الرشید ٹرسٹ کی فلاحی و رفاہی خدمات

   
۱۳ اکتوبر ۲۰۰۶ء

گزشتہ روز ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ کے ایک ہال میں ’’الرشید ٹرسٹ‘‘ کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ الرشید ٹرسٹ رفاہی شعبہ میں اپنی خدمات کا تسلسل نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اس میں پیشرفت بھی ہو رہی ہے۔ اس پروگرام میں گوجرانوالہ کے کم و بیش دو سو خاندانوں کو رمضان المبارک پیکج کے عنوان سے اشیائے خورد و نوش کی صورت میں امدادی سامان تقسیم کیا گیا اور بتایا گیا کہ اس طرح کی امدادی سرگرمیاں ملک کے مختلف حصوں میں جاری ہیں اور ہزاروں خاندانوں تک امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔

الرشید ٹرسٹ مخدوم العلماء حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہے جو ان کے عقیدت مندوں نے ان کی زندگی میں ہی قائم کر لیا تھا اور جو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ ملک سے باہر بھی مختلف علاقوں میں مسلسل سرگرم عمل ہے۔ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے ساتھ میری عقیدت دو حوالوں سے ہے:

  • ایک حوالہ تو مشترک ہے کہ وہ ہمارے ملک کے نامور مفتیان کرام میں سے تھے اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھ ایک دور میں ایسے مفتیان کرام میں تیسرا بڑا نام مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کا سامنے آتا تھا جن سے مسائل معلوم کرنے کے لیے عامۃ الناس کی ایک بڑی تعداد تو رجوع کرتی ہی تھی مگر ان بزرگوں کو ملک بھر کے علماء کرام میں بھی مراجع کی حیثیت حاصل تھی کہ علماء کرام اور مفتیان کرام اپنی الجھنوں اور علمی اشکالات کو دور کرنے کے لیے انہی سے رجوع کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
  • جبکہ دوسرا حوالہ یہ ہے کہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ دورۂ حدیث کے ساتھی تھے اور دونوں نے غالباً سن ۱۹۴۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے اکٹھے سند فراغت حاصل کی تھی۔ ان دونوں نسبتوں کے حوالے سے الرشید ٹرسٹ کے ساتھ بھی تعلق ہے اور اس کی مساعی کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔

الرشید ٹرسٹ کے ساتھ تعلق خاطر کا ایک اور سبب بھی ہے۔ وہ یہ کہ خدمت انسانیت اور رفاہی سرگرمیوں کے میدان میں ’’صلیب احمر‘‘ (ریڈ کراس) کے ہمہ گیر، معیاری اور وسیع تر کام کو دیکھتے ہوئے دل میں ایک حسرت سی مچلنے لگتی ہے کہ کاش عالم اسلام میں بھی کوئی ایسی تنظیم ہو جو رفاہی میدان میں ریڈ کراس کی طرز کا اعتماد اور ساکھ قائم کر سکے اور اس کا نام بھی عالمی تنظیموں کے ساتھ لیا جائے۔ کسی زمانے میں ’’صلیب احمر‘‘ کے مقابلے میں ’’ہلال احمر‘‘ کے نام سے ایک عالمی ادارہ وجود میں آیا تھا اور اب بھی کسی نہ کسی سطح پر اس کی سرگرمیاں دیکھنے میں آجاتی ہیں لیکن وہ اپنی جدوجہد اور خدمات میں ریڈ کراس کی مثال نہیں بن سکا۔ الرشید ٹرسٹ کے کام کا تسلسل اور تنوع دیکھ کر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ خدا کرے اس خلا کو پر کرنے میں یہ ادارہ کوئی کردار ادا کر سکے، آمین یا رب العالمین۔ اگرچہ یہ منزل ابھی بہت دور ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن کسی بات کی خواہش کرنے پر تو کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی اور کوئی با ہمت شخص یا گروہ کسی بات کا عزم کر لیں تو قدرت نے کبھی ارباب ہمت کو راستہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیا۔

بہرحال ان جذبات و تاثرات کے ساتھ الرشید ٹرسٹ کے پروگرام میں شریک ہوا اور ایک کار خیر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔ پروگرام میں شہر کے سرکردہ علماء کرام اور دینی کارکن شریک تھے اور کراچی سے ٹرسٹ کے نمائندہ جناب عمران قریشی بھی تشریف لائے ہوئے تھے جنہوں نے پروگرام کے شرکاء کو ملک بھر میں الرشید ٹرسٹ کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا، انہوں نے گزشتہ سال آزاد کشمیر اور ہزارہ میں زلزلہ سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کی امداد اور ان کی بحالی کے سلسلہ میں ٹرسٹ کی مساعی کے بارے میں بتایا اور آئندہ عزائم اور پروگرام سے باخبر کیا۔
گزشتہ رمضان المبارک کے بعد زلزلہ زدہ علاقے کے تفصیلی دورے کے موقع پر پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے ہمراہ الرشید ٹرسٹ کی خدمات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکا ہوں۔ یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ خدمات کا یہ تسلسل قائم ہے اور ایک سال گزر جانے پر بھی ٹرسٹ ان علاقوں میں اسی جذبے کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ گوجرانوالہ ضلع کے دو سو مستحق خاندانوں میں رمضان المبارک پیکج کے عنوان سے امدادی سامان کی تقسیم کے اس پروگرام میں مجھے کچھ گزارش کرنے کے لیے بھی کہا گیا، میں نے اس موقع پر جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ الرشید ٹرسٹ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز کا صدقہ جاریہ ہے اور یہ حضرتؒ کا امتیاز و افتخار ہے کہ انہوں نے ایسے دور میں اہل دین کو دین کے ایک اہم شعبہ کی طرف متوجہ کیا جبکہ روایتی دینی حلقوں اور مراکز کی اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ انسانیت کی خدمت، معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کی امداد اور معذور و بے کس افراد کی کفالت ہمارے دینی فرائض میں سے ہے۔ سوسائٹی میں یتیم، بیوہ، معذور، بے روزگار اور بے سہارا افراد ہر وقت ہماری توجہات کے طلبگار ہوتے ہیں اور دین نے ہمیں ان کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تو پورے دین کا خلاصہ ہی تین باتوں میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ:

