پاپائے روم اور سرمایہ دارانہ نظام

   
اگست ۱۹۹۶ء

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے جریدہ ماہنامہ ’’عالمِ اسلام اور عیسائیت‘‘ نے جولائی ۱۹۹۶ء کے شمارے میں روزنامہ ڈان کے حوالہ سے رپورٹ شائع کی ہے کہ کیتھولک فرقہ کے سربراہ پوپ پال جان دوم نے مشرقی یورپ کی ریاست سلووینیا کے پہلے دورے کے موقع پر رومن کیتھولک برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے لگام سرمایہ داری اور کمیونزم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے کم خطرناک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق یوگوسلاویہ کی یہ جمہوریہ ان دنوں کلیت پسند آئیڈیالوجی کے اثرات سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اسے بے لگام سرمایہ داری سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ وہ بھی کم خطرناک نہیں ہے۔

سلووینیا مشرقی یورپ کے سابق کمیونسٹ ملک یوگوسلاویہ کی ریاست ہے جو ربع صدی قبل کمیونزم کا بہت بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور اس کے سربراہ مارشل ٹیٹو عالمی سطح کے کمیونسٹ لیڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد مشرقی یورپ کو اس کی آہنی گرفت سے نجات ملی تو سوویت کی طرح یوگوسلاویہ بھی بکھر گیا، اور اس کی ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل سربوں کے ہاتھوں بوسنیائی مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے حوالہ سے تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب بن گیا۔ مشرقی یورپ کے ممالک کم و بیش پون صدی تک کمیونزم کے جہدی نظام کا شکار رہے ہیں، اور اب اس کے اثرات سے نجات حاصل کر کے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ پوپ پال جان دوم نے انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ بے لگام سرمایہ داری سے بچ کر رہیں کیونکہ وہ بھی کمیونزم سے کم خطرناک نہیں ہے۔

پاپائے روم کا یہ ارشاد بجا ہے کیونکہ کمیونزم اور سرمایہ دارانہ دونوں انسانی معاشرہ کے لیے یکساں طور پر خطرناک ہیں، لیکن ان دونوں سے ہٹ کر انہوں نے کسی تیسرے نظام کی نشاندہی نہیں کی، اور یہ بتانے کی زحمت نہیں فرمائی کہ کمیونزم کے اثرات سے نجات حاصل کرنے والے ممالک اگر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف نہ جائیں تو آخر کدھر کا رخ کریں؟

عالمی معیشت میں تیسرے نظام کی ضرورت پر ایک عرصہ سے بات ہو رہی ہے اور آزادانہ سرمایہ داری اور جبری معیشت کے بین بین ’’مخلوط معیشت‘‘ کا تذکرہ ماہرینِ معیشت کی زبانوں کے ساتھ ساتھ بعض ممالک کی پالیسیوں میں بھی ہونے لگا ہے، لیکن اس کی فکری بنیادوں کی نشاندہی میں سب کو ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد اباحیتِ مطلقہ پر ہے اور کمیونزم کا جبری نظام اسی کا ردعمل ہے، تو اباحت اور جبر کے درمیان توازن قائم کرنے کی فکری اساس کیا ہو گی؟ اور تیسرے نظام کے متلاشیوں کے پاس اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کونسا فلسفہ اور نظریہ موجود ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ یہ بات سب لوگ سمجھ چکے ہیں کہ متوازن تیسرے معاشی نظام کی فکری اساس مہیا کرنے کی صلاحیت اب اسلام کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے، اور اسلامی تعلیمات ہی انسانی معاشرہ کو سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی تباہ کاریوں سے نجات دلا سکتی ہیں۔ لیکن اسلام کا نام لینا ان کے لیے اس طرح مشکل ہو گیا ہے جس طرح مدینہ منورہ کے یہودی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت پیغمبر پہچانتے ہوئے بھی انہیں قبول کرنے میں حجاب محسوس کرتے تھے، مگر یہ حجاب اور ہچکچاہٹ اسلام کے راستے میں کب تک رکاوٹ بن سکے گی؟ شاید وقت کو اس کا فیصلہ کرنے میں اب زیادہ وقت درکار نہیں ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter