ پر جدوجہد اور قربانیوں کا ایک ایسا مربوط تسلسل قائم کیا ہے جس کے ساتھ عملی وابستگی قائم رکھے بغیر علماء اپنے ماضی قریب کے بزرگوں کے ساتھ بھی تعلق کا اظہار نہیں کر سکتے، اور یہی علماء اور سیاست کے باہمی تعلق کا سب سے زیادہ واضح اور روشن پہلو ہے۔

حضراتِ محترم! اب میں گفتگو کے دوسرے نکتہ کی طرف آتا ہوں کہ پاکستان کی قومی سیاست میں علماء کا اب تک کیا رول رہا ہے اور اس کے ثمرات و نتائج کیا ہیں؟ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلا مرحلہ اس مملکت خداداد کی نظریاتی حیثیت کے تعین کا تھا کیونکہ برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے نام سے ایک نئی مملکت کے وجود کا جواز ہی صرف یہ پیش کیا گیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور ان کے لیے اپنے مذہب اور تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی بسر کرنا ضروری ہے جو الگ وطن کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی نظریہ پر تحریک منظم ہوئی اور قیام پاکستان عمل میں آیا لیکن پاکستان قائم ہوتے ہی اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں سیکولر دستور کی باتیں شروع ہوگئیں۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا اور افسوسناک صورتحال تھی جس کا سامنا اسمبلی کے اندر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کو کرنا پڑا اور اسمبلی سے باہر مولانا مودودیؒ اور دیگر علماء نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا اور بالآخر مولانا شبیر احمدؒ عثمانی دستور ساز اسمبلی میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے جس میں خدا تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت اور پارلیمنٹ کے لیے یہ کردار متعین کیا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ملک کا نظام چلائیں گی۔ یہ پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعین تھا جس نے طے کر دیا کہ پاکستان سیکولر نہیں بلکہ اسلامی ریاست ہے۔

اس کے بعد فرنگی کے خودکاشتہ پودے قادیانیت کی سازشوں کے خلاف تحریک ختم نبوت کا مرحلہ پیش آیا جس میں علماء اور عوام نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ پھر ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دستور کے حوالہ سے مذہبی جماعتوں کی جدوجہد ہے۔ اور اس کے بعد ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں قائم ہونے والی دستور ساز اسمبلی کا معرکہ ہے جس میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا محمد ذاکرؒ، مولانا شاہ احمدؒ نورانی، مولانا عبدا لمصطفٰی الازہریؒ، پروفیسر غفور احمد اور ان کے رفقا کو ایک ایسی اکثریتی پارٹی کا سامنا تھا جو اسلام کو صرف مذہب کے خانے تک محدود رکھتے ہوئے سیاست میں جمہوریت اور معیشت میں سوشلزم کو اپنا مقصود و منزل قرار دیے ہوئے تھی۔ اس لیے انہیں یہ جنگ بڑی جرأت و استقامت کے ساتھ لڑنا پڑی، اسمبلی کی کاروائی کا بائیکاٹ ہوا اور اسمبلی سے باہر رائے عامہ کی قوت کو حرکت میں لانا پڑا اور اسٹریٹ پاور کو منظم کرنا پڑا تب کہیں جا کر ان راہنماؤں کو دستور کا قبلہ درست رکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ چنانچہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیتے ہوئے اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کا دستوری وعدہ قوم کے ساتھ کیا گیا۔ اس پر عملدرآمد ہوا یا نہیں، یہ الگ بات ہے، لیکن ملک کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہوگیا اور علماء اسمبلی میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی جدوجہد میں سرخرو ہوئے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ علماء اس ملک میں کبھی انتخابی قوت نہیں رہے، اسمبلیوں میں علماء کا وجود نمائندگی کی حد تک محدود رہا ہے، ان کی اصل قوت ہمیشہ رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور رہی ہے۔ اور یہ رائے عامہ کی قوت ہی تھی جس نے علماء کو اسمبلی میں تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اکثریت پر کامیابی دلائی۔ حتیٰ کہ مولانا مفتی محمودؒ جب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے اس وقت بھی ان کے پاس چالیس کے ایوان میں صرف چار یا پانچ سیٹیں تھیں لیکن اس کے باوجود وہ حکومت بنانے اور اس کی پالیسی کو کنٹرول کرتے ہوئے بعض اسلامی اصلاحات نافذ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل کا مرحلہ آپ کے سامنے ہے، اس کے بعد ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی ایسا ہوا۔ اسمبلی میں علماء کی قوت تھوڑی تھی، چند ارکان تھے، لیکن اسمبلی سے باہر رائے عامہ کی قوت ان کی پشت پر تھی، اسٹریٹ پاور ان کے ساتھ تھی اس لیے انہیں اس محاذ پر بھی کامیابی ہوئی اور وہ قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئے۔