  1. اللہ تعالیٰ کو عبادت سے،
  2. جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطاعت سے،
  3. اور مخلوقِ خدا کو خدمت سے

سے راضی کرو، یہی سارے دین کا خلاصہ ہے۔ میں اکثر اوقات یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے دینی لٹریچر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر غار حرا میں وحی نازل ہونے کے بعد آپؐ کا پہلا تعارف ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وہ جملے ہیں جن کے ذریعے وہ آنحضرتؐ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:

’’بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بیواؤں کی خدمت کرتے ہیں، محتاجوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مسافروں کی خدمت کرتے ہیں، اور ناگہانی آفات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

وحی کے نزول کے بعد احادیث میں یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا تعارف ہے جو ایک سماجی خدمت گزار کا تعارف ہے اور اسی سے اسلام میں سماجی خدمات اور رفاہی کاموں کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی تعارف خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں اس وقت سامنے آیا جب وہ ایک موقع پر مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آکر جناب نبی اکرمؐ کی اجازت سے ہجرت کے لیے روانہ ہوگئے تھے اور بخاری شریف کی روایت کے مطابق ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کر چکے تھے کہ کافر قبیلہ بنو قارہ کا سردار ابن الدغنہ یہ کہہ اپنی ذمہ داری پر حضرت ابوبکرؓ کو مکہ مکرمہ واپس لے آیا کہ آپ جیسے آدمی کا شہر چھوڑ کر چلے جانا قوم کے لیے نیک فال نہیں ہے اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بیواؤں کی خدمت کرتے ہیں، محتاجوں کو کما کر دیتے ہیں، مسافروں اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور قدرتی آفات میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔

میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں نبوت کا تعارف بھی یہی ہے اور خلافت کا تعارف بھی یہی ہے۔ اور پھر نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مقابلہ کرنے کا میدان بھی یہی ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کوشش میں رہے کہ نیکیوں میں حضرت ابوبکرؓ سے آگے بڑھ سکیں لیکن خود فرماتے ہیں کہ دو مواقع ایسے آئے کہ میرے دل نے گواہی دی کہ عمر! اس شخص سے نیکیوں میں آگے بڑھنا تیرے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک موقع غزوہ تبوک کا ہے جب حضرت عمرؓ نے جہاد کے اخراجات میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنے گھر کے سامان اور رقم ہر چیز کا نصف جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور بہت خوش ہوئے کہ آج بازی لے جاؤں گا۔ لیکن جب تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر کا کل اثاثہ باندھ کر آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے آئے تو حضرت عمرؓ کو مایوسی ہوئی کہ وہ یہ مقابلہ نہ جیت سکے۔ دوسرا موقع حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کے دور میں مدینہ منورہ میں ایک بے سہارا بڑھیا رہتی تھی، حضرت عمرؓ ایک روز صبح نماز کے بعد معمولات سے فارغ ہو کر اس بڑھیا کی کٹیا میں اس خیال سے گئے کہ اسے ضرورت کی اشیا فراہم کر دوں، پانی کا مٹکا بھر دوں اور کٹیا کی صفائی کر دوں۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ روزانہ کوئی صاحب صبح صبح آتے ہیں اور یہ تینوں کام کر کے چلے جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے تجسس کر کے معلوم کیا تو وہ صاحب خلیفہ وقت حضرت ابوبکرؓ تھے جو روزانہ علی الصبح اس بے سہارا بوڑھی بیوہ کی خدمت کے لیے پہنچ جایا کرتے تھے۔

یہ ہمارا نیکیوں میں آگے بڑھنے اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کا میدان ہے۔ اسلام خیر کے کاموں میں باہمی مقابلہ سے روکتا نہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس کی ترغیب دیتا ہے جبکہ قرآن کریم نے مسلمانوں کو خیر کے کاموں میں باہمی مقابلہ کا سبق ان الفاظ سے دیا ہے ’’وفی ذٰلک فلیتنافس المتنفسون‘‘ کہ آپس میں مقابلہ کرنے والوں کو ان باتوں (جنت کی طلب) میں مقابلہ کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter