چند دن متحدہ عرب امارات میں

   
۱۶ جولائی ۲۰۱۲ء

متحدہ عرب امارات میں پانچ دن گزار کر گزشتہ روز (جمعۃ المبارک) جدہ پہنچ گیا ہوں۔ عرب امارات میں دوبئی، شارجہ، عجمان، جبل علی اور الفجیرہ میں دوستوں سے ملاقاتیں کیں اور آرام اور سیر و سیاحت میں زیادہ وقت گزرا۔ شارجہ میں پرانے دوست اور ساتھی محمد فاروق شیخ کے پاس رہا جو گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جمعیۃ طلباء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے ایک دور میں صدر رہے ہیں۔ ۱۹۷۵ء کے دوران چند روز کے لیے میرے جیل کے رفیق بھی تھے، کم و بیش چھبیس سال سے شارجہ کی ایک کمپنی میں ملازم ہیں اور سمندر کے کنارے ایک بلند و بالا پلازے کی ستائیسویں منزل میں مقیم ہیں جہاں سے سمندر اور اردگرد کے مناظر سامنے دکھائی دیتے ہیں۔

میں پہلی بار ۱۹۸۵ء کے آغاز میں دوبئی آیا تھا، اس کے بعد متعدد بار آنے کا اتفاق ہوا مگر اس دفعہ اطمینان سے گھومنے پھرنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ۱۹۸۵ء میں پہلی بار شاید کسی قصبے میں آیا تھا اور اب دنیا کے کسی بڑے شہر میں گھوم رہا ہوں۔ دوبئی، شارجہ اور عجمان انتظامی لحاظ سے الگ الگ ریاستیں ہیں لیکن آبادی کے اتصال نے انہیں ایک بڑے شہر کی حیثیت دے دی ہے اور پھر جبل علی کی طرف دوبئی کے پھیلاؤ نے اس کمبائنڈ سٹی کی وسعت کو دوچند کر دیا ہے۔ بلند و بالا عمارتیں اور پلازے اب شاید اپنی تعداد میں تین کا ہندسہ کراس کر چکے ہیں اور ’’یتطاولون فی البنیان‘‘ کی عملی تصویر کھلے عام دکھائی دے رہی ہے۔

عرب امارات کی معاشرت اور تعلیم کے ماحول میں مغربی طور طریقے عام ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد یہاں آباد ہے جو یہاں ملنے والی سہولتوں اور آرام دہ زندگی سے تو مطمئن ہیں لیکن اپنے بچوں کی تعلیم اور معاشرتی ماحول کے حوالے سے ان کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے جس پر ایک مجلس میں مختلف طبقات کے لوگوں نے مجھ سے بات کی اور اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ یہاں تعلیم پانے والے بچوں اور نوجوانوں کی اکثریت اپنے خاندانی طرزِ زندگی اور پاکستانی معاشرت سے نہ صرف لاتعلق ہو رہی ہے بلکہ اس لاتعلقی میں جھنجھلاہٹ اور کسی حد تک نفرت کا عنصر بھی دھیرے دھیرے شامل ہو رہا ہے، جس میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی روز افزوں خبریں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔ واقفِ حال حلقے ان ریاستوں کے معاشی مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں اور اور اس کے ساتھ اپنے مستقبل کی وابستگی ان کی فکرمندی کو بڑھا رہی ہے۔

میں نے یہاں آتے ہی اپنے میزبان سے کہہ دیا تھا کہ چند دن آرام اور گھومنے پھرنے کے لیے آیا ہوں اس لیے کوئی باقاعدہ پروگرام نہ رکھا جائے لیکن پھر بھی جاتے جاتے ایک پروگرام ہو ہی گیا۔ الفجیرہ متحدہ عرب امارات کی ایک مستقل ریاست ہے جو شارجہ سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، وہاں ہمارے ایک پرانے دوست مولانا محمود قریشی رہتے ہیں، دعوت و تدریس کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، لکی مروت سے تعلق ہے اور مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں پڑھتے رہے ہیں۔ ان کے بیٹے عامر محمود نے مدینہ یونیورسٹی میں کلیۃ الشریعہ کا کورس کر کے ڈگری حاصل کی ہے اس خوشی میں جمعرات کی شب کو انہوں نے احباب کی دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ انہیں میری شارجہ میں موجودگی کا علم ہوا تو تقاضا کیا کہ ان کی اس خوشی میں ضرور شریک ہوں، میں بھی انکار نہ کر سکا اور اگرچہ جمعۃ المبارک کو صبح سات بجے میری جدہ کے لیے فلائٹ تھی اور بظاہر الفجیرہ جانا مشکل تھا لیکن محمد فاروق شیخ نے ہمت کی، گکھڑ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان محمد عمر بٹ بھی ساتھ شامل ہوگئے اور ہم مغرب تک الفجیرہ جا پہنچے۔

