امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان

   
اگست ۲۰۰۱ء

جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کی نائب وزیرخارجہ محترمہ کرسٹینا روکا ان دنوں جنوبی ایشیا کے دورے پر ہیں اور جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں وہ اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ جبکہ امارت اسلامی افغانستان کے سفیر محترم ملا عبد السلام ضعیف سے بھی ان کی ملاقات ہونے والی ہے۔ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد کرسٹینا روکا کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق ان کے ایجنڈے میں (۱) پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی روک تھام (۲) افغانستان کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں پر مؤثر عمل درآمد (۳) عرب مجاہد اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا سوال (۴) اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے مسائل سرفہرست ہیں جن کے بارے میں وہ متعدد بیانات میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔

جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکہ کا یہ ایجنڈا کوئی نیا نہیں ہے اور نہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی اور کلنٹن کی جگہ جارج ڈبلیو بش کی بطور صدر آمد سے اس ایجنڈے اور اس کے حوالے سے امریکہ کی قومی پالیسی میں کوئی فرق سامنے آیا ہے۔ امریکہ کے ایجنڈے کی بنیاد اس کے اس زعم پر ہے کہ وہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور واحد سپر پاور ہے اس لیے دنیا کے ہر خطے میں سیاست و معیشت اور قانون و عدالت سے لے کر اخلاق و معاشرت تک تمام شعبوں میں اس کی مرضی، خواہش اور پالیسی پر عمل ہونا چاہیے اور دنیا کے ہر ملک اور قوم کو صرف اور صرف امریکی مفادات کے تحفظ اور تکمیل کے حوالے سے اپنی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔ امریکہ اپنی اس بالادستی کے لیے انسانی حقوق کے نعرے، جمہوریت کے پرچار اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے لیکن یہ محض فریب کاری ہے جس کا صرف دو عملی مثالوں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے:

  1. ایک یہ کہ امریکہ پاکستان میں جمہوری عمل کی جلد بحالی کا خواہاں ہے اور پاکستان میں آنے والی نئی امریکی سفیر نے صاف طور پر کہا ہے کہ بطور سفیر ان کی پہلی ترجیح پاکستان میں جمہوری عمل کی بحالی ہوگی۔ لیکن مشرق وسطیٰ کے ممالک میں امریکہ کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور چونکہ وہاں شخصی آمریتیں اور بادشاہتیں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو رہی ہے اس لیے امریکہ کے نزدیک ان ممالک کے عوام کی سیاسی آزادیوں، شہری حقوق اور جمہوری تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور امریکہ پورے مشرق وسطیٰ میں آمریتوں اور بادشاہتوں کا سب سے بڑا محافظ بنا ہوا ہے۔
  2. دوسری مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فیصلوں کی کھلے بندوں خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے اور اب بھی اعلانیہ خلاف ورزی کر رہا ہے لیکن اسرائیل کو ان خلاف ورزیوں سے روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیموں کو مشرق وسطیٰ بھجوانے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ جبکہ اس کے برعکس افغانستان کی سرحدوں پر صرف اس لیے اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیمیں بھجوانے کے لیے امریکہ سب سے زیادہ متحرک ہے کہ امریکہ کے اندازوں، توقعات اور خواہشات کے علی الرغم افغانستان کے عوام اقوام متحدہ کی اقتصادی پابندیوں کے باوجود اس طرح بھوکے نہیں مر رہے جس طرح امریکہ انہیں بھوکا مار کر اپنے سامنے جھکانا چاہتا تھا، اور وہاں نہ صرف طالبان کی حکومت کاروبار حکومت پورے اعتماد کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ افغان عوام کو طالبان حکومت کے خلاف بھڑکانے اور بغاوت پر آمادہ کرنے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو رہا۔

امریکی پالیسوں میں کھلے تضاد کی یہ دو واضح مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی بنیاد پر یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ جمہوریت، انسانی حقوق، امن اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے امریکہ کے نعرے اور دعوے کسی اصول اور فلسفہ کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ محض اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک یہی سب سے بڑی وجہ ہے اس امر کی کہ امریکہ کو تمام تگ و دو کے باوجود دنیا پر اپنی پالیسیاں ہر حال میں مسلط کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی اور دنیا کے ہر خطے میں اس کی مخالفت اور اس کے خلاف نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ہم امریکی حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ وہ جنوبی ایشیا کے ممالک پر اپنی یک طرفہ پالیسیاں طاقت کے زور پر مسلط کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کریں اور دوسروں کے خلاف طاقت اور دباؤ کے اندھا دھند استعمال کے بجائے اپنی پالیسیوں کے تضادات اور طرزعمل کے دوغلے پن کا جائزہ لیں۔ محض طاقت کا استعمال نہ پہلے کبھی انسانی تاریخ کے کسی دور میں اپنے مطلوبہ اور مزعومہ مقاصد حاصل کر سکا ہے او رنہ اب کسی کو محض قوت اور طاقت کے سہارے اپنے مزعومہ مقاصد تک پہنچنے کی توقع کرنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter