مولانا فضل الرحمان کی گوجرانوالہ آمد

   
۲۷ اپریل ۲۰۱۸ء

گزشتہ جمعۃ المبارک کو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان اور پیر طریقت حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی گوجرانوالہ تشریف لائے اور جامعہ نصرۃ العلوم کی مسجد نور میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر جامعہ نصرۃ العلوم کے دورہ حدیث، شعبہ تجوید اور درجہ حفظ کے فضلاء کی دستار بندی کا سالانہ پروگرام تھا، دونوں حضرات نے جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا اور فضلاء کی دستار بندی کی۔

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا ہمیشہ سے جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ تعلق چلا آرہا ہے اور اس کے اساسی اصول و ضوابط میں جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ ربط و تعلق طے شدہ ہے جو عملی طور پر بھی ہر دور میں قائم رہا ہے۔ جامع مسجد نور کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تشریف لائے تھے جبکہ ان کے بعد حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور دیگر جمعیتی بزرگوں کی سرپرستی جامعہ نصرۃ العلوم کو مسلسل حاصل رہی۔ جامعہ کے بانی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ زندگی بھر جمعیۃ کے کاموں میں تعاون کرتے رہے جبکہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ طویل عرصہ تک جمعیۃ کے ضلعی امیر رہے۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا ملک گیر نظام شریعت کنونشن جامع مسجد نور میں منعقد ہوا جس میں پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اس پر صوبائی محکمہ اوقاف نے مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔ عوامی سطح پر اس حکومتی اقدام کی بھرپور مزاحمت ہوئی اور چار چھ ماہ کی مسلسل عوامی احتجاجی تحریک اور سینکڑوں علماء و کارکنوں کی گرفتاریوں کے بعد محکمہ اوقاف کو بالآخر اپنا نوٹس واپس لینا پڑا۔

اس پس منظر میں خاصے عرصہ کے بعد مولانا فضل الرحمان کی جامعہ نصرۃ العلوم میں آمد پر جماعتی حلقوں میں بہت خوشی کا اظہار کیا گیا اور مولانا نے بھی اپنے خطاب میں اس پر اطمینان و مسرت کا اظہار کیا۔ جامعہ کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی، ناظم اعلیٰ مولانا صوفی محمد ریاض خان سواتی اور راقم الحروف نے اپنے خطابات میں مولانا فضل الرحمان اور مولانا خواجہ ناصر الدین خاکوانی کا خیرمقدم کیا اور علماء کی ایک بڑی تعداد اجتماع میں شریک ہوئی۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمان کے خطاب کا ایک جملہ سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں کئی روز تک گردش کرتا رہا جس میں انہوں نے راقم الحروف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا باہمی رابطہ مسلسل چلا آرہا ہے اور ہمارا تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا۔ اس پر بہت سے دوستوں نے سوالات کیے اور ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ حضرات کے درمیان تو کم و بیش دس سال تک باہمی محاذ آرائی رہی ہے اس لیے مولانا فضل الرحمان نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ہمارا باہمی تعلق کبھی منقطع نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ دونوں باتیں درست ہیں، ہمارے درمیان جماعتی گروہ بندی کے حوالہ سے ایک عرصہ تک محاذ آرائی رہی ہے مگر اس دوران بھی ہمارا ًآپس میں دوستانہ تعلق نہیں ٹوٹا، اس لیے کہ ہم نے بحمد اللہ تعالیٰ اختلاف کو اختلاف کے دائرے میں رکھا اور اسے مخالفت اور دشمنی کا رنگ دینے سے ہمیشہ گریز کیا۔ یہ بات آج کے بہت سے دوستوں کو شاید سمجھ نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری باہمی محاذ آرائی کو اس حد تک آگے بڑھنے نہیں دیا کہ ہمیں آپس میں مل بیٹھنے میں کبھی کوئی حجاب محسوس ہو۔

حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان ’’درخواستی گروپ‘‘ اور ’’فضل الرحمان گروپ‘‘ میں تقسیم ہوگئی تھی۔ یہ تقسیم ایک عشرہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی اور ہر سطح پر باہمی محاذ آرائی پورے عروج پر رہی مگر اس کے باوجود ہمارے باہمی دوستانہ تعلقات بحمد اللہ تعالیٰ مثالی رہے حتیٰ کہ اگر اس سلسلہ میں اس دور کے واقعات بیان کیے جائیں تو آج کے حضرات شاید یہ کہنے لگیں کہ تمہارے درمیان تو یہ ’’نورا کشتی‘‘ تھی۔ جبکہ صورتحال یہ تھی کہ ہم اختلاف میں بھی پوری طرح سنجیدہ تھے اور باہمی دوستانہ تعلقات میں بھی سنجیدگی کی سطح کمزور نہیں ہوئی۔ نمونہ کے طور پر صرف ایک واقعہ کا ذکر کر دیتا ہوں کہ ہم نے ملتان میں محترم سید خورشید عباس گردیزی مرحوم کے مکان پر درخواستی گروپ کا ڈویژنل کنونشن رکھا جس میں ڈویژن کے مختلف اضلاع سے سینکڑوں علماء کرام اور کارکن شریک ہوئے۔ یہ کنونشن ظاہر ہے کہ فضل الرحمان گروپ کے مقابلے میں تھا اور بہت کامیاب کنونشن تھا۔ مولانا فضل الرحمان کی رہائش ان دنوں جامعہ قاسم العلوم کچہری روڈ ملتان میں ہوا کرتی تھی۔ شام کو کنونشن سے فارغ ہو کر میں نے خورشید گردیزی مرحوم سے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمان گھر میں موجود ہیں تو ان سے ملاقات کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اور ہم دونوں مولانا موصوف کےگھر پہنچ گئے، انہوں نے گرم جوشی کے ساتھ ہمارا خیرمقدم کیا اور ہم خاصی دیر گپ شپ کرتے رہے۔ مجھے رات بارہ بجے کے بعد عوامی ایکسپریس سے لاہور آنا تھا اس لیے گردیزی صاحب تھوڑی دیر کے بعد اجازت لے کر چلے گئے اور میں اس خیال سے رک گیا کہ ریل گاڑی کے وقت سے پہلے مولانا فضل الرحمان کا ڈرائیور مجھے ریلوے اسٹیشن چھوڑ آئے گا۔ اس دوران ملک کے سیاسی مسائل اور باہمی اختلافی معاملات پر ہمارے درمیان بحث و مباحثہ بلکہ نوک جھونک بھی ہوتی رہی۔ ریل کے وقت سے قبل مولانا فضل الرحمان نے مجھے بتایا کہ ان کی گاڑی تو ورکشاپ میں ہے اس لیے اس وقت رکشہ ہی مل سکتا ہے۔ ہم دونوں مدرسہ قاسم العلوم سے نکل کر رکشہ کی تلاش میں چلتے چلتے کچہری چوک تک پہنچ گئے۔ اب آدھی رات کے وقت ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کچہری چوک ملتان میں گھوم رہے تھے کہ میں نے مولانا سے دل لگی کے طور پر کہا کہ اس وقت ہمیں جمعیۃ کے کسی کارکن نے اس طرح چہل قدمی کرتے دیکھ لیا تو اس غریب کے دل پر کیا بیتے گی؟ مولانا نے کہا کہ جلدی کرو رکشہ پکڑو اور یہاں سے نکلو چنانچہ میں رکشہ پکڑ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے ورنہ اس دوران اس قسم کے اور واقعات بھی ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ صرف ہمارے بزرگوں کا فیض اور تربیت کا اثر تھا کہ ہم نے بحمد اللہ تعالیٰ کسی اختلاف کو باہمی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیا ورنہ شاید ہم محبت و اعتماد کا یہ ماحول دوستوں کو نہ دکھا سکتے جو گوجرانوالہ کے احباب نے ایک عرصہ کے بعد دیکھا ہے اور اس پر جماعتی و مسلکی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

   
2016ء سے
Flag Counter