وہاں ایک اور پرانے دوست ڈاکٹر احمد خان صاحب سے اچانک ملاقات نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی، وہ وفاق المدارس کے سابق ناظم مولانا مفتی محمد انور شاہ صاحب کے بھائی ہیں اور ایک عرصہ سے بحرین میں ایک اسلامی مرکز کے ڈائریکٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا اور اسلام قبول کرنے والے افراد اور جوڑوں کو راہنمائی اور ضروری سہولتیں فراہم کرنا اس ادارے کا اہم ایجنڈا ہے۔ برطانیہ کی مختلف کانفرنسوں میں کچھ عرصہ پہلے تک ان کے ساتھ ملاقات رہی ہے۔ مولانا محمود قریشی کے عزیز ہیں اور اسی مناسبت سے وہ اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ڈاکٹر احمد خان نے بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں اور اسلام میں ان کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی میں مولانا عبدالرؤف فاروقی کی نگرانی میں اس مقصد کے لیے ادارہ کام کر رہا ہے لیکن ہمارے ماحول میں اسلام قبول کرنے والوں کو ایک بڑی رکاوٹ اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ یہ کہ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی وہ اپنے ماحول، برادری اور معاشرت سے کٹ جاتے ہیں اور نئے ماحول میں انہیں نہ تو باوقار طریقے سے سنبھالا جاتا ہے اور نہ ہی معاشرتی طور پر انہیں کھلے دل سے قبول کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ مکمل تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں کے رشتے ناتے بھی ان کے لیے مستقل پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ انہوں نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہم سب کو اس کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

عشاء کے بعد مولانا محمود قریشی کے گھر میں دعوت کا اہتمام تھا جس میں مختلف علاقوں سے علماء کرام اور دیگر احباب نے شرکت کی اور اس موقع پر گفتگو کا بھی ایک مختصر دور ہوا۔ ڈاکٹر احمد خان صاحب نے دینی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اور راقم الحروف نے مولانا عامر محمود قریشی اور ان کے والد محترم اور اہل خاندان کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ ایک نوجوان عالم دین نے رسمی تعلیم کے بعد علمی ترقی کا راستہ اختیار کیا ہے اور کلیۃ الشریعہ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میں نے گزارش کی کہ شریعت کی ایک مستقل علم اور فن کے طور پر تعلیم میرے لیے زیادہ خوشی کی بات ہے اور میں تین حوالوں سے اس کی ضرورت و اہمیت کو ترجیح دیتا ہوں:

  1. ایک یہ کہ ہمارے مسلم معاشروں میں عوام کی اکثریت شریعت کے احکام و قوانین سے بے خبر ہے اور روز مرہ زندگی کے لیے شرعی احکام سے انہیں آج کے حالات کے مطابق واقف کرانے کے لیے نوجوان علماء کرام کو یہ تعلیم زیادہ توجہ کے ساتھ حاصل کرنی چاہیے۔
  2. دوسرا اس وجہ سے کہ خود ہماری نئی نسل کے نوجوان بڑی تعداد میں شرعی احکام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور جدید تعلیم اور تہذیب و فکر نے ان کے ذہنوں میں اعتراضات اور شکوک و شبہات کا ایک جنگل آباد کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان شکوک و شبہات کے ازالے اور ان سے نجات کے لیے وہ علماء کرام سے ہی رجوع کریں گے اس لیے نوجوان علماء کرام کو اس زاویے سے شریعت کی تعلیم کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وہ نئی نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو جانے والے شکوک و شبہات کو علمی اور منطقی انداز میں دور کر کے ان کی صحیح راہنمائی کر سکیں۔
  3. اور تیسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ماحول میں اسلام کے شرعی احکام و قوانین پر اعتراضات اور تنقید کا دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے جن میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلام کے بہت سے احکام انسانی حقوق کے منافی ہیں۔ ان اعتراضات کا آج کے عالمی تناظر میں جواب دینا اور اسلامی احکام و قوانین کی حقانیت و افادیت کو دنیا کے سامنے دلیل و منطق کے ساتھ پیش کرنا علماء کرام ہی کا فریضہ ہے۔ اس پہلو سے بھی شریعت کی تعلیم نوجوان علماء کرام کی اہم ضرورت ہے۔

بہرحال اس قسم کی مصروفیات میں چار پانچ دن مصروف رہ کر متحدہ عرب امارات سے سعودی عرب پہنچ گیا ہوں جہاں ان شاء اللہ تعالیٰ اڑھائی ہفتے کے لگ بھگ قیام رہے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter