بیرون ملک جانے کا جنون ‒ حلال کی کمائی

   
تاریخ : 
۶ جنوری ۱۹۷۸ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور کی ایک خبر کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے نے تقریباً ایک درجن ایسی ریکروٹنگ ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستانیوں کو بوگس ویزوں پر بیرون ملک بھجوانے کا مذموم کاروبار کرتی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل حکومت مغربی جرمنی نے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ایک سو چار پاکستانیوں کو واپس بھجوایا تھا جو غیر قانونی طور پر انہی ریکروٹنگ ایجنسیوں کے ذریعے وہاں پہنچے تھے اور یہ واقعہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر رسوائی کا باعث بنا تھا۔

ہمارے ہاں باہر جانے کا رجحان اب جنون کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے محرکات میں ملک میں معقول روزگار کے فقدان اور ہنرمند افراد کی بے قدری کے ساتھ ساتھ دولت جمع کرنے اور معیارِ زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے بڑھ جانے کی ہوس بھی شامل ہے۔ ہم اہل علم و فن کے ملک سے باہر جانے کے مخالف نہیں کیونکہ اس سے ملک کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے جو آج کے دور میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ لیکن باہر جانے کے نام سے اس وقت جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے اسے کسی بھی صورت مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حکومت اور دیگر قومی اداروں کو اس صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے اور ویزوں کا جعلی کاروبار کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے افرادی قوت کے اس بے تحاشا انخلاء کے اثرات و نتائج پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ ہماری رائے میں حکومت کو ملک کی افرادی قوت کی منصوبہ بندی کر کے ملک میں روزگار کے مواقع میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔ اور جن افراد کا بیرون ملک جانا ملک و قوم کے مفاد میں ہو ان کی بھی مناسب تربیت کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ وہ بیرون ملک اپنے وطن کی بدنامی اور رسوائی کا ذریعہ نہ بنیں۔

حلال کی کمائی

اے پی پی کی اطلاع کے مطابق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے اسلام آباد میں سہ فریقی لیبر کانفرنس کے عشائیہ میں مزدوروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حلال کی کمائی میں برکت ہوتی ہے اور انسان رزق سے اس وقت ہی بھرپور استفادہ کر سکتا ہے جب وہ حلال کمائی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو۔

جنرل موصوف کا ارشاد بالکل بجا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حلال کمائی کا ذریعہ کیا ہے؟ کیا اس نظام معیشت میں جس کی بنیاد سود اور سٹے پر ہو، کوئی بھی فرد اپنی کمائی کے خالص ہونے کا یقین کر سکتا ہے؟ جنرل صاحب موصوف صاحبِ اختیار ہیں اس لیے یہ فرض سب سے پہلے انہی کا ہے کہ وہ اس ملک میں حلال کمائی کے مواقع لوگوں کو مہیا کریں، اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک معیشت کے اجتماعی نظام کو حرام سے پاک کر کے حلال پر اس کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter