روزنامہ جنگ لاہور ۲۵ جولائی ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے خواتین کو مساوی حقوق کی یقین دہانی کے لیے ملک کے آئین میں ترمیم کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم کے حوالے سے بتایا ہے کہ آئینی ترمیم میں مذہبی، نسلی اور علاقائی امتیاز کی غیر قانونی کاروائیوں کی فہرست میں جنس کا اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوانین اور پالیسیوں میں مساوی حقوق کا عمل دخل ہوتا ہے پھر مرد اور عورت میں فرق کیوں کرتے ہیں؟‘‘
مرد اور عورت میں ہر معاملہ میں مساوات قائم کرنا اور اسے دستوری تحفظ فراہم کرنا مغرب کے سیکولر فلسفہ کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ جس کی بنیاد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی اس دفعہ پر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی حکومت اپنے شہریوں کے درمیان مذہب، نسل، علاقہ، رنگ اور جنس کے حوالے سے کوئی امتیاز روا نہیں رکھے گی، اور ان میں سے کسی بھی حوالے سے کوئی امتیازی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔
یہ بظاہر ایک بے ضرر سی دفعہ دکھائی دیتی ہے، لیکن اس میں ان تمام اسلامی احکام و قوانین کی نفی کر دی گئی ہے جن میں کسی مسلم ریاست کے شہریوں کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے الگ الگ حقوق اور قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس مختصر گزارش میں ان تمام امور کا ذکر ممکن نہیں ہے مگر ان میں سے چند ایک کا بطور مثال تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے، مثلاً:
- ایک اسلامی ریاست میں کوئی غیر مسلم کسی کلیدی منصب پر فائز نہیں ہو سکتا اور وہ جنگی اور جہادی خدمات سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔
- اسی طرح خاندانی نظام میں مرد کو گھر کے حکمران کی حیثیت اور طلاق کا حق حاصل ہے۔
- بہت سے معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔
- اور وراثت میں بھی بہت سی صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کے برابر نہیں ہے۔
یہ اور اس قسم کے دیگر بیسیوں شرعی قوانین اقوامِ متحدہ کے منشور اور مغرب کے سیکولر فلسفہ کی رو سے مذہب اور جنس کی بنیاد پر امتیاز شمار ہوتے ہیں اور مساوات کے منافی ہیں۔ اس لیے مسلم ممالک اور ان کی حکومتوں پر مغربی ممالک کی طرف سے مسلسل یہ دباؤ رہتا ہے کہ وہ ان قوانین اور ضابطوں کو منسوخ کر کے مغربی فلسفہ کے مطابق ملک کے شہریوں میں مکمل مساوات قائم کرنے کی دستوری ضمانت دیں، اور ہمارے نزدیک ملائیشیا مہاتیر محمد کا یہ عزم بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔
اکثر و بیشتر مسلم ممالک کے حکمران مغرب ہی کے پروردہ، تربیت یافتہ اور نمائندہ ہیں، اس لیے ان سے تو اس کے سوا کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ البتہ عالمِ اسلام کے دینی و علمی حلقوں اور اسلامی تحریکات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال پر نظر رکھیں، اور عالمِ اسلام کی رائے عامہ کو انسانی حقوق، مذہبی و جنسی امتیاز کے خاتمہ، اور مساوات کے قیام کے خوبصورت عنوانات کے پیچھے کارفرما مغرب کی اسلام دشمن روش، نہ صرف اسلام بلکہ فطرت کے قوانین کے خلاف سیکولر قوتوں کی اس مہم کے اصل مقاصد سے باخبر کریں، اور اسلام دشمنی کی اس عالمی مہم کو بے نقاب کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