پاکستان میں علماء اور دینی قوتوں کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ انہوں نے رائے عامہ کی قوت پر اپنی گرفت قائم رکھی ہے اور اسمبلی میں نمائندگی کی حد تک موجود رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے باعث انہیں قرارداد مقاصد، ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات اور ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے صورتحال تبدیل ہوتی جا رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے۔ اسٹریٹ پاور ان کی گرفت میں نہیں رہی اور اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد وہ اپنی انتخابی قوت میں بھی اضافہ نہیں کر پائے۔ انتخابی قوت جوں کی توں ہے بلکہ کچھ کم ہوئی ہے جبکہ رائے عامہ کی قوت ہاتھ سے نکل گئی ہے، یہ ایک بڑا المیہ ہے جس کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا۔

حضراتِ محترم! حقائق تلخ ہوتے ہیں اور میری یہ کمزوری ہے کہ دوٹوک بات کرنے کا عادی ہوں اس لیے میری کسی گزارش سے کسی دوست کو تکلیف پہنچے تو اس کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں لیکن جس بات کو صحیح سمجھتا ہوں اسے نہیں چھپاؤں گا اور اپنے دل کا درد آپ حضرات کے سامنے ضرور رکھوں گا۔ اصل قصہ یہ ہے کہ ہم نے یعنی سیاسی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والے علماء نے اپنے موقف، پالیسی اور کردار پر اعتماد کی فضا قائم نہیں رہنے دی۔ پہلے یہ بات نہیں تھی، لوگ ہم سے اختلاف رکھتے تھے لیکن ہماری راست گوئی، استقامت اور دیانت پر اعتماد بھی کرتے تھے اور اسی اعتماد کے باعث ہمارا ساتھ دیتے تھے۔ لیکن جب سے ہم نے قلابازیاں کھانی شروع کر دی ہیں اعتماد کی یہ فضا ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم آج ایک مسئلہ کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں تو ہمیں قطعاً یاد نہیں ہوتا کہ اسی مسئلہ کے بارے میں تین ماہ قبل اس سے کچھ مختلف بات ہم کہہ چکے ہیں، اور اس کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ دو ماہ بعد شاید کچھ اور کہنا پڑ جائے۔ ان قلابازیوں نے ہمارا اعتماد مجروح کیا ہے۔ عام آدمی تو بے چارہ عام آدمی ہے خود ہمارے ورکر کو اکثر اوقات یہ سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے کہ وہ لیڈر کی کون سی بات کو اصل سمجھے اور کس بات کو وقتی حالات کا تقاضا قرار دے۔ پھر لابیوں کی سیاست نے ہمارے کردار اور دیانت پر بھی اعتماد قائم نہیں رہنے دیا۔ ہماری پہچان اب سعودیہ اور لیبیا کی لابیوں کے حوالے سے ہونے لگی ہے۔ اس صورتحال نے غریب کارکن اور نظریاتی ورکر کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، وہ اندر سے بکھر گیا ہے اور اس کا دل کرچی کرچی ہو کر رہ گیا ہے۔

شریعت بل کا معرکہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس کا حشر ہمارے راہنماؤں کے ہاتھوں کیا ہوا؟ شریعت بل کی بنیادی دفعہ قرآن و سنت کو ملک کا بالاتر قانون (سپریم لاء) قرار دلوانا تھا۔ یہ سامنے آیا تو اس کے پیش کرنے والے بھی علماء تھے اور سب سے پہلے اس کی مخالفت بھی علماء نے کی۔ اسے ’’شرارت بل‘‘ قرار دینے والے بھی علماء تھے۔ اکثر دینی جماعتوں کا ایک دھڑا شریعت کی بل کی حمایت اور ہر جماعت میں اس کا متوازی دھڑا شریعت بل کی مخالفت کر رہا تھا، ایک عرصہ تک لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔ پھر خدا خدا کر کے ایک وقت آیا کہ تمام مذہبی جماعتیں شریعت بل پر متفق ہوئیں اور سینٹ نے شریعت بل کا متفقہ مسودہ منظور کر لیا۔ یہ پیپلز پارٹی کا دور تھا جس میں مسلم لیگ نے سینٹ میں اپنی اکثریت کے باعث اسے منظور کرا دیا لیکن قومی اسمبلی میں یہ بل مقررہ وقت کے اندر پیش نہ ہو سکا اور اس سے پہلے قومی اسمبلی ٹوٹ گئی۔ پھر مسلم لیگ کی اپنی حکومت آئی، اس نے خود سینٹ میں اپنے منظور کردہ شریعت بل کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیا۔ اس نے سینٹ کا منظور کردہ شریعت بل مسترد کر دیا جس کی منظوری کے لیے سینٹ میں اسی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب اپنی حکومت آنے پر مسلم لیگ نے قومی اسمبلی میں شریعت بل کا ایک نیا مسودہ پیش کر دیا جس میں شریعت بل کی بنیادی دفعات کو مسخ کر دیا گیا تھا۔ اس پر ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کا اجلاس منصورہ میں ہوا، تمام جماعتیں شریک ہوئیں، حتیٰ کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بھی شریک ہوئی اور سب نے مل کر متفقہ فیصلہ کیا مسلم لیگی حکومت کے پیش کردہ سرکاری شریعت بل پر بات نہیں ہوگی اور سینٹ کے منظور کردہ متفقہ شریعت بل کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ یہ فیصلہ تحریری شکل میں موجود ہے اور اس پر تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین کے دستخط بھی موجود ہیں۔ لیکن عملاً کیا ہوا؟ ابھی اس فیصلہ پر ہونے والے دستخطوں کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسمبلی میں خود ان جماعتوں نے اس فیصلہ کی دھجیاں اڑا دیں۔ سرکاری شڑیعت بل پیش ہوا، صرف ایک جماعت کے ارکان اسمبلی نے اس مسودہ کا بائیکاٹ کیا جبکہ باقی تمام جماعتیں اس پر بحث میں شریک ہوئیں، رسمی اختلاف بھی کیا اور منظوری میں شرکت ہوگئی۔ اس سرکاری شریعت بل میں کیا ہے؟ سراسر کفر و ارتداد ہے اور اس میں وہ رسوائے زمانہ دفعہ بھی شامل ہے جس میں قرآن و سنت کی بالادستی سے ملک کے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شریعت بل کے سرکاری مسودہ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد شریعت بل کی جدوجہد کا حشر یہ ہوا کہ اس جدوجہد کے دو ذمہ دار بزرگوں نے مسلم لیگ کے ووٹوں سے سینٹ کی ممبر شپ حاصل کر لی۔ ایک بزرگ وزارت مذہبی امور پر فائز ہوگئے اور ایک نے بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت پر ہی قناعت کر لی۔ میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ اس صورتحال پر اپنی رائے نہ دوں لیکن واقعات کی ترتیب کو بدلنا میرے بس کی بات نہیں ہے، نہ واقعات کے درمیان فاصلوں کو لمبا کر سکتا ہوں اور نہ ایک کارکن کو، جو پہلے سے زیادہ سیاسی شعور اور کھلی آنکھیں رکھتا ہے، واقعات کی اس ترتیب پر رائے قائم کرنے سے روک سکتا ہوں۔

حضراتِ محترم! یہ ہے میرے دل کا درد جسے میں نے آج آپ کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے اور اب میں آتا ہوں حالیہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے رول کی طرف جو آج ملک کا سب سے اہم موضوع گفتگو ہے اور کم و بیش ہر مجلس میں اس پر اظہا رخیال ہو رہا ہے:

  • اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو چکی ہیں جس سے عورت کی حکمرانی کی افسوسناک صورتحال پھر سے سامنے آگئی ہے۔ ملک کے دینی حلقے اس سے پریشان ہیں اور علماء کی جماعتوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء نے میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے بے نظیر دوبارہ وزیراعظم بن گئی ہیں۔ اس کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مذہبی جماعتوں پر یہ اعتراض درست نہیں ہے اس لیے کہ میاں نواز شریف کی پالیسیوں کے باعث مذہبی جماعتوں کے لیے ان کی حمایت کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عورت کی حکمرانی کے خلاف دینی جماعتوں کی جدوجہد کے نتیجہ میں اور دینی جماعتوں کی انتخابی رفاقت کے ساتھ میاں محمد نواز شریف وزارتِ عظمیٰ تک پہنچے لیکن جب ان سے کہا گیا کہ اسمبلی میں انہیں اکثریت حاصل ہے اس لیے عورت کی حکمرانی کا راستہ قانون سازی کے ذریعے روک دیں تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ بنیاد پرست نہیں ہیں اور نہ بنیاد پرستوں کے زیراثر ہیں اس لیے وہ عورت کی حکمرانی کے مخالف نہیں ہیں۔
  • پھر شریعت بل کے ساتھ جو حشر ان کی حکومت نے کیا اس کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں شریعت بل کے حامیوں میں تھے، اس کی حمایت میں کانفرنسوں میں تقریریں کرتے رہے اور خود ان کی مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے سینٹ میں اسے منظور کرایا۔ مگر جب اپنی حکومت آئی تو میاں محمد نواز شریف نے شریعت بل کو ’’کفر بل‘‘ میں تبدیل کر دیا۔
  • اس کے بعد سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کا مرحلہ آیا تو میاں محمد نواز شریف سے گزارش کی گئی کہ اسے چیلنج کرنے کا راستہ اختیار نہ کریں، یہ قرآن و سنت کا فیصلہ ہے۔ لیکن ان کی کابینہ کے وزراء نے کھلم کھلا اس فیصلہ کے خلاف بیان بازی کی اور سود کے حوالہ سے علماء کے بارے میں توہین آمیز زبان اختیار کی گئی۔ بلاسود بینکاری کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جامع رپورٹ حکومت کی میز پر پڑی رہی جس کی اشاعت پر پابندی تھی، مگر میاں صاحب کے وزراء مسلسل یہ کہتے رہے کہ علماء کے پاس بینکاری کا کوئی متبادل نظام نہیں ہے اور پھر میاں نواز شریف کی حکومت نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا۔

اس کے بعد علماء سے توقع رکھنے کی کون سی بات باقی رہ گئی تھی؟ اور یہ بات بھی نہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے یہ سب کچھ کسی مجبوری کے تحت کیا ہو بلکہ یہ سب کچھ ان کی پالیسی کا حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں انہوں نے اسلام اور شریعت کا نام تک اپنی انتخابی مہم میں نہیں لیا۔ اس کے برعکس وہ یہ کہتے رہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہی اسلام ہے۔ اس کے علاوہ ان کے منشور میں، ان کی انتخابی تقریروں میں اسلام کے نفاذ کا، شریعت کی بالادستی کا اور قرآن و سنت کے احکام کی عملداری کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس لیے اگر علماء نے اور مذہبی جماعتوں نے اس الیکشن میں نواز لیگ کا ساتھ نہیں دیا تو کوئی غلط کام نہیں کیا بلکہ اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہے۔ اس کے برعکس اگر دینی جماعتیں اس ساری صورتحال کے باوجود الیکشن میں میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دیتیں تو میرے نزدیک یہ دینی بے حمیتی کا مظاہرہ ہوتا۔

البتہ مذہبی جماعتوں کا اصل قصور کچھ اور ہے جس نے انہیں موجودہ مقام تک پہنچایا ہے اور وہ قومی سیاست میں عبرت کا عنوان بن کر رہ گئی ہیں۔ اس میں اور کسی کا کوئی قصور نہیں ہے، جو کچھ ہے سب مذہبی جماعتوں کا اپنا کیا دھرا ہے۔ میں اس الیکشن کے دوران ملک میں موجود نہیں تھا، جون کے آغاز میں برطانیہ چلا گیا تھا اور اکتوبر کے وسط میں واپس آیا ہوں لیکن الیکشن سے لاتعلق نہیں رہا، اپنا حصہ ادا کر کے گیا ہوں اور اسے اب آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ ریکارڈ میں آجائے۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ اس ملک کے عوام نے مذہبی قوتوں کو کبھی مایوس نہیں کیا لیکن اس وقت جب مذہبی قوتیں متحد ہو کر سامنے آئی ہیں۔ ایسا بار بار ہوا ہے کہ کسی دینی اور قومی مسئلہ پر مذہبی قوتیں متحد ہوئیں تو پوری قوم ان کی پشت پر آکھڑی ہوئیں۔ لیکن مذہبی جماعتیں متحد نہ رہ سکیں جس کی وجہ سے اب ان کے اکٹھے ہونے پر بھی لوگ آسانی سے اعتماد نہیں کرتے۔

اس سال جب جناب غلام اسحاق خان نے پہلی بار قومی اسمبلی توڑی اور میر بلخ شیر مزاری صاحب نے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا ہے تو میں پاکستان میں تھا۔ اس موقع پر لاہور میں متحدہ علماء کونسل کے دفتر میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ حضرات کا اجتماع ہوا، میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس بات پر غوروخوض ہوا کہ الیکشن میں مذہبی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کی کوئی صورت کی جائے۔ ہمارا تجزیہ یہ تھا کہ اگر مذہبی قوتیں متحد ہو کر ایک پرچم تلے اس الیکشن میں حصہ لیتی ہیں تو قومی اسمبلی میں بیس سے پچیس تک سیٹیں ان کے پاس ہوں گی، اس طرح توازن کی قوت ان کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ حکومت سازی اور قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں گی۔ اور اگر وہ اس کے بعد اگلے الیکشن تک متحد رہنے کا کارنامہ سرانجام دے سکیں تو اگلے انتخابات میں فیصلہ کن پوزیشن حاصل کرنا بھی ان کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ اس تجزیہ کو بنیاد بنا کر ہم نے دینی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلا وفد جو پندرہ سولہ ذمہ دار حضرات پر مشتمل تھامنصورہ میں جناب قاضی حسین احمد صاحب سے ملا۔ وفد نے متکلم کی ذمہ داری مجھے ہی سونپ دی اور میں نے قاضی صاحب موصوف کے ساتھ اپنے تعلقات کی گرم جوشی بلکہ ایک حد تک بے تکلفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی تمہید کے بغیر کھلی کھلی گزارشات پیش کر دیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں بلکہ قوم چاہتی ہے کہ مذہبی جماعتیں متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیں اور اس سلسلہ میں ہم آپ کے پاس یہ درخواست لے کر آئے ہیں کہ مہربانی فرما کر آپ پروٹوکول چھوڑ کر دینی جماعتوں کے قائدین کے پاس خود تشریف لے جائیں اور کسی عنوان سے بھی انہیں یکجا بٹھا کر اس اتحاد کے لیے مل جل کر کوئی عملی صورت نکالیں، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی اس کام لیے آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ قاضی صاحب نے ہمارے موقف سے اصولی طور پر اتفاق کیا اور فرمایا کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ ان دنوں اسی مسئلہ پر بحث کر رہی ہے اس کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کے اجلاس جاری ہیں، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد آپ حضرات کو اعتماد میں لے کر اس سلسلہ میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ ہم قاضی صاحب موصوف سے یہ بات سن کر اطمینان کے ساتھ گھروں میں آگئے کہ اب اگلا مرحلہ قاضی صاحب کی طرف سے ہمیں اعتماد میں لینے کے بعد سامنے آئے گا لیکن چند ہی دنوں بعد قاضی حسین احمد صاحب کی طرف سے ’’پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کے قیام کا اعلان سامنے آگیا جس کے لیے نہ کسی اور مذہبی جماعت سے مشورہ کی ضرورت محسوس کی گئی تھی او رنہ ہمارے ساتھ ہمیں اعتماد میں لینے کا وعدہ پورا کیا گیا تھا۔

پاکستان اسلامک فرنٹ کس طرح بنا، اسے آگے بڑھانے کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے گئے اور الیکشن میں اس کا کیا حشر ہوا، یہ ایک الگ موضوعِ گفتگو ہے۔ لیکن اس مرحلہ میں اتنی گزارش ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک قاضی صاحب کی اس حکمت عملی کے دو مقاصد تھے، ایک میں وہ کامیاب ہوئے ہیں جبکہ دوسرے میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک طرف انہوں نے میاں محمد نواز شریف کو یہ بتانا چاہا کہ میاں صاحب جماعت اسلامی کے بغیر وزیراعظم کے منصب تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ جماعت اسلامی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی نہ سہی لیکن مسلم لیگ کی پندرہ بیس سیٹیں خراب کرنے کی صلاحیت ضرور موجود ہے اور انتخابی نتائج گواہ ہیں کہ قاضی صاحب کو اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف قاضی صاحب کا مقصد مذہبی جماعتوں پر یہ واضح کرنا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی مذہبی قوت ہے اس لیے دوسری مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی کے ساتھ برابر کی جماعتوں کی حیثیت کا اظہار نہ کریں بلکہ اسی کے پیچھے چل کر اپنا سیاسی مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کر لیں۔ اس میں قاضی صاحب کو مکمل ناکامی ہوئی ہے اور ان کے تمام اندازے اور خوش فہمیاں نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔

قاضی حسین احمد صاحب کے علاوہ ہم اور رہنماؤں سے بھی ملے۔ مولانا عبد الستار خان نیازی سے ملاقات کی، مولانا فضل الرحمان سے ملے، مولانا سمیع الحق کی خدمت میں حاضری دی اور مولانا اعظم طارق کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر مذہبی جماعتوں کو انتخابات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا کوئی دروازہ ہمیں کھلا دکھائی نہ دیا۔

حضراتِ محترم! اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑی سی گھر کی بات بھی کر لوں۔ جمعیۃ علماء اسلام میرا گھر ہے اور گھر کے حوالہ سے بھی دل کے زخموں کو کریدنا چاہتا ہوں۔ مولانا عبد الحفیظ مکی ہمارے محترم دوست ہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے خلیفہ مجاز ہیں اور مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ سے تشریف لائے تو ہم دونوں اکٹھے مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق سے ملے اور جماعتی اتحاد کے لیے گزارش کی۔ دونوں کا جواب ایک ہی تھا، اندازِ بیان میں فرق ہو سکتا ہے لیکن مفہوم و مقصد ایک ہی تھا کہ جمعیۃ علماء اسلام کا اتحاد کوئی قابل عمل تجویز نہیں ہے۔ دونوں راہنماؤں سے ہماری دوسری گزارش یہ تھی جو میں نے ’’اضعف الایمان‘‘ کہہ کر ان کی خدمت میں پیش کی کہ کم از کم انتخابی نشستوں پر ہی مفاہمت کر لیں کیونکہ ۱۹۹۰ء کے الیکشن میں جمعیۃ کے دونوں دھڑوں کے باہمی مقابلہ کی وجہ سے کئی نشستیں ضائع ہوگئی تھیں۔ دونوں راہنماؤں نے اس پر اتفاق کیا کہ سیٹوں پر انتخابی مفاہمت ہو سکتی ہے اور ہم اس کے لیے کوئی عملی صورت ضرور اختیار کر لیں گے۔ لیکن بدقسمتی ہم پر غالب آگئی اور ایسا بھی نہ ہو سکا۔ میں اپنے جماعتی راہنماؤں کی سیاسی بصیرت کو آخر کن الفاظ سے تعبیر کروں کہ جو سیٹیں ۱۹۹۰ء کے الیکشن میں باہمی مقابلہ کی وجہ سے ضائع کی گئی تھیں، وہ اور ان کے ساتھ کچھ اور سیٹیں اس الیکشن میں بھی اسی گروہی کشمکش کی وجہ سے ضائع کر دی گئی ہیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق اگر جمعیۃ کے دونوں دھڑے ہی انتخابی مفاہمت کر لیتے تو اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیۃ کے پاس ایک درجن سے زائد نشستیں ہوتیں لیکن راہنماؤں کی شخصی انا اور دھڑے بندی کی ترجیحات نے غریب کارکنوں کی محنت اور آرزوؤں کا سربازار خون کر دیا ہے اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔

حضراتِ محترم! اب میں آخری نکتہ کی طرف آتا ہوں کہ آئندہ کیا ہوگا؟ اس سلسلہ میں دوٹوک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں ایک بات کا گہری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ابھی ہم نے انتخابی سیاست کے میدان میں مزید کچھ عرصہ رہنا ہے؟ اگر رہنا ہے تو اس کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے اور اس کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ دینی جماعتیں شخصی انا اور گروہی ترجیحات کے حصار سے باہر نکلیں اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے متحد ہو کر دینی سیاست کا جداگانہ تشخص قائم کریں۔ اس کے سوا اب کوئی راستہ نہیں ہے اور اگر اب بھی دینی جماعتیں اپنی موجودہ روش پر قائم رہیں تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور تو آپ کے ہاتھ سے پہلے ہی نکل چکی ہے، اگلے دو انتخابات میں رہی سہی انتخابی نمائندگی کا مسئلہ بھی صاف ہو جائے گا اور یورپ کے عیسائی پادری کی طرح پاکستان کے علماء کے لیے بھی اجتماعی زندگی کے معاملات شجر ممنوعہ بن کررہ جائیں گے۔ حالات کا رخ اسی منزل کی طرف ہے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے حالات کے سفر کو روکا نہیں جا سکتا۔ اور اگر ملک کی مذہبی جماعتیں اور دینی قائدین یہ نہیں کر سکتے اور ان کے لیے شخصی انا اور گروہی تحفظات دین و ملت کے ہر تقاضے سے بالاتر ہو چکے ہیں تو پھر خدا کے لیے انتخابی سیاست چھوڑ دیں، یہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اپنی رہی سہی قوت کو دھیرے دھیرے گمنامی کے سمندر میں دھکیلنے کی بجائے اس قوت سے کوئی اور کام لے لیں۔

انتخابی سیاست کوئی حرف آخر تو نہیں ہے، یہ ایک طریق کار تھا جو ہمارے اکابر نے اپنے وقت اور زمانہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کیا تھا۔ یہ وحیٔ الٰہی نہیں ہے، جدوجہد کے اور بھی طریق کار ہو سکتے ہیں اور پھر یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اس انتخابی سیاست کی خاطر ہمیں کہاں کہاں قربانی دینا پڑی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی فضا مکدر ہوگئی ہے، تعلیمی نظام تباہ ہوگیا ہے، علمی استعداد کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے، اخلاقی قدریں پامال ہوگئی ہیں اور نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی کے ناگزیر تقاضے غارت ہوگئے ہیں۔ اتنی بڑی قربانی کے ساتھ انتخابی سیاست کا راستہ اختیار کرنے کے بعد بھی ہم اگر اس کے تقاضے پورے نہ کر سکیں تو تف ہے ہماری سیاست پر اور نفریں ہے ہماری سیاسی بصیرت پر۔

حضراتِ محترم! میں انتخابی سیاست کا اب بھی مخالف نہیں ہوں بشرطیکہ اس کے تقاضے پورے کیے جائیں لیکن دینی جماعتوں اور قائدین کی موجودہ سیاسی روش کو سامنے رکھتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ یہ عرض کر رہا ہوں کہ قائدین اگر اپنی اصلاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو انتخابی سیاست کا طوق گلے سے اتار دیں اور کارکنوں کو کھلا چھوڑ دیں کہ جس سیاسی جماعت میں ان کے سینگ سمائیں اس میں چلے جائیں۔ وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟ وقت گزرتا جا رہا ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے جب آپ کے ہاتھ میں یہ اختیار بھی باقی نہیں رہے گا اور وہ دن علماء کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہوگا، اللہ تعالیٰ اس سے بچائیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter