محترم خواتین و حضرات! پیام صبح کے ساتھ ایک بار پھر حاضر میں ہوں آپ کا میزبان انیق احمد۔ خواتین و حضرات! ماہ مبارک کے حوالے سے خصوصی نشریات، آج ہم پروگرام پیش کر رہے ہیں مصطفی جان رحمت بادشاہی مسجد لاہور میں بیٹھ کر۔ خواتین و حضرات! آج ہمارا موضوع ہے ”اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور حالات حاضرہ“ ہماری خوش بختی کہ ہمارے ساتھ تشریف فرما ہیں ہمارے ملک کے ممتاز عالم دین محترم علامہ زاہد الراشدی صاحب جو اس پروگرام میں شرکت کے لیے خاص طور پر گوجرانوالہ سے تشریف لائے ہیں۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ سب آپ سے واقف، ہمارے ملک کا معروف، مقبول اور محبوب نام۔
سوال: علامہ راشدی صاحب! شروع کرتے ہیں آپ سے، آج کے جو ہمارے حالات ہیں، ہم امت مسلمہ کے حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ مسلمان زوال پذیر، زوال یافتہ، زوال آمدہ، زوال پرست۔ ان حالات سے ہمیں نکلنا ہے اور اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نظر رکھ کر نکلنا ہے تو آج سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہم سے کیا تقاضا کر رہا ہے؟
جواب: الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلیٰ الہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ اس مبارک محفل میں حاضری کا اور کچھ عرض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ قیامت تک تمام زمانوں کے لیے ہے اور آج کے زمانے کے لیے بھی ہمارے لیے وہی اسوہ حسنہ ہے اور آج ہم امت مسلمہ بطور خاص جن مسائل سے دوچار ہیں ان مسائل کی فہرست میں جائیں تو ایک لمبی فہرست ہے، اب تو ہم مسائل ہی میں گھرے ہوئے ہیں، لیکن ایک اصولی بات میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں جس کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وصیت قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے جو حجۃ الوداع کے خطبات ارشاد فرمائے تھے، ان میں امت کو اجتماعی وصیت کی تھی۔ ان کی دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔
ایک تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں کھڑے ہو کر اعلان فرمایا تھا ”کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی“ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں، یعنی میں جاہلیت کی قدریں ختم کر کے دنیا کو علم کے اور روشنی کے دور کی طرف لے جا رہا ہوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ اعلان فرمایا تھا تو فی الواقع جزیرۃ العرب میں جہاں حضورؐ کا دائرہ اختیار قائم ہو گیا تھا، جاہلیت کی ساری قدریں اور رسمیں ختم ہو کر ایک اچھی سوسائٹی وجود میں آ چکی تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بات کی طرف میں توجہ دلانا چاہوں گا کہ آپؐ نے فرمایا ”لاترجعوا بعدی ضلالا“ میں تمہیں جہالت کے دور سے واپس نکال کر لایا ہوں، کہیں اس دور میں واپس نہ چلے جانا۔
اس لیے میں پہلی بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے اور پوری امت کو غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم پہلے دور میں واپس تو نہیں چلے گئے۔ میں عمومی ماحول میں بات کروں گا کہ جاہلیت کی وہ قدریں اور وہ روایات جنہیں عرب معاشرے سے ختم کر کے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آئیڈیل سوسائٹی دنیا کو دکھائی وہ جاہلیت کی قدریں کہیں دوبارہ ہماری صفوں میں ایک ایک کر کے واپس تو نہیں آ گئیں۔ ہمیں ایک تو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا۔
ہمارے آج کے مسائل کی بنیاد یہ ہے کہ ہم تبرک کے لیے، برکت کے لیے، ثواب کے لیے اور اجر کے لیے تو قرآن پاک کی طرف دیکھتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے برکات حاصل کرنے کے لیے اور فائدے اٹھانے کے لیے حضورؐ کی طرف دیکھتے ہیں، مگر رہنمائی کے لیے ہم نے کچھ اور سرچشمے بنا رکھے ہیں اور رہنمائی کے لیے ہماری نظر کہیں اور اٹھتی ہے۔ میرے نزدیک ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے رہنمائی کے اصل مراکز کی طرف واپس آئیں۔ ہماری رہنمائی کے مراکز قرآن پاک، سنت رسول اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہیں اور اس ماحول اور اس منظر میں کہ جب دنیا کی دانش کی ایک اعلیٰ ترین سطح قرآن پاک کی طرف واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے، ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم پہلے اس کی طرف جائیں۔ میں ایک حوالہ دینا چاہوں گا۔ چند سال پہلے ویٹی کن سٹی کے ترجمان ایک میگزین نے دنیا کے معاشی بحران پر ایک رپورٹ چھاپی۔ اس رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ اب دنیا کو ایسے معاشی نظام کی ضرورت ہے جس کے اصول قرآن پاک نے بیان کیے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دنیا کی دانش کی ایک سطح تو قرآن پاک پر اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر غور کر رہی ہے، اس ماحول اور اس تناظر میں ہماری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ ہم نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ دنیا کی رہنمائی کے لیے بھی قرآن پاک اور سنت رسول کو دوبارہ اپنی رہنمائی کا ذریعہ بنائیں۔
سوال: علامہ صاحب! بات ہو رہی تھی لانگ ٹرم پلاننگز اور شارٹ ٹرم پلاننگز کی، امت کی سطح پر ہمیں لانگ ٹرم پلاننگ کیا کرنی چاہیے اور شارٹ ٹرم پلاننگ کیا کرنی چاہیے؟
جواب: گزارش یہ ہے کہ اس وقت جو ہمارے ملی مسائل اور امت کے مسائل ہیں سب سے پہلی بات اس کی ترجیحات کا تعین ہے۔ ایک بات جو اوریا مقبول جان صاحب نے مال کے حوالے سے فرمائی، میں اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لا اخشی علیکم الفقر“ مجھے اپنی امت پر فقر کا کوئی ڈر نہیں ہے، بلکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ مال تمہارے پاس آئے گا بہت آئے گا، لیکن مال میں تمہارا آپس کا تنافس ہوگا، مقابلہ ہوگا اور ریس ہوگی۔ اس ریس میں تم تباہ ہو جاؤ گے، مجھے اس کا تم پر ڈر ہے۔ یہ میں نے اس میں ایک بات کا اضافہ کیا، لیکن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ میں اپنے ذوق سے اس وقت امت کے مسائل میں دو باتوں کا بطور خاص پہلے نمبر پر ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک کرپشن ہمارا مزاج بن گیا ہے۔ کرپشن اور بددیانتی، تیسری دنیا کا کہا جاتا تھا، لیکن اب تو یہ ہمارا امت مسلمہ کا مزاج ہے تمام ممالک میں۔ ہمارے حکمران طبقے اور ہمارے عوام تقریباً کوئی طبقہ بحیثیت طبقہ کے کرپشن سے خالی نہیں ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہمیں اسوہ دیا ہے اور جو اس کا عملی نمونہ دیا ہے کہ کرپشن امت کو اور قوموں کو تباہ کر دیتی ہے اس پر میں ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرنا چاہوں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو خیبر کے محصولات کی وصولی کے لیے بھیجا۔ ان کا نام عبداللہ بن اللتبیہ ہے۔ جب وہ واپس آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے محصول پیش کیا کہ یا رسول اللہ! یہ زکوۃ کی رقم ہے، یہ عشر کی رقم ہے، یہ خراج کی رقم ہے وغیرہ ساری مدات ذکر کیں، لیکن ایک ڈھیری الگ لگائی۔ دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! یہ لوگوں نے مجھے تحفے دیے ہیں، یہ میرے ذاتی تحفے ہیں اور میرا حصہ ہے۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا سخت جملہ فرمایا حالانکہ عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا سخت جملہ نہیں فرمایا کرتے تھے، فرمایا تو اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا تب بھی تجھے یہ تحفے ملتے؟ یہ تجھے سرکاری منصب کی وجہ سے ملے ہیں۔ چنانچہ آنحضرتؐ نے وہ سارے ضبط کر لیے کہ سرکاری منصب سے کوئی بھی ذاتی فائدہ اٹھانا جائز نہیں۔
