دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات

   
۳۰ مئی ۲۰۱۵ء

مدارس دینیہ میں شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی تعلیم و تدریس کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور سینکڑوں مدارس میں مختصر دورانیے کے مختلف کورسز اس وقت چل رہے ہیں۔ زیادہ تر ذوق قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا ہے، جس کی ابتدا حضرت مولانا حسین علیؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلویؒ جیسے بزرگوں سے ہوئی تھی اور اب ان کے سینکڑوں تلامذہ ملک کے طول و عرض میں دورہ تفسیر قرآن کریم کے عنوان سے یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ دورۂ صرف و نحو، دورہ میراث، رد فرق باطلہ، عربی بول چال اور دیگر عنوانات پر بھی تربیتی کورسز کرائے جا رہے ہیں۔ ان کا دورانیہ تین دن سے لے کر ڈیڑھ ماہ تک کے عرصہ تک پھیلا ہوا ہے اور رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہونے سے پہلے یہ تمام دورے مکمل ہو جائیں گے۔

ان میں سے متعدد کورسز میں حاضری اور چند نشستوں میں گفتگو کی مجھے بھی سعادت حاصل ہوئی ہے اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ میں سالانہ تعطیلات کو بے مقصد گزارنے کی بجائے کسی نہ کسی تعلیمی مصروفیت میں ان کو کام میں لانے کا ذوق موجود ہے۔

۲۱ مئی کو مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ، حسن ابدال میں دورہ تفسیر قرآن کریم کا آغاز تھا، جو حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی طرز پر ایک نوجوان فاضل مولانا رفیق احمد پڑھا رہے ہیں۔ افتتاحی تقریب میں مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مولانا مفتی حماد اللہ درخواستی اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کے بعد دورۂ تفسیر قرآن کریم کے تاریخی پس منظر، اہمیت و ضرورت اور تقاضوں کے حوالہ سے گفتگو کی۔

۲۵ مئی کو الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن کریم کا آغاز ہوا، جو گزشتہ پانچ سال سے جاری ہے۔ دیگر اساتذہ کے ساتھ مجھے بھی چند پارے پڑھانے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ قرآن کریم سے متعلقہ درجنوں موضوعات پر مختلف اربابِ علم و دانش کے محاضرات ہوتے ہیں اور عصرِ حاضر میں قرآنی احکام کے بارے میں سامنے آنے والے شکوک و شبہات اور اعتراضات کے تناظر میں نفاذ شریعت کی فکری و علمی ضروریات پر راقم الحروف کی بیس کے لگ بھگ نشستوں میں گفتگو بھی اس کا حصہ ہوتی ہے۔

۲۵ مئی کو ہمارے محترم بزرگ حضرت صوفی عطاء اللہ نقشبندی کی دعا کے ساتھ یہ سلسلہ شروع ہوا اور مختلف اساتذہ کے ہمراہ راقم الحروف بھی کم و بیش دس رمضان المبارک تک اس میں مصروف رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

مركز حافظ الحدیث درخواستی حسن ابدال اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اس حوالہ سے کی جانے والی گفتگو میں راقم الحروف نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم کے اعجاز کے بیسیوں وجوہ مختلف ادوار میں اہل علم نے واضح کیے ہیں، لیکن آج کے دور میں اس کا سب سے نمایاں اور ضروری پہلو یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احکام و قوانین دیے ہیں وہ بھی بہت بڑا معجزہ ہیں اور جس طرح فصاحت و بلاغت کے حوالہ سے قرآن کریم کی کسی آیت یا سورۃ کی مثال پیش کرنا انسانی ذہنوں کے لیے ممکن نہیں ہے، اسی طرح انسانی معاشرہ کے لیے نظامِ حیات کے طور پر اسلام کے پیش کردہ احکام و قوانین میں کسی ایک کی مثال پیش کرنا بھی کسی انسان یا انسانی معاشرہ کی اجتماعی سوچ کے بس میں نہیں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعجاز کو زیادہ اہمیت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اس لیے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دوران اس کے دیگر علمی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک نظام حیات کے طور پر قرآن کریم کو پیش کرنے پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے اور آج کا انسانی معاشره فلسفہ و نظام کے حوالہ سے جس خلفشار اور انارکی کا شکار ہے اس میں قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اس دوران ایک منفرد ”تربیتی کورس“ میں بھی شرکت کا موقع ملا، جو دارالعلوم فاروقیہ گوجرانوالہ میں مولانا شاہ نواز فاروقی نے طلبہ میں تحریر و تقریر کا ذوق بیدار کرنے کے لیے شروع کر رکھا ہے۔ مولانا شاہ نواز فاروقی جامعہ نصرۃ العلوم کے فضلاء میں سے ہیں اور جامعہ میں ہی تدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ خطابت کا اچھا ذوق رکھتے ہیں اور ان کی گفتگو میں مطالعہ و تحقیق کے ساتھ ساتھ سنجیدہ تجزیہ و تبصرہ کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ اس چند روزہ کورس میں خطباء کرام اور منتہی طلبہ کو خطابت اور مضمون نویسی کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر کے فن کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرایا جا رہا ہے اور ان کی عملی مشق کرائی جا رہی ہے۔ ایک خطیب کو تقریر کی تیاری کیسے کرنی چاہیے، گفتگو کا آغاز و اختتام کس طرح کرنا چاہیے، مقرر کے کھڑے ہونے یا بیٹھنے کا انداز کیا ہونا چاہیے، چہرے کے تاثرات، ہاتھوں کے اشارات اور بدن کی حرکات کی کیفیت کیا ہونی چاہیے؟ ان سب کی عملی مشق کا مظاہرہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ خطابت کے فنی اور عملی تقاضوں کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے، جو ایک اچھی علامت ہے۔

سینکڑوں دینی مدارس میں بیسیوں موضوعات کے حوالہ سے سالانہ تعطیلات کے دوران انعقاد پذیر ہونے والے یہ کورسز تعلیم و تدریس اور تربیت و ذہن سازی کے ایک خوش آئند رجحان کی علامت ہیں، جن کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ان کے درمیان باہمی مشاورت کے ساتھ ترجیحات کے ازسرنو تعین اور ملی مقاصد کی طرف زیادہ توجہ کا کوئی ماحول قائم کیا جا سکے تو ان کی افادیت کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter