مغربی تہذیب کے عروج کی ایک تصویر

   
جولائی ۲۰۰۴ء

مغرب کا دعویٰ ہے کہ اس کے غلبہ کے موجودہ دور میں انسانی تمدن اپنے عروج تک پہنچ گیا ہے اور اس کی تہذیب و ثقافت اعلیٰ انسانی اقدار و روایات کی حامل ہونے کی وجہ سے ترقی یافتہ اور کامل تہذیب کہلانے کی حق دار ہے۔ انسانی حقوق، احترام انسانیت اور اخلاق و شرافت کا ورد کرتے ہوئے دانشوروں کی زبانیں نہیں تھکتیں لیکن گوانتا موبے کے عقوبت خانوں اور بغداد کی ابو غریب جیل میں امریکی اہل کاروں نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو شرمناک سلوک روا رکھا ہے اس نے مغربی تہذیب کے چہرے سے اخلاق و شرافت اور انسانی اقدار کے تمام نقاب نوچ کر ایک طرف رکھ دیے ہیں۔

گوانتا موبے میں افغان قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی داستانیں ابھی زبانوں پر تھیں کہ ابو غریب جیل میں امریکی اہل کاروں کی درندگی اور سفاکی کی تصویروں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ابو غریب جیل کے انتظامات پر مامور عملہ کا ذاتی کردار تھا، اس لیے ابو غریب جیل کی امریکی انچارج بریگیڈیئر جنرل جانسن کار پنسکی کو اس کے منصب سے الگ کر دیا گیا ہے لیکن امریکی فوج کی اس خاتون بریگیڈیئر جنرل نے گزشتہ روز بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے حالانکہ اس تشدد کا حکم اسے اوپر سے ملا تھا۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۶ جون ۲۰۰۴ء کی رپورٹ کے مطابق ابو غریب جیل کی اس سابق انچارج نے کہا ہے کہ گوانتانا موبے جیل کے سربراہ میجر جنرل جیفری ملر نے اسے کہا تھا کہ قیدیوں کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کرنا کیونکہ وہ اگر قیدیوں کو کتوں سے زیادہ اہمیت دیں گی تو وہ قابو سے باہر ہوجائیں گے، اس کے ساتھ ہی جیفری ملر نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’میں نے تو اب تک یہی سیکھا ہے‘‘۔

جانس کار پنسکی کے اس انٹرویو کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ گوانتا موبے کے عقوبت خانوں اور ابو غریب جیل میں امریکی استعمار کے سامنے سر نہ جھکانے والے قیدیوں کے ساتھ جو شرمناک سلوک روا رکھا گیا ہے اور جس نے پوری دنیا کی لعنتوں کا رخ امریکہ کی طرف پھیر دیا ہے وہ اہل کاروں کی ذاتی پسند ناپسند کی بات نہیں بلکہ امریکی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ’’مغربی تہذیب کا اصل چہرہ ہے‘‘ جسے انسانی حقوق اور اخلاق و شرافت کے لبادوں میں چھپا کر دنیا کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter