مسئلہ کشمیر: تاریخی پس منظر، موجودہ صورتحال اور صدر مشرف کا دورۂ بھارت

   
جولائی ۲۰۰۱ء

صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف ماہِ رواں کے دوران بھارت کے دورے پر جا رہے ہیں جہاں وہ انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات اور تعلقات پر بات چیت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ گفتگو میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہوگا اور انہیں توقع ہے کہ وہ اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

  • کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے مسلمان حکومت آٹھویں صدی ہجری میں قائم ہوئی اور شاہ میر نے ۷۴۰ھ مطابق ۱۳۳۹ء میں سلطان شمس الدین اول کے لقب کے ساتھ اسلامی اقتدار کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وادی کشمیر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے ۱۸۴۶ء میں جموں کے ہندو ڈوگرہ خاندان کے تسلط میں چلی گئی جب فرنگی حکمرانوں نے ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت پچھتر لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض کشمیر کا یہ خطہ ڈوگرہ خاندان کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ مگر جب گلاب سنگھ نے کشمیر پر قبضہ کرنا چاہا تو کشمیر کے مسلم حکمران شیخ امام دین نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور میدان جنگ میں گلاب سنگھ کو شکست دے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد کرنل لارنس کی قیادت میں انگریزی فوج میدان میں آئی اور شیخ امام دین کو شکست دے کر اس نے گلاب سنگھ کو کشمیر کا قبضہ دلا دیا۔ تب سے کشمیری عوام کی جنگ آزادی جاری رہی ہے اور کشمیری مسلمان ڈوگرہ حکمرانوں کے دور سے مسلسل نبرد آزما چلے آرہے ہیں۔
  • ۱۸۳۱ء میں مجاہدین بالاکوٹ کے امیر حضرت سید احمد شہیدؒ کشمیری عوام کی دعوت پر ان کی مدد اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے مظفر آباد آرہے تھے اور تاریخی روایات کے مطابق ان کے مجاہدین نے مظفر آباد چھاؤنی کو فتح بھی کر لیا تھا مگر بالاکوٹ کے مقام پر حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے باعث یہ مہم آگے نہ بڑھ سکی۔
  • ۱۹۳۱ء میں ڈوگرہ حکمرانوں کے وحشیانہ مظالم کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے ’’آل انڈیا مجلس احرار اسلام‘‘ میدان میں آئی اور تیس ہزار کے لگ بھگ رضاکاروں نے ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہو کر گرفتاری دی جبکہ ۲۲ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا اور باقاعدہ سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں۔
  • ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے موقع پر توقع پیدا ہو گئی تھی کہ واضح مسلم اکثریت رکھنے اور پاکستان کے پڑوس میں ہونے کے باعث جموں و کشمیر کی ریاست پاکستان میں شامل ہوگی اور کشمیری عوام کو ڈوگرہ خاندان کی ایک سو سالہ غلامی سے نجات مل جائے گی۔ مگر جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقہ جات سمیت پوری ریاست کا بھارت کے ساتھ یک طرفہ الحاق کا اعلان کر دیا اور بھارت نے اپنی فوجیں فوری طور پر ریاست میں داخل کر دیں۔ جس کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمان عوام نے علم جہاد بلند کیا اور قبائل کے غیور پٹھانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے جموں و کشمیر کا وہ خطہ آزاد کرا لیا جسے ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ادھر گلگت، بلتستان اور سکردو کے عوام بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور علم جہاد بلند کر کے اپنے علاقے کو ڈوگرہ خاندان سے آزاد کرا لیا۔ یہ علاقہ جموں و کشمیر کے ’’بین الاقوامی طور پر متنازعہ خطہ‘‘ کا حصہ ہے اور تنازع طے ہونے تک حکومت پاکستان نے عارضی طور پر اس خطہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔

پاکستان کے بجائے بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی راہ ہموار کرنے میں جہاں ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی اپنی ریاست کے عوام کے ساتھ غداری کا بڑا رول ہے وہاں قادیانیوں کا کردار بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس لیے کہ اس وقت بھارت کے پاس کشمیر میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ تھا جو مشرقی پنجاب کے ضلع گوداسپور سے گزرتا تھا۔ مشرقی پنجاب کے بارے میں تقسیم کا یہ فارمولا تھا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے مسلم اکثریت کے ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہوں گے اور جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے وہ بھارت میں شامل ہوں گے۔ اس فارمولے کے مطابق علاقوں کی تقسیم اور بین الاقوامی سرحد کے تعین کے لیے لارڈ ریڈ کلف کی سربراہی میں کمیشن کام کر رہا تھا۔ قادیانیوں کا مرکز ’’قادیان‘‘ ضلع گوداسپور میں واقع ہے اور اس ضلع میں آبادی کی پوزیشن یہ تھی کہ اگر قادیانی گروہ اپنا شمار مسلمانوں کے ساتھ کراتا تو ضلع گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پا کر پاکستان میں شامل ہو جاتا۔ اور اگر قادیانیوں کا شمار غیر مسلموں میں ہوتا تو یہ علاقہ غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پا کر بھارت کا حصہ بنتا۔ یعنی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان آبادی کے تناسب کی کنجی قادیانیوں کے ہاتھ میں تھی مگر قادیانی گروہ نے، جو آج قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں پاکستانی پارلیمنٹ کے فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں شور مچا رہا ہے اور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر کے خود کو زبردستی مسلمان کہلانے پر بضد ہے، تقسیم ہند کے موقع پر انہوں نے قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر ریڈ کلف کمشن کے سامنے اپنا کیس مسلمانوں سے الگ اور جداگانہ حیثیت سے پیش کیا جس کی وجہ سے گورداسپور کا یہ علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ تسلیم نہ ہوا اور اسے بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اسی سے بھارت کو کشمیر میں داخلے کا راستہ ملا اور اس نے فوجیں داخل کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا۔

