روزنامہ اوصاف لاہور کی ۲۴ ستمبر ۲۰۲۳ء کی ایک خبر کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ روز وفاقی وزیر تعلیم سے ایک ملاقات کے دوران کہا ہے کہ پاکستان کے ۲۷ ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں اور تعلیم کے حاصل کرنے کے مواقع سے محروم ہیں، ان بچوں کو سکولوں میں لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
صدر محترم کی یہ فکرمندی بجا ہے مگر ہمیں ان اسباب کا جائزہ لینا ہو گا جو اس صورتحال کے پس منظر میں کارفرما ہیں:
- قوم کے تمام افراد کو تعلیم سے آراستہ کرنا بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے جو کسی معاوضہ اور اجرت کے بغیر ہونی چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں تعلیم بتدریج کاروبار بنتی جا رہی ہے، سرکاری اداروں کے تعلیمی معیار پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اخراجات مسلسل اضافہ پذیر ہیں۔ جس کے باعث اپنے بچوں کو معیاری اور ضروری تعلیم سے آراستہ کرنا ملک کے بیشتر شہریوں کے بس میں نہیں رہا۔ اس لیے سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو کاروبار کے دائرے سے نکال کر ریاستی ذمہ داری کے ماحول میں واپس لانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، اس کے بغیر غریب آدمی کے بچوں تک تعلیم کی رسائی نہیں ہو سکے گی۔
- کچھ عرصہ قبل مسجد کو تعلیم کا بنیادی یونٹ تسلیم کرتے ہوئے پرائمری تعلیم کو مساجد کے ماحول میں لانے کے لیے ’’مسجد مکتب اسکیم‘‘ شروع کی گئی تھی جس سے تعلیم کے نچلی سطح پر عام ہونے کے ساتھ ساتھ خواندگی کی شرح میں معقول اضافہ کے امکانات بھی سامنے آئے تھے۔ مگر اس اسکیم کو نہ صرف ختم کر دیا گیا بلکہ مسجد میں قرآن کریم اور دینیات کی جتنی کچھ تعلیم مساجد کی کمیٹیوں اور ائمہ و خطباء نے جاری رکھی ہوئی ہے اسے سرے سے تعلیم کے طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے اور اسے تسلیم شدہ تعلیم کے دائرے سے باہر رکھنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے، اس کا بھی ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
- دستورِ پاکستان میں تعلیم کے لیے دینی اور قومی ضروریات کے دائرے میں ترجیحات طے کی گئی ہیں مگر غیر ملکی این جی اوز اور اداروں کی ہماری تعلیمی پالیسیوں میں دخل اندازی نے تعلیمی نظام کو ابہامات اور شکوک و شبہات کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اور تعلیمی اداروں کو اسلامی روایات و تعلیمات اور قومی ضروریات و تقاضوں کی بجائے مغربی ثقافت کے فروغ کی جولانگاہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال توجہ طلب ہے کہ ہمارے بچوں کو محض تعلیم کی نہیں بلکہ اسلامی اور قومی ضروریات کے مطابق تعلیم دینے کی ضرورت ہے جو اس وقت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
صدر محترم سے گزارش ہے کہ وہ قوم کے زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم دینے کی بات ضرور کریں مگر اس کے ساتھ تعلیم کی مقصدیت اور نتائج کی طرف بھی توجہ دیں تاکہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت اور دستور کے دائرہ میں نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر سکیں۔