صدر جنرل پرویز مشرف کے خطاب میں یہ بات مجھے اچھی لگی ہے کہ انہوں نے حوالہ اور استناد کے لیے قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے رجوع کیا ہے، ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے سربراہ کا یہی حق بنتا ہے کہ وہ قرآن و سنت سے راہنمائی حاصل کرے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں بھی قرآن و سنت کو ہی ریاستی پالیسی اور قوانین کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ البتہ قرآن و سنت سے استفادہ کے لیے ان اصول و ضوابط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو راہنمائی و ہدایت کے ان دو سرچشموں سے استفادہ کے لیے امت کے جمہور اہل علم کے ہاں مسلم چلے آرہے ہیں۔ ورنہ اگر ہر شخص اپنی مرضی اور فہم کے مطابق قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے واقعات کو اپنے موقف کے حق میں پیش کرنے لگے تو قرآن و سنت راہنمائی کا سرچشمہ نہیں رہیں گے بلکہ بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائیں گے۔
صدر صاحب نے افغانستان پر حملہ میں امریکہ کی معاونت کے جواز میں جناب رسول اللہؐ کے اسوۂ حسنہ سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ رسالت مآبؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں یہودی قبائل کے ساتھ معاہدہ کر کے بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں کفار مکہ کو شکست دی اور اس کے بعد حدیبیہ میں کفار مکہ سے معاہدہ کر کے غزوۂ خیبر میں یہودیوں کی شکست کی راہ ہموار کی، اس لیے حکمت اور دانش کے تحت کسی کافر قوم سے وقتی مصالحت کا جواز موجود ہے۔
صدر مشرف کا یہ استدلال درست نہیں ہے، اس لیے کہ جناب نبی اکرمؐ کے دونوں طرف کافر اقوام تھیں اور دونوں دشمن تھیں۔ آنحضرتؐ نے دونوں سے بیک وقت جنگ کو حکمت کے خلاف سمجھتے ہوئے یہ حکمت عملی اختیار کی مگر یہاں یہ صورتحال نہیں ہے۔ یہاں ایک طرف کافر قوم ہے اور دوسری طرف مسلمان بھائی ہیں۔ ایک طرف وہ طاقت ہے جس نے گزشتہ نصف صدی میں پاکستان کے ساتھ دوستی کے تمام تر معاہدوں کے باوجود ہر نازک مرحلہ میں پاکستان سے بے وفائی کی ہے، جبکہ دوسری طرف وہ قوم ہے جس نے گرم پانیوں کی طرف سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے قدم روک کر پاکستان کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ کیا ہے۔ ایک طرف وہ ملک ہے جس کے ایجنڈے میں پاکستان کے جغرافیہ کو تبدیل کرنا اور اسے ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنا شامل ہے، جبکہ دوسری طرف وہ ملک ہے جس میں طالبان کی اسلامی نظریاتی حکومت کا وجود ہی پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اس لیے میں صدر جنرل پرویز مشرف سے بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ سیرت طیبہ کا حوالہ دینے سے قبل اس بات کا ایک بار پھر جائزہ لے لیں کہ وہ کس کے ساتھ معاہدہ کر رہے ہیں اور کس کے خلاف کر رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی صدر صاحب اس سوال کا جواب بھی مرحمت فرما دیں کہ جناب رسول اللہؐ کی اس حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کو کفار مکہ اور یہودِ خیبر میں سے کس کے زمرہ میں شمار کیا ہے؟
جنرل صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت میں جب وہ امیر شام حضرت معاویہؓ کے ساتھ حالت جنگ میں تھے اور دونوں طرف مسلمان فوجیں آمنے سامنے ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آراء تھیں اس وقت کی سپر پاور رومن ایمپائر کے بادشاہ قیصر روم نے حضرت معاویہؓ کو پیغام بھجوایا تھا کہ وہ حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ مگر حضرت معاویہؓ نے اس کے جواب میں جو تاریخی موقف اختیار کیا تھا وہ قیامت تک ایسے معاملات میں مسلم حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کا یہ جواب تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے جس میں انہوں نے قیصر روم کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ
’’حضرت علیؓ کےخلاف میری جنگ دو بھائیوں کی لڑائی ہے جس سے تمہیں فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دوں گا۔ اور اگر تم نے علیؓ کے خلاف فوج کشی کی تو علیؓ کے پرچم کے نیچے تمہارے خلاف میدان جنگ میں اترنے والا سب سے پہلا سپاہی معاویہؓ ہوگا۔‘‘
اور صدر صاحب کو یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ یہ اس دور کی بات ہے جب دو مسلمان حکمران ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں تھے اور ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ یہاں تو پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے رشتہ سے بندھے ہوئے ہیں، دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں، دونوں ایک دوسرے کے پشتی بان ہیں، اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ یہی وہ رشتہ ہے جسے توڑنے کے لیے امریکہ اور بھارت دونوں مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ اس لیے ان حالات میں اگر صدر جنرل پرویز مشرف افغانستان کے خلاف امریکی حملوں میں امریکہ کو پاکستان کی زمین یا فضا فراہم کر کے فریق بننا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مصلحت کا تقاضا ہو سکتا ہے، یا طالبان کے طرز حکومت سے اپنے مفادات اور عیش پرستی کو خطرہ محسوس کرنے والے مراعات یافتہ طبقوں کی ضرورت تو ہو سکتی ہے، اسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ یا اسلامی تاریخ کی شاندار روایات کا آئینہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