یہ آج ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ میرے پاس ایک چھوٹا سا منصب آ جاتا ہے تو میں امت کے اور قوم کے مفاد کو دیکھے بغیر اپنے گرد فوائد کے ڈھیر لگا لیتا ہوں، میرے خیال میں یہ کرپشن اور بددیانتی کا مسئلہ بڑا مسئلہ ہے، جو سپریم کورٹ بھی کہتی ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جسٹس افتخار صاحب نے ایک ریمارکس میں کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ تقریباً امت میں ہر جگہ ہمارا یہی حال ہے۔ بین الاقوامی ماحول، منڈی اور مارکیٹ میں دیانت، امانت اور مال کی سپلائی کے حوالے سے ہماری ساکھ نہیں ہے۔
دوسری بات میں عرض کرنا چاہوں جو ہمارے مسائل میں اہم مسئلہ ہے جس کی طرف جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے سے اشارہ فرمایا تھا کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے برباد ہوئیں کہ قانون کا نفاذ یکساں نہیں تھا۔ کوئی غریب آدمی جرم کرتا تو وہ سزا بھگتتا اور کوئی وی آئی پی جرم کرتا تو سزا سے بچ جاتا۔ قانون کی یکسانیت، قانون کی مساوات، سب کے لیے ایک قانون اور بدیانتی اور کرپشن کا خاتمہ میرے حساب سے ہمارے ملک کے بھی اور امت کے بھی دو بڑے مسئلے ہیں۔ اگر ہم اس سے نجات حاصل کر کے سچائی پر آ جائیں، حقائق پر آ جائیں اور عدل اجتماعی پر آ جائیں۔
تیسرے نمبر پر میں عرض کرنا چاہوں گا کہ عجیب اتفاق اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہمارا جو ویلفیئر سٹیٹ کا تصور تھا، جس پر آج بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور دنیا میں آئیڈیل دور سمجھا جاتا ہے، دوسری قومیں تو ویلفیئر سٹیٹ کے تصور کو ہم سے لے رہی ہیں اور ہمارے حوالے سے لے رہی ہیں، لیکن ہم اپنے طور پر دنیائے اسلام میں کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ ویلفیئر سٹیٹ کے ان اصولوں پر قائم ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیے تھے۔
یہ ہمارے بڑے بڑے مسائل ہیں، اگر ہم ان کی طرف توجہ دیں اور امت کی وحدت کی طرف توجہ دیں، مثلاً آج او آئی سی ہے تو ہم نشستن، گفتن، خردن، برخاستن تک محدود ہیں۔ اگر او آئی سی اور ہمارا کوئی اجتماعی فورم امت مسلمہ کے مسائل کی رہنمائی کرے، امت کو وحدت فراہم کرے اور قیادت فراہم کرے تو میرے خیال میں ہم حالات کو بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
سوال: یہ امت اٹھے گی اور ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘ کی تفسیر بن کر سامنے آئے گی، ہمیں کون سے بڑے بڑے کام کرنے ہیں، حل بتا دیجیے۔
جواب: سب سے پہلے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوہ کی طرف ہمارا فکری اور ذہنی اور علمی رجوع اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس وقت جو دنیا میں علمی طور پر اور آج کے وسائل و اسباب کے حوالے سے دنیا سے بہت پیچھے ہیں اس کو کور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یعنی فکری طور پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور خلفائے راشدین کی طرف واپسی اور اسباب کے درجے میں آج کی دنیا کے برابر آنے کی کوشش، یہ آج کی ضرورت ہے کہ اسباب کی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہم کم از کم دنیا کے برابر تو آئیں، جبکہ ہمارا حق تو یہ ہے کہ ہم آگے نکلیں۔ اس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے اور عملی دنیا میں اپنے نظریے اور اپنے عقیدے کی طرف واپس جانے کی ضرورت ہے۔
سلسلہ گفتگو کے دوران: میں اس پر ایک چھوٹا سا حوالہ دینا چاہوں گا۔ میں نے اسرائیل کی گولڈن میئر (وزیراعظم ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۴ء) کا ایک انٹرویو پڑھا اس میں اس نے کہا کہ ہم نے آپ کے پیغمبر سے یہ سبق لیا ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے صبح کے ناشتے میں کیا کھایا ہے اور شام کو کیا ہے، بڑا خوبصورت جملہ تھا۔
اوریا مقبول جان اور انیق احمد: اس کا فقرہ تھا کہ تاریخ یہ یاد نہیں رکھتی کہ ان کو ڈبل روٹی پر جیم ملا تھا یا نہیں ملا تھا، لیکن تاریخ یہ ضرور یاد رکھتی ہے کہ یہ قوم کتنی سٹرانگ تھی اور کس طرح غلبے والی تھی اور یہ اس موقع پر فرما رہی ہیں جب اسلحہ خرید رہی تھیں اور بجٹ سے پیسے نہیں تھے، لیکن سیرت رسول کریم سے سیکھ رہی ہیں اور حوالہ دے رہی ہیں۔