ختم نبوت کے محاذ پر مولانا سعید عنایت اللہ کی خدمات

   
۶ نومبر ۲۰۱۴ء

۲۶ اکتوبر کو سیالکوٹ چھاؤنی میں سیرت اسٹڈی سنٹر کے ایک پروگرام میں حاضری ہوئی تو وہاں ہمارے محترم دوست جناب محمد اعجاز رتو نے بتایا کہ مولانا سعید احمد عنایت اللہ صاحب مکہ مکرمہ سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور وہ ان سے مل کر آرہے ہیں۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا اور ان سے عرض کیا کہ پروگرام کے بعد میں بھی مولانا موصوف سے ملنا چاہوں گا۔ انہوں نے رابطہ کیا تو ملاقات کا وقت طے ہوگیا اور ہم اس کے مطابق عصر کے وقت ان کے گاؤں میں حاضر ہوگئے۔

مولانا سعید احمد ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں، ان کا تعلق سیالکوٹ کے گاؤں لودھرہ سے ہے۔ ایک عرصہ سے مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور مدرسہ صولتیہ میں استاذ الحدیث ہیں۔ ختم نبوت کے محاذ پر ان سے خاصی پرانی رفاقت چلی آرہی ہے۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ اور ان کے بغیر بھی کئی بار مکہ مکرمہ میں مولانا سعید احمد عنایت اللہ کی میزبانی سے استفادہ کر چکا ہوں۔ لندن میں تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے ان کا کردار اہم رہا ہے اور اب بھی وہ اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کو منظم کرنے اور فارسٹ گیٹ میں اس کے مرکز کو آباد کرنے میں وہ ہمیشہ فعال اور مستعد رہے ہیں۔

برطانیہ میں ہمارے مسلکی دائرہ میں قادیانیوں کے تعاقب اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گزشتہ ربع صدی سے کام کر رہی ہے۔ اور اس کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس کا شمار وہاں مسلمانوں کے بڑے اجتماعات میں ہوتا ہے۔ جبکہ اس سے ہٹ کر حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود کی اسلامک اکیڈمی، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کا مرکز، اور الحاج عبد الرحمن باوا کا ختم نبوت سنٹر بھی تحفظ عقیدہ ختم نبوت کے متحرک مراکز ہیں، جو اپنے اپنے دائرہ میں محنت کر رہے ہیں۔

مگر مولانا سعید احمد عنایت اللہ نے مکہ مکرمہ اور عرب ممالک میں محاضرات کے ذریعہ قادیانیت کے دجل و فریب کو بے نقاب کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ بطور خاص قابل داد و تحسین ہے۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی وفات کے بعد میں نے اس خدشہ کا ایک مضمون میں اظہار کیا تھا کہ اب قادیانیت کے حوالہ سے کتابی دنیا اور مناظرہ و مباحثہ کا اس سطح کا کوئی بزرگ شاید ہمیں دستیاب نہ ہو سکے۔ اور حضرت مولانا محمد حیاتؒ ، حضرت مولانا لال حسین اخترؒ ، حضرت مولانا عبد الرحیم اشعرؒ ، اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے تحریری اور تقریری طور پر مناظرہ و مباحثہ کی جو طرز اختیار کی تھی اس کا تسلسل قائم نہیں رہ سکا۔ مگر مولانا سعید احمد عنایت اللہ کی مساعی اور ذوق دیکھ کر اطمینان ہوا ہے کہ

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

قادیانیت اور اس کے رد کی تاریخ اور اس کے بارے میں لٹریچر کو جمع و مرتب کرنے میں مولانا اللہ وسایا کی محنت، جبکہ مختلف مباحث کے حوالہ سے مولانا سعید احمد عنایت اللہ کے محاضرات بہرحال میرے جیسے کارکنوں کے دل کی تسلی کے لیے بہت حد تک کافی نظر آتے ہیں اور ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘۔

عام مسلمانوں خصوصاً دینی تعلیم سے بے بہرہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے دجل و فریب پر مبنی جو خود ساختہ ’’علم کلام‘‘ قادیانیوں نے پیش کیا ہے اسے سمجھنا ہر مسلمان بلکہ ہر عالم دین کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے لیے ’’دجال‘‘ کا جو وصف بیان فرمایا تھا اس کی عملی شکل قادیانی لٹریچر اور مباحثوں میں درجہ کمال پر دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ اسے بے نقاب کرنے اور اس کے تار و پود بکھیرنے کے لیے حضرت مولانا علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ ، اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی علمی مساعی اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد حیاتؒ ، حضرت مولانا لال حسین اخترؒ ، حضرت مولانا عبد الرحیم اشعرؒ ، اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کی مناظرانہ جدوجہد کا تسلسل پوری امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ اس تسلسل کو عالم اسلام کے مرکز مکہ مکرمہ میں بیٹھ کر جاری رکھنے کا اعزاز مولانا سعید احمد عنایت اللہ نے حاصل کیا ہے۔

ہم نے عصر کی نماز مولانا موصوف کی رہائش گاہ میں ادا کی اور جتنی دیر بیٹھے رہے قادیانیت کے حوالہ سے ہی گفتگو ہوتی رہی۔ واپسی پر انہوں نے اپنے محاضرات کا ایک سیٹ دیا جو اس وقت دو ضخیم جلدوں میں میرے سامنے ہے اور اس میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات، رفع اور نزول کے مباحث پر ان کے اٹھائیس محاضرات شامل ہیں۔

قادیانیوں کے ساتھ ہونے والے مباحثات میں سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کا سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں قادیانیوں نے تاویلات و تحریفات اور نیم فلسفیانہ مغالطات کا جو وسیع جال بن رکھا ہے اسے پوری طرح سمجھے بغیر اس بحث میں الجھنا خود کو بلا وجہ الجھا لینے ہی کے مترادف ہوتا ہے۔ اس لیے تجربہ کار مناظرین بھی بحث و مناظرانہ میں اس موضوع کو ترجیح دینے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر مولانا سعید احمد عنایت اللہ نے اپنے ان اٹھائیس محاضرات میں ان مباحث کے بیسیوں پہلوؤں کو جس خوبی کے ساتھ سمیٹا ہے، اس پر ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ یہ محاضرات اے فور سائز کے پونے سات سو صفحات پر مشتمل ہیں اور مکتبہ امدادیہ مکہ مکرمہ کی طرف سے شائع کیے جا رہے ہیں۔

ویسے تو ہم خود مولانا سعید احمد عنایت اللہ کی حرم پاک کی دعاؤں کے ہر وقت محتاج ہیں جو یقیناًہمیں حاصل ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کے اس کام پر ترقی و برکت کے لیے ہم بھی دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں صحت و عافیت کے ساتھ یہ مشن تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں اور اس کے ثمرات و فوائد دارین میں نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter