ان دنوں ملک کے بہت سے دیگر دینی مدارس کی طرح جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی ششماہی امتحان کی تعطیلات ہیں۔ میرا معمول سالہا سال سے یہ تعطیلات برطانیہ میں گزارنے کا رہا ہے لیکن اس بار ویزا کے حصول میں تاخیر کے باعث یہ سفر نہ ہو سکا اور میں اس وقت کراچی میں بیٹھا ہوں۔ اتوار کا دن اسلام آباد میں گزرا، اڈل ٹاؤن ہمک میں ہمارے ایک عزیز فاضل مولانا سید علی محی الدین اپنے بزرگوں کی دینی و روحانی میراث سنبھالے بیٹھے ہیں اور ذوق و حوصلہ کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ظہر کے بعد انہوں نے طالبات کی درسگاہ میں بیان رکھا اور عصر کے بعد جامع مسجد مین عمومی بیان کا پروگرام تھا۔ وہیں بحریہ ٹاؤن کے مولانا عبد الظاہر فاروقی اور مسجد الیاس کے مولانا ثناء اللہ غالب آگئے، دونوں ہمارے عزیز شاگردوں میں سے ہیں، چنانچہ مغرب کی نماز روات کے قریب مولانا عبد الظاہر فاروقی کے قائم کردہ مدرسہ فاروقیہ میں ادا کی اور طلبہ سے مختصر گفتگو ہوئی اور عشاء کی نماز ماڈل ٹاؤن کی مسجد الیاس میں مولانا ثناء اللہ غالب کے ہاں ادا کر کے نمازیوں کے سامنے چند گزارشات پیش کیں۔ وہاں مولانا محمد رمضان علوی آگئے جو ایک عرصہ سے اسلام آباد جی ٹین ون کی مسجد عثمان میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور جامعہ نصرۃ العلوم کے فضلاء میں سے ہیں، ان کے ساتھ جی ایٹ مرکز کے ایک ہوٹل میں ایک مبارک شادی میں حاضری ہوئی جو شادی سے زیادہ دینی محفل اور نسبتوں کے اجتماع کی حیثیت رکھتی تھی۔
یہ شادی مولانا فداء الرحمان درخواستی کے پوتے کی مولانا عبد الحکیم ہزاروی کی پوتی سے تھی اور علماء کرام اور اہل خیر کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ مولانا فداء الرحمان درخواستی کے منجھلے بیٹے مولانا رشید احمد درخواستی کے فرزند مولانا زبیر احمد درخواستی اور مولانا عبد المجید ہزاروی کی دختر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ولیمہ کی تقریب تھی مگر مولانا فداء الرحمان درخواستی نے اپنے ذوق کے مطابق اسے دینی جلسہ کا رنگ دے رکھا تھا۔ تلاوت کلامِ پاک، حمد و نعت اور وعظ و نصیحت کا رنگ ولیمے کے روایتی ماحول پر غالب تھا۔ مجھے محفل میں گفتگو کے لیے کہا گیا تو میں نے نسبتوں کے حوالے سے کچھ عرض کیا کہ یہ دو بڑی نسبتوں کا اجتماع ہے۔ حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور مولانا عبد الحکیم ہزاروی کی نسبتیں ایک بار پھر جمع ہو رہی ہیں۔ اس موقع پر نسبتوں کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا جو میں نے حاضرین کو سنایا۔ مقصد یہ عرض کرنا تھا کہ اچھی نسبتوں کے اجتماع میں برکت بھی ہوتی ہے اور نسبتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
واقعہ اس طرح ہے کہ جب امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اصلاحات کا عمل شروع کیا اور حکمران خاندان کے مختلف لوگوں سے سرکاری اموال اور اثاثے بیت المال کو واپس کرانے میں سختی کی تو حکمران خاندان یعنی بنو امیہ میں بے چینی پھیلنے لگی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز بنو امیہ میں سے تھے مگر ان کی والدہ محترمہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کی پوتی تھیں۔ حکمران خاندان کے لوگوں کا تقاضا تھا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز اپنی خلافت کے آغاز کے بعد جیسے چاہیں نظام چلائیں مگر پہلے خلفاء کے فیصلوں کو تبدیل نہ کریں اور ماضی کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ اس بات کو حضرت عمر بن عبد العزیز نہیں مان رہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ بیت المال کی جو دولت یا اثاثے ناجائز طور پر کسی کے پاس ہیں، خواہ وہ کسی نے بھی دیے ہوں، میں وہ واپس لے کر بیت المال میں داخل کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا عملاً کر دکھایا اور امام سیوطیؒ کی ایک روایت کے مطابق اس وقت بیت المال کے کم و بیش ۸۰ فیصد اثاثے لوگوں کے قبضے میں تھے جو بہت تھوڑے عرصے میں بیت المال میں واپس کرا دیے گئے اور اس سلسلہ میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ حکمران خاندان کے وہ افراد جن سے اثاثے واپس لیے جا رہے تھے اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے خاندان کی بزرگ خاتون فاطمہ بنت مروانؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو حضرت عمر عبد العزیزؒ کی پھوپھی محترمہ تھیں اور اس وقت بنو امیہ میں بزرگ ترین شخصیت وہی تھیں، ان سے درخواست کی گئی کہ وہ عمر بن عبد العزیزؒ کو سمجھائیں کہ وہ سابقہ معاملات میں دخل نہ دیں اور لوگوں سے بیت المال کے اثاثے زبردستی واپس لینے کے عمل پر نظرِ ثانی کریں۔ فاطمہ بنت مروانؒ نے اس کے جواب میں بڑی دلچسپ بات کی اور فرمایا کہ جب عمر بن عبد العزیزؒ کے والد عبد العزیز بن مروانؒ کا رشتہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی پوتی سے کیا جا رہا تھا تو میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ سوچ سمجھ کر رشتہ کرنا یہ بڑی سخت نسبت ہے شاید ہم سے نہ نبھ سکے، مگر تم لوگوں نے میری بات نہ سنی اور میرے اختلاف کے باوجود یہ رشتہ کر دیا گیا تھا۔ اب اس نسبت نے رنگ دکھانا شروع کیا ہے تو تم میرے پاس آگئے ہو، اب میں کیا کر سکتی ہوں، جو کچھ ہو رہا ہے اسے برداشت کرو، اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
عرض کرنے کا مقصد ہے کہ نسبتیں کام کرتی ہیں، ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اچھے جوڑ مل جائیں تو برکات کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ اس لیے مولانا رشید احمد درخواستی کے بیٹے اور مولانا عبد المجید ہزاروی کی بیٹی کے اس نکاح پر مجھے خوشی ہو رہی ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے دونوں خاندانوں کے لیے باعث برکت بنائیں، آمین۔
ولیمے سے فارغ ہو کر رات مولانا محمد رمضان علوی کے ہاں گزری، صبح نمازِ فجر کے بعد ان کی مسجد میں درس دیا اور پی آئی اے کی آٹھ بجے کی فلائٹ سے روانہ ہو کر دس بجے کراچی پہنچ گیا۔ کراچی کا یہ سفر مجلس صوت الاسلام پاکستان جامعہ اسلامیہ کلفٹن کی دعوت پر ہوا ہے۔ ایئرپورٹ پر مجلس صوت الاسلام کے مولانا جمیل الرحمان فاروقی موجود تھے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ سب سے پہلے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں جانا ہے اور مولانا سعید احمد جلال پوریؒ اور ان کے رفقاء کی المناک شہادت پر ان کے رفقاء سے تعزیت کرنی ہے۔ وہ ہمارے فاضل دوست تھے، والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے چہیتے، نیاز مند اور خلیفہ مجاز تھے، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی مسند پر بیٹھے ان کی یادیں تازہ رکھے ہوئے تھے اور کراچی میں ختم نبوت محاذ کی رونق تھے۔ دفتر حاضری ہوئی، مولانا قاضی احسان احمد اور دیگر دوستوں سے تعزیت کی، کچھ دیر مولانا جلال پوری کی حسنات کا تذکرہ رہا اور پھر دعا کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوگئے۔
جامعہ اسلامیہ کلفٹن ہمارے پرانے اور بزرگ دوست مولانا مفتی محی الدین کا قائم کردہ ادارہ ہے اور کراچی کی ایک اہم دینی درسگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے فرزندوں مولانا ابوبکر، مولانا ابوہریرہ اور مولانا ابوذر نے ’’مجلس صوت الاسلام‘‘ کے عنوان سے ایک الگ ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے جس کے تحت میڈیا اور فکری تربیت کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ مولانا جمیل الرحمان فاروقی ان معاملات میں ان کے دست راست ہیں اور ان کا اسی عنوان سے ایک مرکز پشاور میں بھی کام کر رہا ہے۔ مجھ سے ان کا اکثر تقاضا ہوتا ہے کہ مجلس صوت الاسلام کے پروگراموں میں تسلسل کے ساتھ حاضری ہوتی رہے مگر مدرسہ کی باقاعدہ تعطیلات کے علاوہ اس قسم کا سفر میرے بس میں نہیں ہوتا۔ مجلس صوت الاسلام کے زیراہتمام کلفٹن کی جامع مسجد ابوبکر میں درس نظامی کے فضلاء کی تربیتی کلاس ہوتی ہے اور شام کو عصر سے قبل اور عصر کے بعد یومیہ دو لیکچر ہوتے ہیں۔ میں نے مکالمہ بین المذاہب کے حوالے سے چار نشستوں میں کچھ گزارشات پیش کیں۔ اس موقع پر فرمائش کی گئی کہ جامعہ اسلامیہ کے طلبہ کی ہفتہ وار اصلاحی نشست میں بھی کچھ عرض کروں، میں نے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم یہ سمجھیں کہ دوسرے کی اصلاح سے پہلے ہم نے خود اپنی اصلاح کرنی ہے، پھر یہ ضروری ہے کہ ہم خود کو قابلِ اصلاح تصور کریں، اس کے بعد مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا احساس و ادراک کریں اور ہر وقت ان پر نظر رکھیں اور پھر انہیں دور کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔
پیر کو مجلس صوت الاسلام کے پروگرام سے فارغ ہو کر عشاء کی نماز ملیر کینٹ کی مسجد الفرقان میں ادا کی، ہمارے فاضل اور بزرگ دوست بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر قاری فیوض الرحمان ہمارے ہم وطن بھی ہیں، ایبٹ آباد کے جدون قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم نسبت بھی ہیں کہ حضرت لاہوریؒ کے خلیفہ اجل مولانا بشیر احمد پسروری کے خلیفہ مجاز ہیں۔ علماء کرام کی خدمات پر ان کی بیسیوں تصانیف سے اہل علم استفادہ کر رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ملیر کینٹ میں رہائش پذیر ہیں اور مسجد الفرقان میں تعلیمی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی کہ ان کی نگرانی میں اس مسجد میں حفظ قرآن کریم اور تجوید و قرأت کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک سو سے زائد بچے حفظ کر چکے ہیں۔ ایک بچے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس نے صرف تین ماہ کے دوران قرآن کریم یاد کیا۔ قاری صاحب کا حکم ہوتا ہے کہ جب بھی کراچی حاضر ہوں، مسجد الفرقان کے لیے ضرور وقت نکالوں۔ اگرچہ ملیر کینٹ میں داخلہ کے مراحل سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کوئی باقاعدہ بین الاقوامی بارڈر کراس کر رہے ہیں لیکن محترم ڈاکٹر فیوض الرحمان کے حکم کی تعمیل میں اس مرحلہ سے بھی گزر جاتا ہوں۔ عشاء کے بعد قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مقاصد کے موضوع پر گفتگو کی اور ڈاکٹر صاحب محترم کے ہاں کھانا کھا رہا تھا کہ اگلی منزل کے ’’وصول کنندہ‘‘ مولانا محمد صادق پہنچ گئے، میرا رات کا قیام جامعۃ الرشید میں تھا۔
جامعۃ الرشید میرے پرانے خوابوں کی تعبیر ہے، وہ کام جو دو عشرے قبل ہم نے گوجرانوالہ میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے کرنا چاہا اور بعض عملی مراحل سے گزرنے کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہو سکے وہی کام جامعۃ الرشید کر رہا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً حاضری کے موقع پر یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہم سے بہتر لوگ ہم سے زیادہ اچھے انداز میں وہ کام کامیابی کے ساتھ کر رہے ہیں اور بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ جامعۃ الرشید کے ساتھ زیادہ مناسبت کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں ہم سبق رہے ہیں اور میں فطری طور پر ایسے رشتوں اور نسبتوں کے حوالے سے بہت خوش فہم واقع ہوا ہوں۔
جامعہ کے آڈیٹوریم میں کلیۃ الشریعہ اور تخصصات کی کلاسوں کے شرکاء کو جمع کر کے مجھے حکم دیا گیا کہ ان کے سامنے کچھ عرض کروں۔ میں نے حالات کے تغیر اور احوال کی مسلسل تبدیلی کے ساتھ دینی ذمہ داریوں میں اضافے اور اس کے تقاضوں کے بارے میں چند معروضات پیش کیں اور فضلاء سے عرض کیا کہ مقابلہ دن بدن سخت ہوتا جا رہا ہے اس لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت اور تدبیر کی ضرورت ہے۔ جامعہ کے اساتذہ کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ایک اچھی نشست رہی، جامعہ کے مختلف شعبے دیکھے، معلومات اور مسرتوں میں اضافہ ہوا مگر میری دلچسپی کی سب سے بڑی بات وہ ڈاکومنٹری تھی جو پروجیکٹر کے ذریعے دکھائی گئی، اس میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کی خود نوشت ’’نقشِ حیات‘‘ کے ایک حصے کو بنیاد بنا کر یہ دکھایا گیا ہے کہ برصغیر میں برطانوی استعمار کی آمد سے قبل یہاں کی معاشی، اقتصادی اور معاشرتی صورتحال کیا تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت نے یہاں لوٹ کھسوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی معاشرت اور تہذیب و ثقافت کو کس طرح برباد کیا۔ یہ کتاب میں نے کئی بار پڑھی ہے لیکن اس ڈاکومنٹری کو دیکھ کر یوں لگا جیسے ’’نقشِ حیات‘‘ پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