دوسری طرف مظفر آباد، پونچھ اور میرپور میں کشمیری مجاہدین قبائلی مسلمانوں اور پاکستانی فوج کی مدد سے علم جہاد بلند کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بعض دستے پونچھ شہر اور سری نگر کے نواح میں پہنچ گئے تھے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اقوام متحدہ نے ایک واضح قرارداد کے ذریعے سے کشمیری عوام کے ساتھ یہ وعدہ کرتے ہوئے جنگ بندی کی اپیل کر دی کہ انہیں ان کی آزادانہ مرضی اور عوامی استصواب کے ذریعے سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا حق دیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی اس اپیل پر جنگ بندی کر دی گئی۔ اس وقت تک جتنا حصہ آزاد ہو چکا تھا اس میں میر پور، راولاکوٹ اور مظفر آباد کے علاقوں پر مشتمل ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کے نام سے آزاد حکومت قائم کر دی گئی جبکہ گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات کو حکومت پاکستان نے عارضی انتظام کے طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس کے بعد سے کشمیری عوام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل یہ آواز بلند کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی وعدہ کے مطابق آزادانہ استصواب کے ذریعے سے انہیں حق خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے مگر نہ بھارت اس کے لیے تیار ہو رہا ہے اور نہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ہی کشمیری عوام کو ان کا یہ جائز اور مسلمہ حق دلوانے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جبکہ اس وقت مبینہ طور پر چھ لاکھ کے لگ بھگ انڈین آرمی جموں و کشمیر کے بھارتی مقبوضہ حصے پر مسلط ہے اور ریاست کے عوام جبر و تشدد کے وحشیانہ ماحول میں سنگینوں کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی مظالم اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے خلاف تنگ آ کر متعدد بار ہتھیار اٹھائے اور ہزاروں نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس دوران میں کئی بار مذاکرات کی میز بچھی مگر نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط اس جدوجہد کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور احتجاج اور قربانی کا کوئی مرحلہ بھارت اور عالمی برادری کے طرز عمل میں تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ریاست جموں و کشمیر کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان اور دیگر ممالک میں مہاجر کے طور پر زندگی بسر کر رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے کشمیری اپنے اس مطالبہ پر پوری طرح متفق اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ انہیں اقوام متحدہ کے وعدے کے مطابق آزادانہ حق خود ارادیت کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ کشمیر دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ہے اور یہ ایسی جنت نظیر وادی ہے جس کے بارے میں کسی فارسی شاعر نے کہا تھا کہ:

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

مگر آج یہ جنت ارضی انڈیا کی چھ لاکھ فوج کی سنگینوں تلے آگ اور خون کا میدان کارزار بن چکی ہے اور اس خطے کے مظلوم مسلمان اپنی آزادی اور دینی تشخص کے لیے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ یہ تو مسئلہ کشمیر کا تاریخ پس منظر ہے جس کا تعلق ماضی سے ہے اور اس خطے کے عوام کے مسلمہ حقوق سے ہے مگر اس مسئلے کا ایک معروضی تناظر بھی ہے جسے اس موقع پر سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ:

  • جس طرح نصف صدی قبل تقسیم ہند کے موقع پر بین الاقوامی قوتوں بالخصوص مغربی استعمار کا مفاد اس میں تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا بہرحال قائم رکھی جائے اور اسی مقصد کے لیے طے شدہ پلان کے مطابق کشمیر کا مسئلہ سازش کے ذریعے سے کھڑا کیاگیا اور پھر اسے کبھی حل نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی، اسی طرح آج ان قوتوں کا مفاد اس میں ہے کہ یہ کشیدگی کم ہو اور پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آکر اس بین الاقوامی ایجنڈے پر عملدرآمد کی مشترکہ طور پر راہ ہموار کریں جو ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے نام سے پوری دنیا پر مغرب کی حکمرانی مسلط کرنے کے لیے منظم طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
  • مغربی حکمرانوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت کھٹک رہی ہے کیونکہ یہ مسلم دنیا کی ایٹمی قوت سمجھی جا رہی ہے اس لیے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
  • مغربی استعمار کو پاکستان کی فوج کا موجودہ سائز، صلاحیت اور جہاد کے عنوان سے اس کی تربیت کھٹک رہی ہے اور پاک فوج کی ڈاؤن سائزنگ اور اس کا ذہنی رخ بدلنے کے لیے کشمیر کا ٹارگٹ اس کی نگاہوں سے اوجھل کرنا ضروری سمجھا جا رہا، اس لیے بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
  • جہاد کے عنوان سے روسی جارحیت سے نجات حاصل کرنے کے بعد افغان مجاہدین نے وہاں جو اسلامی نظریاتی حکومت قائم کر لی ہے، اس تجربہ کا کشمیر میں اعادہ مغربی استعمار کے نزدیک ناقابل برداشت ہوگا اس لیے بین الاقوامی حلقوں کے نزدیک یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی تبدیلی جہاد کے عنوان سے نہ ہو اور بین الاقوامی سیاسی رابطوں کے ذریعے سے اسی طرح کا کوئی حل کشمیریوں پر مسلط کر دیا جائے جیسے ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کے تحت روسی افواج کو افغانستان سے واپسی کا راستہ دے کر کابل میں ایک کمزور سی حکومت بٹھا دی گئی تھی اور افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو مستقل طور پر آپس میں لڑاتے رہنے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔
  • مغربی حکمرانوں کو چین کے خلاف اپنا حصار مضبوط کرنے اور جنوبی ایشیا کو ایک بلاک کی صورت میں چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے بھی پاکستان اور بھارت کی دوستی اور اشتراک کار درکار ہے اور یہ مسئلہ کشمیر کے کسی نہ کسی حل کے سوا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین کے خلاف عسکری مہم جوئی کے لیے جغرافیائی طور پر وادیٔ کشمیر سب سے مضبوط اور موزوں عسکری مرکز ثابت ہو سکتی ہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی صورت میں اسے بین الاقوامی کنٹرول کے نام سے مغربی ملکوں کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
  • بھارت کو ریاست جموں و کشمیر سے دستبرداری میں اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کے ساتھ ساتھ یہ مشکل پیش آرہی ہے کہ اس کے اپنے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکات چل رہی ہیں اس لیے کشمیر کو آزادی دینے کی صورت میں مختلف علاقوں کی ان تحریکاتِ آزادی کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں بھارت اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے جس طرح جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تھے۔
  • پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بقول کشمیر ’’شہ رگ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ پاکستان کے لازوال دینی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتوں اور تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ کشمیر اس کے بیشتر دریاؤں کا سرچشمہ ہے اور مستقبل قریب میں پانی کے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے متوقع عظیم بحران سے قبل اپنے دریاؤں کے سرچشموں سے دستبرداری پورے پاکستان کو بنجر بنانے اور ایتھوپیا اور سوڈان جیسے خوفناک قحطوں کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔

اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مؤثر پیشرفت کا عزم لے کر انڈیا جا رہے ہیں تو بظاہر کسی مثبت پیشرفت کی توقع نہ ہونے کے باوجود ہم ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ پردۂ غیب سے خصوصی اسباب پیدا فرما کر ان کے لیے کامیابی کی راہ ہموار کر دیں تاکہ مظلوم کشمیری عوام کی جدوجہد اپنے منطقی نتیجہ سے ہمکنار ہو اور جنوبی ایشیا کے عوام امن کے ماحول میں سکون کا سانس لے سکیں۔ البتہ اس پرخلوص دعا کے ساتھ ہم جنرل پرویز مشرف سے بطور یاددہانی یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چار فریقوں کے الگ الگ مفادات یعنی پاکستان، کشمیری عوام، بھارت اور مغربی ممالک کی اس چوکور اور ان کے باہمی مفادات کے ٹکراؤ میں پاکستان اور کشمیری عوام کے مشترکہ مفادات کے حق میں توازن کو قائم رکھنا ان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے اور مغربی ممالک اور بھارت کے مفادات کے جال میں پھنسنے سے بچ گئے تو وہ نہ صرف پاکستان کی پوری تاریخ کے کامیاب ترین حکمران اور کشمیری عوام کے سب سے بڑے محسن شمار ہوں گے بلکہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں بھی شہاب الدین غوریؒ، محمود غزنویؒ اور ظہیر الدینؒ بابر کی فہرست میں جگہ پانے کے مستحق ہو جائیں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو دوسری فہرست میر جعفر، میر صادق اور اس قماش کے لوگوں کی ہے۔ خدا نہ کرے، خدا نہ کرے اور خدا نہ کرے کہ ہمارے جنرل صاحب کا نام ایسے لوگوں کے ساتھ نتھی ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter